میٹرک کے امتحانات کے نتائج بہت سوں کےلیے مسرت آمیز تھے۔ کسی بچے کا والد درزی ہے تو کسی کا گدھا گاڑی چلاتا ہے۔ کوئی بچی معذوری کے باوجود بورڈ میں پوزیشن لیتی ہے تو کوئی اپنی غربت کو راہ کی دیوار بنانے سے انکار کر دیتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ایک اور خبر چھپی ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ دنیا اخبار کے مطابق کم از کم دو بچوں نے میٹر ک کے امتحان میں ناکامی پہ دل برداشتہ ہو کے خود کشی کرلی۔ اس کے علاوہ بھی کئی بچوں نے خودکشی کی، جو ابھی تک اخبار کی خبروں کا حصہ نہیں بن سکی۔ مثال کے طور پہ اوکاڑہ میں ایک دوست کے کزن نے بھی اسی وجہ سے خود کشی کی اور اب میرا وہ دوست مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ اس طرح کی خودکشی میں بھی، جہاں مرنے والا ایک نادان اور جذباتی لڑکا تھا، عام سمجھدار مسلمان والے احکام لاگو ہوں گے (کیونکہ اسلام میں خود کشی کو سخت ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے) اب آپ ہی بتائیے اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟
لازم ہے کہ اس طرف سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔ اخبارات، ٹی وی چینلز پر ماہرین اور مساجد میں علمائے کرام اس موضوع پر بات کریں اور والدین و معاشرے میں آگاہی پیدا کریں۔ عام طور پر خود کشی کرنے کی کم از کم دو وجوہات ہیں۔ پہلی طالب علم کی کمزور شخصیت اور دوسری معاشرے اور والدین کی طرف سے دباؤ اور سخت رویہ۔ ان دونوں وجوہات کو الگ الگ دیکھ لینا چاہیے۔
کمزور شخصیت والے نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور نامساعد حالات دیکھ کے جلد مایوس ہو جاتے ہیں، گھبرا جاتے ہیں۔ انہیں اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا سوائے اس کے کہ خود کشی کر لیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ والدین کی طرف سے اس طرح کی تربیت کی جائے کہ بچے میں ناکامیوں کے خلاف لڑنے کا حوصلہ پیدا ہوجائے۔ اس کا دوسرا حل یہ ہے کہ نوجوان خود غیر نصابی کتابیں پڑھتا رہا ہو، جس سے اس کی شخصیت میں پختگی آتی ہے۔ میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہوں جو چھ سال قبل ایف ایس سی کے امتحان میں فیل ہو گیا تھا، اس کے والدین نے اس کی سرزنش کی مگر وہ نوجوان غیر نصابی کتابوں کا رسیا تھا اور کئی عالمی شخصیات کی آب بیتیاں پڑھ چکا تھا، جس سے اس کی شخصیت مضبوط ہو چکی تھی۔ اس نوجوان نے اپنے رجحان کو دیکھتے ہوئے دوسری بار ایف اے (یعنی آرٹس کے مضامین) کیا اور حیران کن طور پر ملتان بورڈ میں دوسری پوزیشن لی۔ تقریب تقسیم انعامات کے لیے اطلا ع دیتے ہوئے بورڈ کے نمائندے بھی حیران تھے اور انہوں نے اس کی باقاعدہ تصدیق کی کہ آیا یہ وہی نوجوان ہے جو پچھلی دفعہ ایف اسی سی کے امتحان میں فیل ہو گیا تھا۔
خودکشی کرنے کی دوسری وجہ والدین اور معاشرے کی طرف سے دباؤ ہے۔ بچے کی ناکامی پر کچھ والدین شدید چیختے چلاتے، ناراض ہوتے ، بچے کو زدو کوب کرتے ہیں اور اسے ناکام ٹھہراتے ہیں۔ کچھ بچے والدین کے اس رویے کے ڈر سے اور کچھ اس کے ردعمل میں غصے سے جذبات میں آ کر خود کشی کر لیتے ہیں۔ پھر والدین دیواروں سے سر ٹکراتے پھریں تو کیا فائدہ؟ اکثر والدین کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کا بچہ کیا نمبرز حاصل کرتا ہے، ان کا مطالبہ ہوتا ہے تو بس اتنا کہ "فلاں پھوپھو کے لڑکے سے نمبر زیادہ آنے چاہیے" یا "فلاں چچا اور ماموں کا لڑکا بازی نہ لے جائے"۔ یہ رویہ بھی انتہائی خطرناک ہے۔ نوجوان لڑکے اپنے کزنز کے معاملے میں انتہائی حساس ہوتے ہیں اور ان سے اپنے تقابل پر شدید نفسیاتی ردعمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
کچھ والدین ایسے بھی ہوتے ہیں جو لڑنےجھگڑنے اور برسنے کے بجائے نوجوان اولاد سے بات چیت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ردعمل کے طور پر لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ بھی خطرناک رویہ ہے اور کئی دفعہ لڑنے جھگڑنے سے بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بچہ والدین کی اس لاتعلقی کو برداشت نہیں کر پاتا۔ درست رویہ یہی ہے کہ والدین بچے کا حوصلہ بلند کریں اور اسے بتائیں کہ ناکامیاں بھی زندگی کا ایک حصہ ہیں، زندگی اتنی ارزاں نہیں کہ چھوٹی چھوٹی ناکامیوں پر قربان کر دی جائے۔ بچے کا حوصلہ بڑھایا جائے کہ وہ محنت کرے تو کامیابی حاصل کر لے گا، اسے گھبرانے یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں.
جی چاہتا ہے کہ اپنی مسجد کے امام سے کہوں کہ جمعہ کے ایک خطبے کا موضوع اس بات کو بنایا جائے، اینکرز ایک آدھ ٹی وی پروگرام اس موضوع پر بھی کریں تاکہ والدین اور نوجوان بچوں میں آگاہی پھیلے۔ ابھی انٹر کے نتائج کا بھی اعلان ہونے والا ہے، شاید ہمارے نوجوانوں کی کچھ قیمتی جانیں بچائی جا سکیں۔
تبصرہ لکھیے