ہوم << دنیائے ادب کے مولانا- مرزا محمد منور

دنیائے ادب کے مولانا- مرزا محمد منور

Maoulana-salah-uddin-ahmad-300x336 مولانا چراغ حسن حسرتؔ مرحوم کی تصویر نہ جانے کس میگزین میں دیکھی تھی۔ وہ تصویر خواہ مخواہ پسند آ گئی، چناںچہ خود حسرت صاحب کو دیکھنے کا شوق دل میں چٹکیاں لینے لگا۔ یہ لطیف حادثہ کب رونما ہوا ٹھیک سے یاد نہیں۔ بہرحال پاکستان بن چکا تھا… پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ میں ۱۹۵۱ء میں لاہور پہنچا اور ایم اے اردو میں داخل ہو گیا۔ طبیعت کو یک گو نہ اطمینان نصیب ہوا کہ اس شہرِ طلسمات میں عظیم ادبی ساحروں سے ملاقات ہوتی ہی رہے گی اور اب وہ دسترس سے باہر نہیں۔
ایک روز میں اور نصیر احمد زار جو میرے لڑکپن کے ساتھیوں میں سے ہیں‘ مال روڈ کے فٹ پاتھ پر جا رہے تھے۔ رخ شاید جناخ باغ کی جانب تھا۔ تبھی سامنے سے آتے ہوئے ایک شخص معتبر دکھائی دیے۔ سر پر ٹوپ، ہاتھ پر چھڑی، جاندار اور گھیردار مونچھیں، چال میانہ، ڈھال نمایاں۔ معقول سی توند جسم کے آگے آگے رواں تھی۔ میں نے زار صاحب سے کہا ’’وہ دیکھو شاید چراغ حسن حسرتؔ ہیں۔ اگر ان سے تعارف ہے تو مجھ سے بھی ملوا دیجیے۔‘‘
بولے ’’یہ تو مولانا صلاح الدین ہیں، ادبی دنیا والے۔‘‘ میں نے کہا ’’جب بھی کیا مضائقہ ہے، انہی سے مل لیتے ہیں۔‘‘ یہ کشش اس تصویر سے مشابہت کی پیدا کردہ تھی۔ قریب پہنچے‘ تو پتا چلا کہ مولانا زارؔ صاحب سے خاصے بے تکلف ہیں۔ دونوں باہم تپاک سے ملے۔ زارؔ صاحب نے میرا بھی تعارف کرایا۔ مولانا بڑی شفقت سے پیش آئے، میں نے سوچا ع
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
زارؔ صاحب تب پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو کی اوّلین جماعت میں شامل تھے۔ یہ جماعت ۱۹۴۸ء میں شروع ہوئی تھی۔ ۱۹۵۰ء کے اکتوبر میں نتیجہ آیا۔ زارؔ صاحب پاس ہو گئے۔ اس طرح مستند بیکاروں میں ایک قابل قدر بیکار کا اضافہ ہو گیا۔ بیکاری کے عالم میں لوگوں سے پیار بڑھ جاتا ہے جن سے معمولی جان پہچان ہو‘ ان سے بھی بغلگیر ہونے کو جی چاہتا ہے۔ زارؔ صاحب بھی ان دنوں کچھ معمول سے زیادہ ملنسار ہو گئے۔ کسی نہ کسی ’’دوست‘‘ یا ’’بزم‘‘ کی کشش انھیں دوڑائے رکھتی۔
1370981055_223
میں اس معاملے میں ان کا اچھا رفیق ثابت نہ ہو سکتا تھا۔ کچھ اس لیے کہ مزاجاً کاہل ہوں اور کچھ اس لیے کہ ابھی میرے ملنسار ہونے کے لیے مناسب وقت نہ آیا تھا۔ میں ابھی دو سال تک اپنی شیروانی کے بٹن بند کیے مگن رہ سکتا تھا۔ تاہم ایک شام زارؔ صاحب نے فرمایا ’’بھئی میں مولانا صلاح الدین سے ملنے جا رہا ہوں‘ چلو گے!‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور چل دیا۔
