ہوم << اس جنگ سے دُور رہو - اوریا مقبول جان

اس جنگ سے دُور رہو - اوریا مقبول جان

دُنیا ستتر سال بعد ایک دفعہ پھر ایک بڑی عالمی جنگ کی مکمل تیاریوں میں ہے۔ ایک دفعہ پھر ویسے ہی تقسیم ہو چکی ہے، جیسے فروری 1945ء کو تین فاتحین نے یوکرین کے علاقے کریمیا میں جمع ہو کر اسے آپس میں بانٹا تھا۔

یہ تینوں تھے، امریکی صدر روز ویلٹ، برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور سوویت یونین کا سر براہ جوزف سٹالن۔ ہٹلر اور اس کے اتحادی شکست کھا چکے تھے اور جنگ زدہ یورپ کو مالِ غنیمت کے طور پر تقسیم کیا جا رہا تھا۔ ملکوں کی بندر بانٹ کا فیصلہ بحرِ اسود کے خوبصورت شہر یالٹا (Yalta) میں ہوا، جہاں 4 فروری سے 11 فروری 1945ء تک یہ کانفرنس چلتی رہی اور پھر پورا یورپ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ بارہ ممالک کا ایک اتحاد، امریکی سرپرستی میں بن گیا، جو ’’نیٹو‘‘ کہلایا اور آٹھ ممالک ’’وارسا پیکٹ‘‘ کے تحت ایک ہی دن میں اچانک کیمونسٹ ہو گئے۔

اس دن سے سرد جنگ کا ایک ایسا طویل عرصہ شروع ہوا جو یورپ کے لئے تو امن ہی لایا مگر پوری دُنیا اس کے عذاب میں مبتلا ہو کر خون و بارود میں نہاتی رہی۔ صرف پانچ سال بعد ہی 1950ء میں کوریا کی جنگ چھیڑ دی گئی، 1955ء میں ویت نام پر جنگ مسلّط ہوئی، 1960ء میں کانگو بارود کی بُو میں لپیٹ دیا گیا، 1967ء میں کمبوڈیا کی جنگیں طول پکڑ گئیں اور آخری معرکہ افغانستان کی سرزمین پر 1979ء میں شروع ہوا جس کے نتیجے میں 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹا اور یہ سلسلہ تھم گیا۔ جرمنی کے شہر برلن کو 1945ء میں تقسیم کر کے جو دیوار اُٹھائی گئی تھی، وہ توڑ دی گئی اور دُنیا پر صرف امریکہ کا حکم چلنے لگا۔ اس کے باوجود جنگ دُنیا میں اب بھی جاری تھی، مگر یورپ اس مصیبت سے دُور تھا۔ ہنستے بستے مسکراتے یورپی شہروں کے رہنے والے ٹیلی ویژن سکرینوں پر افغانستان اور عراق کی ہولناکی، تباہی و بربادی کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے، تبصرے کرتے اور میٹھی نیند سوتے۔

سرد جنگ کے دوران جو دُنیا 1991ء تک آپس میں منقسم تھی، دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اکٹھی ہو گئی۔ امریکہ اور یورپ تو افغان اور عراق جنگوں میں اُلجھے رہے مگر اس عرصے میں چین و روس نے خود کو معاشی طور پر مستحکم اور عسکری طور پر مضبوط کر لیا۔ افغانستان میں شکست کے بعد وہاں سے بوریا بستر باندھنا شروع کیا تو جیسے ہی آنکھ اُٹھا کر اردگرد دیکھا تو چین عالمی اقتصادیات پر چھا چکا تھا اور روس یورپ کے مقابلے میں طاقتور ہو گیا تھا۔ ان دونوں کی معاشی اور عسکری پیش قدمی اور برتری کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہی تو ہے جس نے ستتر سال بعد، ایک بار پھر یورپ کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر جوبائیڈن دُنیا کے ممالک کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے کوشاں ہے اور دوسری طور روسی صدر پیوٹن دُنیا بھر کے دورے کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے لئے خیرخواہ پیدا کرے سکے۔ امریکی حمایت میں یورپی یونین کے تمام ممالک، کینیڈا، جاپان اور نیوزی لینڈ ہیں، جبکہ روس کے ساتھ یورپ میں سے بیلا روس اور باقی دُنیا سے چین، ایران، کرغستان، شمالی کوریا، کیوبا، وینزویلا اور نکاراگوا جیسے ممالک ہیں۔

اس واضح صف بندی میں یوں تو روس کا پلڑا کمزور نظر آتا ہے، لیکن امریکہ کے ساتھ بظاہر صرف تعداد ہی ہے مگر شاید ہی کوئی ایک بھی ملک ہو جو دل سے اس جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہو۔ جبکہ روس کے ساتھ والے ممالک، مکمل طور صف بستہ اور تیار ہیں۔ دونوں طاقتیں دُنیا بھر میں اپنے حمایتی ڈھونڈنے کو نکلیں تو اس مشن میں امریکہ کو ذلّت و رُسوائی اور بدترین شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ جوبائیڈن جولائی میں اپنے دو اہم دوستوں اسرائیل اور سعودی عرب پہنچا۔ دورے کا مقصد یہ تھا کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک زیادہ تیل پیدا کریں تاکہ روس کا تیل کم قیمت پر بکے، لیکن نہ صرف اسے انکار کی ذلّت اُٹھانا پڑی بلکہ اوپیک کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ روس کی ہماری تنظیم میں شمولیت ہمارے لئے بہت اہم ہے اور اگلے ہی ہفتے سعودی شاہی خاندان کے شہزادہ ولید بن طلال نے روس کی تین تیل کی کمپنیوں گیس پروم (Gazprom)، روزنیفٹ (Rosneft) اور لوکوئل (Lukoil) میں پچاس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ افریقہ کے ممالک سرد جنگ کے دوران ہمیشہ میدانِ جنگ بنتے چلے آ رہے ہیں۔

