ہوم << خدا کا عذاب- عبداللہ طارق سہیل

خدا کا عذاب- عبداللہ طارق سہیل

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے‘ ایک جگہ لوگوں نے خاصا بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا اور ایک قسم کا دھرنا دیدیا۔ ڈپٹی کمشنر موقع پر تشریف لائے۔ لوگوں کے مطالبات اور مسائل سنے اور اپنے ایک ماتحت پر مشتمل یک رکنی کمیٹی تشکیل دیدی اور اعلان کیا کہ یہ کمیٹی آپ کے جائز مطالبات کا تعین کرے گی۔

میں حلیفہ وعدہ کرتا ہوں کہ جیسے ہی اس کمیٹی کی رپورٹ آئے گی‘ آپ کے جائز مطالبات ویسے ہی تسلیم کر لئے جائیںگے۔ احتجاجی ہجوم اس وعدے پر منتشر ہو گیا۔ یک رکنی کمیٹی نے مختصر وقت میں اپنی رپورٹ ڈپٹی کمشنر کو دیدی۔ رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ مظاہرین کا کوئی بھی مطالبہ جائز نہیں ہے۔ صاحب بہادر نے رپورٹ پر اوکے لکھا اور پھر سب اوکے ہو گیا۔ مظاہرین کو پتہ چلا تو وہ حیران رہ گئے‘ لیکن اب کیا کر سکتے تھے۔ دوبارہ سے اکٹھا ہونا‘ پھر پہلے کی طرح کا مظاہرہ کرنا کاردارد تھا۔ صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئے اور شکر بھی کیا کہ سرکار نے ”ناجائز مطالبات“ کرنے پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ واقعہ وزیراعظم کی اس ہدایت پر یاد آیا جس کے تحت ایک شکایات کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ کمیٹی کو حکم دیا گیا ہے کہ بجلی کے صارفین کی جائز شکایات کا کم سے کم وقت میں ازالہ کیا جائے۔

اس کمیٹی کی رپورٹ شرط لگا لیجئے‘ مذکورہ بالا یک رکنی کمیٹی کی رپورٹ سے ذرا بھر مختلف نہیں ہوگی۔ چار دن کا احتجاج ہے‘ پھر سب اوکے ہو جائے گا۔بجلی کے صارفین کے ” ناجائزمطالبات“ بس دو ہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ بجلی اتنی مہنگی کیوں کی گئی‘ ہے۔ یعنی جو بجلی چار سال پہلے 8 روپے یونٹ تھی‘ اب 60 روپے کوکیوں جا پہنچی ہے۔ اور دوسرے یہ کہ اتنی مہنگی بجلی کے بل جب تیار ہو جاتے ہیں تو 20 فیصد کے لگ بھگ اوور چارجنگ کردی جاتی ہے۔ یعنی 60 روپے کے حساب سے کسی کابل20 ہزار آیا ہے تو حکم ہے کہ اسے 24 ہزار کر دو۔ یہ اوور چارجنگ کا حکم کس نے دیا ہے‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔

اللہ مفتاح اسماعیل کا بھلا کرے اور اللہ تھوڑا بہت بھلا وزیراعظم شہبازشریف کا بھی کردے۔ آمین‘ ثم آمین۔

عوام کا حال یہ ہے کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ وہ جتنی بچت بجلی چلانے میں کرتے ہیں‘ اگلے ماہ بل کم ہونے کے بجائے اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ مسلم لیگ (اپوزیشن گروپ) کے رہنما عابد شیر علی نے وزیراعظم سے فریاد کی ہے۔ بعض اخبارات نے ان کے تیز فقرے ”حذف“ کر دیئے ہیں۔ کچھ نے چھاپ دیئے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر سخت فقرہ یہ بھی کہا کہ جناب وزیراعظم خدا کا خوف کریں۔ عوام پر رحم کریں۔ مفتاح کا خطاب سن کر مایوسی ہوئی۔ پریس کانفرنس میںطلال چودھری نے کہا کہ وزیروں کی کارکردگی صفر ہے۔

جواب آں غزل یہ ہے کہ خدا کا خوف کریں۔ یا آئی ایم ایف کا؟ پنجابی محاورہ ہے۔ خدا نیڑے یا گھسن نیڑے۔ یعنی خدا تو آسمانوں پر ہے‘ ڈنڈے والا سر پر بیٹھا ہے۔ ویسے بعض باخبر احباب کا کہنا ہے کہ پٹرول مہنگا کرنے کا حکم تو بلا شبہ آئی ایم ایف نے دیا‘ لیکن بجلی 60 روپے یونٹ کرنے کا حکم آئی ایم ایف کا نہیں ہے۔ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرنے والوں کا تحفہ ہے اور اوور بلنگ کے حکم کا تو بہرحال آئی ایم ایف سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