سورج غروب ہوئے کم ازکم دو گھنٹے گزر چکے تھے‘ مگر مولانا اپنے دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ ہم وہاں بیس پچیس منٹ بیٹھے ہوں گے کہ مولانا نے فرمایا ’’اچھا تو چلیں۔‘‘ زارؔ صاحب نے ہامی بھر لی۔ مولانا نے دفتر بند کیا اور مال پر اتر آئے۔ پھر کیا ہوا، کہاں تک ہم اکٹھے چلے، کچھ یاد نہیں۔ یوں زارؔ صاحب کی بدولت میں نے مولانا کا دفتر بھی دیکھ لیا۔ اس کے بعد جلد زارؔ صاحب ایڈورڈ کالج، پشاور میں اردو کے استاد بن کر چلے گئے اور ان کی فالتو ملنساری کا بھوت اتر گیا۔ ان کے چلے جانے سے لاہور کا تو کیا بگڑتا‘ البتہ میں خاصا ویران ہو گیا۔
ہماری ایم اے اردو کی جماعت میں لڑکیاں لڑکے ملا کر کوئی پچھتر ’’دانش پناہ‘‘ شامل تھے۔ لہٰذا حلقۂ تعارفات بہت جلد وسیع ہو گیا۔ وولز ہاسٹل میں ڈیرہ تھا۔ وہاں بھی علیک سلیک بڑھنے لگی۔ ملاقاتوں اور انتقامی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تاہم جی سیر نہ ہوتا۔ عمر میں اپنے سے بڑوں کی مجلس ہمیشہ عزیز رہی تھی۔ بزرگوں ہی کی گپ مزا دیتی مگر یہاں جن اصحاب سے یارا نہ ہوا‘ وہ بزرگ نہ تھے۔ اساتذہ کا قرب چاہا اور انھوں نے مہربانی بھی فرمائی۔
مگر آخر وہ مہربانی ہی تو تھی… مہربانی میں دلجوئی ضرور ہوتی ہے، دلکشی نہیں ہوتی۔ لہٰذا رفتہ رفتہ طبیعت پر گراں گزرنے لگتی ہے… البتہ مولانا علم الدین سالک اور سید عابد علی عابدؔ کی مہربانی میں دوستی کی لطافت بھی پیدا ہو گئی۔ چناںچہ ان دونوں بزرگوں کے لیے دل میں خاصی کشش رہی۔ یہ تو مجھے پتا چل ہی گیا تھا کہ مولانا عشا تک عموماً دفتر میں کام کرتے ہیں۔ چناںچہ شام کے وقت جس روز بھی طبیعت اداس ہوتی ‘ میں ادبی دنیا کے دفتر پہنچ جاتا۔ شام کے وقت تنہائی کے عالم میں اور پردیس کی فضا میں دل کا اداس ہونا دستوری اور اصولی بات ہے۔
کئی دیگر اہل دل نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسی طرح ہوتا ہے۔ خیرمیں ادبی دنیا کے دفتر پہنچتا‘ تو یک گو نہ اطمینان محسوس ہونے لگتا۔ مولانا اور میں کوئی زیادہ باتیں نہ کرتے۔ مثلاً میں پہنچا، تبادلہ سلام ہوا۔ ایک آدھ رسمی جملہ انھوں نے ارشاد فرمایا، کوئی ایک آدھ بات میں نے کی اور پھر اپنا اپنا کام۔ یعنی مولانا کوئی پروف پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ میں نے کوئی پرانا رسالہ یا کتاب اٹھائی اور پڑھنے لگا۔
مولانا کا عمومی تصور اب تک یہی ہے کہ وہ کوئی پروف پڑھ رہے ہیں۔ عینکیں سجی ہیں، بال جتنے کچھ تھے، وہ اڑ رہے ہیں، انداز بتاتے ہیں کہ ذہن ظاہری مصروفیت سے کچھ زیادہ ہی مصروف ہے۔ جب ذرا بے تکلفی بڑھی‘ تو میں نے پائوں پھیلانے شروع کیے۔ وہ فقط ان معنوں میں کہ ان کے دفتر جا کر کوچ پر لیٹ جاتا اور پڑھتا رہتا۔ اس زمانے میں ایک کوچ دفتر میں رکھا ہوتا۔ پڑھنے کے لیے وہاں رنگ رنگ کی کتب موجود تھیں۔