براعظم افریقہ کی بدحالی کی وجہ کانگو، نمبیبا، انگولا اور ایتھوپیا کی وہ جنگیں ہیں جو انہوں نے سرد جنگ کے زمانے میں ہی لڑیں اور اپنی معیشتیں تباہ کر لیں۔ افریقہ چونکہ یورپ کے قرب و جوار میں ہے، اس لئے آنے والی عالمی جنگ میں اس کی ضرورت بہت اہم ہے۔ اسی لئے امریکی وزیر خارجہ ’’بلنکن‘‘ جہاں ویت نام اور میانمار کے دورے پر گیا وہیں افریقہ میں روانڈا ، کانگو اور جنوبی افریقہ بھی گیا۔ اس کے مقابل، روسی وزیر خارجہ سرگیلاروف (Sergelarov)، مصر، ایتھوپیا، یوگنڈا اور کانگو گیا، تاکہ یوکرین کی جنگ میں افریقی ملکوں کو ساتھ ملائے۔ ایک وقت تھا کہ یہ تمام ممالک امریکی حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن آج یہ امریکہ کو اس کی منافقت کا آئینہ دکھا رہے ہیں۔ امریکہ نے انہیں ’’حکم‘‘ دیا کہ وہ روس سے تیل، گیس یا دیگر اشیاء نہیں خریدیں، ان ممالک نے جواب دیا کہ پہلے یہ حکم یورپ پر نافذ کرو جو مسلسل روس سے گیس خریدے جا رہا ہے۔

افریقی یونین کے صدر نے ’’سوچی‘‘ میں ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے نکالنے کے لئے جب ووٹنگ ہوئی تو 54 افریقی ممالک میں سے صرف دس نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ ایسا منظر اس وقت بھی نظر آیا، جب اقوام متحدہ نے یوکرین سے روسی افواج کے نکل جانے کی قرارداد پر ووٹنگ کروائی تو 17 افریقی ممالک نے بائیکاٹ کیا۔ امریکہ کو ایسی ہی شکست کا سامنا لاطینی امریکہ کے ممالک میں بھی ہوا اور اسے کوئی ایک بھی ملک ایسا نہ مل سکا جو کھل کر اس جنگ کا ایندھن بننے کو تیار ہو۔ اس تیسری عالمی جنگ کی صف بندیوں میں اب دو اہم ملک باقی بچے ہیں ایک بھارت اور دوسرا پاکستان۔

بھارت اگرچہ کہ اس چار ملکی اتحاد (QUAD) کا حصہ ہے جو چین کے خلاف بنا ہے، لیکن پھر بھی اس نے دونوں طاقتوں سے اپنے تعلقات کو ویسے ہی بحال رکھا ہوا ہے اور جس طرح سرد جنگ کے دوران نہرو، ٹیٹو اور ناصر نے ایک غیر جانبدار (Non Allied) 18 ملکوں کا گروہ بنایا تھا، جس کی وجہ سے بھارت دونوں عالمی طاقتوں کا لاڈلا بنا رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان پر یا تو امریکی دبائو بہت زیادہ ہے یا پھر امریکہ سے ہمارے عشق کی کوئی انتہا نہیں۔ آرمی چیف کے استقبال اور پھر امریکہ کے دورے کی تیاریاں بہت کچھ بتا رہی ہیں۔ دُنیا بھر کے میڈیا میں خبریں ہیں کہ عالمی فلائٹ ٹریکنگ سسٹم کے مطابق چھ اگست سے روزانہ برطانوی رائل ایئر فورس کا C-17A گلوب ماسٹر طیارہ رومانیہ کے ہوائی اڈے سے اڑتا ہے اور راولپنڈی پہنچتا ہے۔ یہ کارگو طیارہ 77 ہزار کلو گرام وزن اُٹھا سکتا ہے۔

یہ طیارے ایران اور افغانستان کی فضائی حدود سے گزرنے کی بجائے لمبی اُڑان لے کر مصر، سعودی عرب اور عمان کے راستے پاکستان آتا ہے۔ برطانوی ایئر فورس کا ایک طیارہ C-17A گلوب ماسٹر III، تینتیس ہزارفٹ کی بلندی پر کوئٹہ پر بھی پرواز کرتے ہوئے پایا گیا ہے جس کا سیریل نمبر 22176 تھا۔ دُنیا بھر سے شائع ہونے والے عسکری میگزین اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں موجود بیشمار رپورٹیں اس غیر معمولی نقل و حمل کے تانے بانے یوکرین سے جوڑ رہی ہیں۔ اگر ہم واقعی خدانخواستہ اس جنگ میں کود چکے ہیں تو فوراً نکل آئیں۔ یہ قدم خطرناک ہو سکتا ہے، یہ 1914ء اور 1939ء کا برطانوی ہندوستان نہیں ہے، جب دونوں عالمی جنگوں میں برما اور بلجیم کے محاذوں پر مسلمان سپاہی لڑنے کے لئے بھیجے جاتے تھے۔ یہ مملکتِ خداداد پاکستان ہے۔

Comments

Click here to post a comment