عابد شیر علی نے آئی ایم ایف سے مذاکرات پر نظرثانی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف والوں کو نئے سرے سے قائل کیا جائے کہ حضور‘ سو کوڑے مارنے کا حکم واپس لیں‘ 80 یا 90 کوڑے کافی ہیں۔ چلیئے 95 کر دیں۔ طلال چودھری نے البتہ سراسر غلط بات کی ہے۔ سب وزراءکی کارکردگی صفر نہیں ہے‘ کم از کم مفتاح اسماعیل کی کارکردگی تو ریکارڈ حد تک مثالی ہے۔ ملک بھر کے عوام میں سے کسی سے بھی پوچھ لیجئے۔ ہر ایک داد دیتا ہوا نکلے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ داد بے بھاﺅکی ہوگی اور بے نقط ہوگی۔

پی ٹی آئی کے ”اندرونی“ حلقوں سے یہ خبر آئی ہے کہ ”وہ“ حضرت چاہتے ہیں کہ موجودہ پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی شہبازشریف ہی وزیراعظم رہیں۔ ظاہر ہے یہ خبر انہوں نے افسوس اور صدمے کے پیرائے میں دی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے‘ اوراس کے درست ہونے کے دیگر قرائن بھی دستیاب ہیں تو اس کا مطلب ہے

سیاں بھئے کوتوال‘ ڈر کاہے کا

یعنی بجلی کے بل اسی طرح بے خوف و خطر بڑھتے رہیں گے۔ اگلی حکومت کی کانسٹی چیونسی یعنی حلقہ انتخاب عوام نہیں ”وہ“ ہونگے۔عوامی ردعمل سے وہ اندیشہ کرے جس کا حلقہ انتخاب عوام ہو۔ مزید لکھنے کی ضرورت نہیں۔ بات سمجھ میں آ ہی گئی ہوگی۔

اور اس بات کا مطلب یہ بھی ہے کہ نوازشریف مزید پانچ برس تک جلاوطن ہی رہیں گے۔ وطن واپس نہیں آ سکیں گے۔ کیا خیال ہے‘ غلط بات کی یا ٹھیک؟

ایک دن پہلے عمران خان کسی کیس میں ضمانت کیلئے عدالت تشریف لائے جو فوراً مل گئی۔ اس موقع پر اخبارنویسوں سے ان کا سامنا ہوا۔ کسی ”شرپسند“ صحافی نے پوچھا‘ نیوٹرل حضرات کے بارے میں آپ کی اب کیا پالیسی ہے۔ فرمایا‘ اب میں زیادہ خطرناک ہو گیا ہوں۔ یہ ان کی خوش فہمی ہے اور میں اس خوش فہمی میں شریک حضرات کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ جو‘ ان کے حامی ہیں وہ تو ہیں ہی‘ ان کے ناقدین کی ایک بڑی تعداد بھی ایسا ہی سمجھتی ہے۔

حقیقت کچھ اور ہے۔ وہ جب حکومت میں تھے‘ تب ”خطرناک“ بلکہ بہت ہی ”خطرناک“ تھے۔ اتنے کہ ملک کو عملاً ڈیفالٹ کردیا۔ جب وہ اقتدار سے نکلے تب ملک بھی اس حالت سے نکلا۔ ان کی خطرناکی بے پایاںاور بے انت تھی۔ اب وہ ”خطرناک“ نہیں رہے۔ بس ایسا خیال کر رہے ہیں اور اپنے اور اپنے معتقدین کے دل کو خوش رکھنے کیلئے غالباً یہ خیال بہت اچھا ہے۔

اب ان کی خطرے ناکی اگر کچھ ہے بھی تو بس سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی حد تک ہے اور کچھ زیادہ عدم استحکام پیدا نہیں کر سکے۔ کیا کسی کو سیاسی عدم استحکام نظرآتا ہے کہ جو ہے وہ معاشی بے چینی ہے اور اگر یہ بے چینی عدم استحکام میں بدلی تو سہرا عمران نہیں‘ موجودہ حکومت کے سر جائے گا۔ بہرحال وہ اس خوش گمانی میں مبتلا رہ کر خوش ہیں تو خوش رہیں‘ کم از کم ایک مہینے تک۔ ایک مہینے کے اندر یا اس سے کچھ اوپر دن گزرنے کی دیر ہے‘ پھر خطرے ناکی کا گمان بھی خواب و خیال میں بدل جائے گا۔ رہے نام اللہ کا۔

سیلاب سے ہونے والی دردناک تباہی کوکچھ افراد اللہ کا عذاب قرار دے رہے ہیں۔ دین کا علم رکھنے والے علماء(ظاہر ہے‘ ایسے علماءبہرحال موجود ہیں جن کے پاس دین کا علم واقتعاً ہے) رہنمائی کریں کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ یا حکمران طبقات کی لاپروائی کا نتیجہ ہے؟ اللہ کا عذاب اگر گناہوں پر آتا ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ پوش سوسائٹیوں میں سب اللہ کے ولی رہتے ہیں اور سیلاب زدہ علاقوں کے جھگے جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں رہنے والے ”بدترین گناہ گار“ ہیں۔

Comments

Click here to post a comment