کچھ تبصرے کے لیے آئی ہوئی ہیں‘ کچھ ہدیہ شریف ہیں۔ مگرانھیں گرد چاٹ رہی ہوتی۔ انبار لگا ہوتا۔ کوئی نظم و ترتیب ان کے کمرے میں نہ تھی۔ رسائل ہیں تو وہ کچھ اوپر تلے دھرے ہیں۔ اس زمانے میں مولانا کوئی کتاب یا رسالہ کم ہی پڑھتے۔ ان کے ذہن میں نجانے کیا کیا بوجھ تھے۔ میں نے کبھی نہ پوچھا مگر ذہن عموماً زیر بارِ گراں ہی پایا جس کا عمومی اظہار ایک طرح کی وضعدارانہ اداسی تھی۔
آج سوچتا ہوں کہ آخر ہم کیا باتیں کرتے تھے‘ تو کچھ یاد نہیں آتا۔ میراؔ جی، کرشن چندر، باریؔ امرتسری، یوسف ظفرؔ… سب سے برتر ظفر علی خان سے ان کی محبت تھی، شیفتگی کی حد کو پہنچی ہوئی محبت! مجھے یاد ہے، جب بھی وہ اپنے لڑکپن کی طرف لوٹتے، تو مولانا کے گھر اپنا آنا جانا بڑے چائو سے بیان کرتے۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں اچانک خود مولانا ظفر علی خان کی آنکھوں والی چمک جلوہ ریز ہو جاتی۔
آخر اکتوبر ۱۹۵۳ء میں میری تقرری لائلپور (فیصل آباد) گورنمنٹ کالج میں ہو گئی اور لاہور بلکہ وولز ہاسٹل سے جدا ہو گیا۔ میرا اصل لاہور تو وولز ہاسٹل ہی تھا۔ مجھے ہاسٹل سے بڑی محبت تھی۔ لائل پور چلے جانے کے بعد بھی کئی سال تک میں وہاں آ کے کسی نہ کسی بہانے ٹھہرتا رہا۔ طبیعت ’’ماندی‘‘ ہوتی تو وولز ہاسٹل کے درودیوار کی خوشبو اسے اعتدال عطا کر دیتی۔
میں لائلپور سے جب بھی لاہور آتا دوستوں اور کرم فرمائوں سے ملنے کے لیے وقت ساتھ لاتا۔ اِن میں مولانا صلاح الدین احمد بھی شامل تھے۔ مجھے ان سے محبت تھی اور وہ بدستور میرے دل میں مقیم تھے۔ مولانا درحقیقت شجرسایہ دارکی طرح تھے، زندگی کی راہوں کے تھکے ہوئے مسافر اِن کے زیرسایہ دم لیتے۔ ان کا سایہ بڑا خوشگوار اور آنکھوں سکھ، کلیجے ٹھنڈک کا مصداق تھا۔ شجر تو غیر جانبدار رہتا ہے۔ کوئی کہے کہ وہ میرا دوست ہے‘ تو یک طرفہ دعویٰ ہے۔
کوئی اس شجر سایہ دار و فرحت بار کے نیچے ذرا سی دیر رکے یا زیادہ دیر ڈیرہ جمائے‘ اس شجر کی آبیاری کرے یا الٹا اس کے پتے جھاڑ لے، چلتے وقت شکریے کے طور پر ٹہنیاں توڑلے جس سے سواری کے لیے چابک بنائے یا دفع بلیات کی خاطر چھڑی‘ تو یہ مسافر کا اپنا رویہ ہے۔ کم از کم میرا ان کے بارے میں یہی خیال تھا کہ وہ سایہ تو ہر ایک کے لیے تھے‘ باقی یہ اہلِ ہمت پر منحصر تھا کہ کتنے پتے جھاڑیں یا ٹہنیاں توڑیں۔
ایک روز ’’مفلس‘‘ ساہوکار کی طرح بہی کھاتہ دیکھ کر بتانے لگے کہ فلاں صاحب نے اتنی رقم داب لی ہے۔ فلاں ادارے نے اتنی… میں نے کہا ’’مگر وہ لوگ تو آپ کو بڑی عقیدت سے ملتے ہیں، رقم کیوں نہیں لوٹاتے؟‘‘ مولانا نے اپنے مخصوص لہجے میں فرمایا ’’ہاں! اور پھر آپ نے دیکھا کہ فلاں صاحب کتنے نستعلیق آدمی ہیں۔ مگر بھائی پیسا کچھ معاملہ ہی ایسا ہے۔‘‘
مولانا کی ’’ہاں‘‘ کلیدِ بلاغت تھی، وہ اس ایک کلمے سے نجانے کیا کیا مفہوم ادا کر لیتے۔ یہ ’’ہاں‘‘ ربڑ کی طرح تھی، کبھی سکڑ‘ کبھی کھینچ جاتی۔ مثلاً استفہامی حیرت کے موقع پر بہت طویل ہو جاتی۔ بات ٹالنے کے لیے ہاں کرتے، تو بالکل مجمل اور واجبی سی… وہ ہاں سے اپنے ہر طرح کے ذہنی رویے کی ترجمانی پر قادر تھے، لہٰذا ہاں ایجابی تھی، اقراری بھی، تو بیخی تھی اور تاکیدی بھی استفہامی تھی اور استعجابی بھی۔ تقریبی تھی اور اجتنابی بھی… فعل مضارع تھی اور ماضی استمراری بھی۔
مولانا عموماً اردو ہی بولتے تھے۔ میں نہ جانے کیوں ان سے اکثر پنجابی میں باتیں کیا کرتا تھا۔ وہ جواباً باضابطہ اردو بولتے چلے جاتے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر محمد باقر سے ملاقات ہوتی‘ تو وہ پنجابی بولتے اور میں اردو… رفتہ رفتہ میں ٹھیک ہو گیا‘ وہ دونوں تو کیا ہوتے‘ لہٰذا اوّل الذکر کے ساتھ میں بھی اردو ہی میں گفتگو کرنے لگا اور موخرالذکر کے ساتھ پنجابی میں۔
اس ضمن میں مولانا نے اپنے مرحوم دوست باریؔ امرتسری کا ذکر کیا اور کہا ’’میں تو حسبِ عادت اردو بولتا ہی ہوں۔ اپنے دوستوں سے بھی توقع رکھتا ہوں کہ کم از کم میرے ساتھ اردو ہی بولیں۔ چناںچہ باریؔ صاحب بھی ہمت کر کے اردو بولنے لگتے۔ آدھ پون گھنٹے بعد کہتے، بس بھائی۔ اب میری باچھیں دکھنے لگی ہیں۔ اب مجھے پنجابی بولنے کی اجازت دیجیے۔‘‘
مولانا بعض اوقات سادگی اور بھولپن سے بڑے مزے کی بات کہہ جاتے۔ مثلاً ایک بار میں لائلپور سے آیا اور ان سے ملا‘ تو پوچھا ’’کیا حال ہے، آپ کے شہر ادب کی ادبی سرگرمیوں کا۔‘‘ جواباً فرمایا ’’تقسیم سے قبل میں دہلی گیا۔ وہاں کئی اصحاب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اسی قسم کا سوال کیا تھا۔ میں نے انھیں جواب دیا ’’چوری چکاری‘‘ عام ہے۔ آپ بھی پوچھتے ہیں اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں کا کیا حال ہے۔ یہی عرض کر سکتا ہوں کہ ’’چوری چکاری‘‘ عام ہے۔‘‘
ایک بار مولانا نے بعض پرانی اور نئی کتب کی طباعت کا منصوبہ بنایا۔ اس میں بعض عزیزوں اور دوستوں کو رکن کی حیثیت سے شریک کر لیا۔ منصوبے کے تحت حیاتِ جاوید، دیوان شیفتہ، فعانِ دہلی، مسرت کی تلاش وغیرہ کئی کتابیں چھپ گئیں۔ حیاتِ جاوید کو چھپے چند دن ہوئے تھے کہ میں لائلپور سے آیا، ملا اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں کا احوال پوچھا۔ مولانا ہوں ہاں کرتے رہے۔ میں نے اتنے میں حیاتِ جاوید کا مطالبہ کیا اور قیمت نکال میز پر رکھ دی۔
رخصت ہونے لگا‘ تو میں نے کہا ’’مولانا اس کتاب پر ذرا دستخط تو فرما دیجیے۔‘‘ بولے ’’یہ زیادتی ہے۔ کتاب مول لینا اور دستخط کرانا۔‘‘ میں نے عرض کیا ’’مولانا کتاب ہی مول لی ہے‘ دستخط تو مفت لے رہا ہوں۔‘‘ بے ساختہ بولے ’’ہاں!‘‘… لمبی ہاں اور دستخط کر دیے۔ پھر دفعتہً اداس سے ہو کر کہنے لگے ’’جس شہر علم کی طرف آپ حسرت سے دیکھتے ہیں، اس شہر علم میں حیاتِ جاوید کا یہ پہلا نسخہ ہے جو پیسوں سے جا رہا ہے۔ حالانکہ اسے چھپ کر آئے کئی روز ہو چکے۔‘‘
ادبی دنیا رسالہ مولانا کی وفات سے بہت پہلے خسارے کا سودا بن گیا تھا۔ ۱۹۵۰ء میں جب مولانا سے میرا تعارف ہوا، تب بھی یہی عالم تھا۔ کئی کئی ماہ کا غوطہ ہو جاتا۔ ایک بار میں نے پوچھا ’’مولانا اب پرچہ کب تک نکلے گا؟‘‘ جواب ملا ’’جب اتنے پیسے جمع ہو جائیں جتنا اوسطاً ایک سال کا خسارہ بنتا ہے۔ ایک سال تو چلے۔‘‘ یہ شاید ۱۹۵۴ء کا قصہ ہے۔
میرا خیال ہے، مولانا نے اس زمانے میں نمک کی ایجنسی لے رکھی تھی۔ جو کمائی ہوتی وہ ادبی دنیا پر لگا دیتے۔ ان کی وفات کے بعد کسی نے ذکر کیا کہ ایک مکان بھی بیچ کر ادبی دنیا کو کھلا دیا۔ اردو اگر ایسے خانہ برانداز عاشقوں کے باوصف نہیں پنپتی‘ تو پھر حد ہے۔ مجھے یاد ہے، اسی قسم کی باتوں کے ضمن میں‘ میں نے ایک بار پوچھا ’’کیا آپ پرچہ محض خسارے سے لطف اندوز ہونے کے لیے نکالتے ہیں؟‘‘ فرمایا ’’ہاں‘‘ اور ساتھ شیفتہؔ کا شعر سنایا ؎
زیاں عشق میں ہم خود بھی جانتے ہیں مگر
معاملہ ہی کیا ہو اگر زیاں کے لیے
میں نے ادبی دنیا میں کبھی کچھ نہ لکھا تھا۔ بعدازاں ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک آدھ جدید نظم پر مجھ سے تبصرہ کرایا۔ ایک آدھ غزل چھپی ہو گی اور بس، مگراس کے باوجود پرچہ مجھے ہمیشہ ملتا رہا۔ مولانا سے جب بھی ملاقات ہوتی، پچھلا پرچہ تھما دیتے۔ ساتھ ہی کہتے، ہاں بھئی وہ زارؔ صاحب اور خورشیدؔ صاحب کا موجودہ پتا کیا ہے۔ میں بتاتا اور وہ ان کے نام بھی پرچے ارسال کر دیتے۔ وہ عجیب تباہ کن وضعداری میں مبتلا تھے۔ مگر کرتے بھی کیا، اپنے مزاج کو کوئی کس طرح بدل سکتا ہے؟ پھر ڈاکٹر وزیر آغاز بھی شامل ہو گئے اور ادبی دنیا ضخیم پرچہ بن گیا، اب وہ دو ماہی تھا۔
ایک بار میں نے لائلپور سے چندہ بھیج دیا۔ ساتھ لکھا کہ میں قلمی معاون نہیں کہ پرچہ مفت وصول کروں، نہ کوئی علمی بزرگ ہوں کہ ہدیتہ پانے کا استحقاق ہو۔ لہٰذا ازرہِ کرم مجھے خریداروں میں شامل فرما لیجیے۔ اسی روز سرگودھا جانا ہوا۔ وزیر آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ذکر کیا کہ ’’ادبی دنیا‘‘ کے دورِنو کی خوشخبری سنی تھی۔ خدا کرے کامیاب رہے، اپنا چندہ روانہ کر دیا ہے۔
آغا صاحب بولے، مولانا آپ کا چندہ لوٹا دیں گے۔ میں نے کہا یہ زیادتی ہو گی۔ آغا صاحب بولے، آپ کل لائلپور جائیں گے‘ تو منی آرڈر واپس آیا پڑا ہو گا۔ اور یہی ہوا… اگر میرے پاس بھی ادبی دنیا مفت آتا تھا‘ تو شاید وہ چھپتا ہی مفت تقسیم ہونے کے لیے تھا۔ میں ۱۹۶۱ء میں تبدیل ہو کر لاہور پہنچ گیا۔ ڈیرہ ماڈل ٹائون میں ڈالا۔ مولانا سے بھی ملاقات گاہے گاہے ہوتی رہی۔ ایک روز بڑے تلخ لہجے میںکہنے لگے ’’منور صاحب! آپ ماڈل ٹائون سے نجات نہیں پا سکتے؟ یہ بستی میری زندگی کے قیمتی بارہ برس ہڑپ کر چکی۔
آپ کا بھی جس قدر اس بستی میں وقت گزرے گا، برباد ہوجائے گا۔ وہاں وہ رہے جس کے پاس بے مصرف وقت کی بہتات ہو۔ جس کے پاس کار ہو اور خود اپنی کوٹھی۔ کوئی آدمی کرائے پر وہاں کیوں رہے اور بس پر کیوں آئے جائے۔ یہ جبر آخر کیوں؟ چھوڑئیے صاحب! شہر کے قریب آئیے۔ ورنہ اعصاب جواب دے جائیں گے۔‘‘
اور واقعی جلد میرے اعصاب جواب دے گئے اور میں کرشن نگر منتقل ہو گیا۔ مگراس وقت تک مولانا بھی اپنی رہائش بدل چکے تھے… انھوں نے جنت الفردوس میں اپنے لیے کوئی خوشگوار غرفہ چن لیا تھا۔ مولانا کو پاکستان اور اسلام کے ساتھ عشق تھا۔ وہ پابندِ صوم و صلوٰۃ نہ تھے، مگر جس قوم اور ملت نے انھیں پالا پوسا، اس کی تہذیبی اور روحانی وراثت کے شیدا تھے۔ نبی اکرمﷺ کا ذکر سنتے‘ تو سر جھکا لیتے۔
اسلام کے بعد سب سے بڑی وفاداری اردو سے تھی۔ اوپر اسلام نیچے اردو… وہ ہر اس عنصر سے بھڑ جاتے جو اِن دو اصولوں سے ٹکراتا۔ وہ عنصر عوامی ہوتا خواہ حکامی… عام معاملات میں سلیس اور لوچ دار، مگراصولوں کی مدافعت میں بڑے مضبوط اور پائیدار، یہی لوگ قوم و وطن کی بقاکے ضامن ہوتے اور معاصروں ہی نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی روشنی کا منار بنتے ہیں‘ مگر یہاں ایک بات کی وضاحت لازم ہے، وہ یہ کہ مولانا اپنے سیاسی اور ملی نظریات کی وضاحت یا ان نظریات کی تردید کے لیے اپنے مجلے کو کبھی استعمال نہ کرتے۔
رائٹرزگلڈ سے انھیں شدید نظریاتی اختلاف تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے‘ وہ رائٹرزگلڈ کے رکن آخر تک نہ بنے۔ ایک روز کہنے لگے ’’جی تو چاہتا ہے رائٹرزگلڈ پر ایک اداریہ نما مضمون لکھوں مگر خود ساختہ دیوار حائل ہو جاتی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا مطلب مولانا؟‘‘ بولے ’’مطلب یہ ہے کہ میں نے ’’ادبی دنیا‘‘ کو فقط ادب کے لیے وقف کیے رکھا ہے۔ اب وہ روش بدلوں تو گویا ادبی دنیا کا مزاج بدلوں۔ اور یہ مشکل بات ہے۔‘‘
کتنی ہی کہانیاں تھیں جو مولانا کے پرانے ملنے والوں‘ عزیزوں‘بزرگوں اور تحریکوں سے وابستہ ہیں۔ ان کی پولیس ملازمت سے متعلق کہانیاں، ریاست خیرپور کے حکمران اور سندھ کے بعض رئیس خاندانوں کے قصے۔ ذہن پر زور دیتا ہوں‘ تو دھندلے سے کئی نقوش ابھرتے ہیں‘ مگر کیا کیا لکھا جائے۔ فی الحال اسی بے ربط بیان پر سلسلۂ گفتگو ختم کرتا ہوں کہ کبھی خدا نے توفیق دی‘ تو باقی پھر سہی۔ مولانا صاحبِ اخلاص بزرگ تھے‘ لہٰذا دلوں میں بستے ہیں
؎
اے ہمنفسانِ محفل ما
رفتید ولے نہ از دِل ما