جون بھائی کے متعلق اپنی بکھری ہوئی یادوں کو مربوط کرنے کی کوشش کروں تو ایک غیر منظم ترتیب کے ساتھ بہت سے جگنو ایک ساتھ جلنے بجھنے لگتے ہیں۔ قدرت کے تخلیق کیے ہوئے مناظر ہوں یا انسان کی بنائی ہوئی اشکال اور نقش و نگار ۔ بے ترتیبی کا اپنا ایک حسن ہے اور شاید اس کی پرتوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو ایک ترتیب وہاں بھی کارفرما ہوگی۔ انسانی ذہن جو خالق کی کرشمہ سازی اور انسانی تمثیل گری کا ایک نقطہ اتصال ہے۔ بعض اوقات اسی منظم بےترتیبی میں سہولت محسوس کرتا ہے۔ اور یہ بات تو ہے بھی جون بھائی کی جو منتشر زندگی اور بے ترتیب طرز حیات کے بادشاہ تھے، اور یہ طرز بھی ان کی شاعری کی طرح ان کا اپنا اختراع کردہ تھا اور اس میں بھی وہ اپنا اسلوب خاص رکھتے تھے، سو کچھ دیر کے لیے ذہن کی کلائیڈو سکوپ سے آنکھ لگا کر دیکھتا ہوں کہ کیسے کیسے منظر وہاں دکھائی دیتے ہیں.
میں فلیٹیز ہوٹل کے یخ بستہ ہال میں بیٹھا ہوں۔ جون بھائی سٹیج پر صاحب شام کی حیثیت میں اپنا کلام سنا رہے ہیں۔ لاہور کی اکثر چھوٹی بڑی ادبی شخصیات انہیں سننے کے لیے جمع ہیں ۔جون بھائی کی آواز اور ان کے لیے منعقد کردہ شام گہری ہوتی جار ہی ہیں۔ وہ ایک نظم آغاز کرتے ہیں اور لوگ لمحہ بہ لمحہ مصرعہ بہ مصرعہ اس نظم کی وسیع اور ساکت جھیل میں اترتے جاتے ہیں۔ مجھے اپنے بائیں جانب سے سسکیوں کی دبی دبی آواز سنائی دیتی ہے ۔میں گردن موڑ کر اپنے ہم نشست اور باکمال شاعر دوست ڈاکٹر معین نظامی کو دیکھتا ہوں جس کے رخساروں پر اس نظم کے بھیگے ہوئے مصرعے روشن ہورہے ہیں ۔میں دوسری جانب اپنے دوسرے ہم نشین دوست شعیب احمد کی طرف دیکھتا ہوں جو خود اعلٰی شاعر ہے۔ شعیب کی آنکھوں میں چراغ جھلملا رہے ہیں۔میری آنکھوں میں بھی کسی نے شاید جلتے ہوئے موم کے قطرے ڈال دیے ہیں اور یہ موم کہیں منجمد ہوکر اور کہیں پگھل کر میرے عدسوں اور بصارت کو دھندلا کیے دے رہا ہے
میں گارڈن ایسٹ کراچی کی ایک نیم ویران کوٹھی کے ایک اجاڑ کمرے میں بیٹھا ہوں۔کچھ ڈرا ہوا اورکچھ گھبرایا ہوا ۔ادب میں بھی نووارد ہوں اور ان کے گھر میں بھی ۔ جون بھائی اپنی شام کی مشغولیات آغاز کر چکے ہیں۔ان کی چسکیوں کے درمیان میں اپنی غزلیں ان کی فرمائش پر انہیں سنا رہا ہوں ۔ کسی غزل کے کسی شعر پر داد نہیں مل رہی ۔ ایک غزل اور سناؤ کی آواز ہر غزل کے اختتام پر ضرور آتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انہیں میری شاعری اچھی لگ رہی ہے تو داد کیوں نہیں دیتے اور اگر اچھی نہیں لگ رہی تو مزید سنانے کی فرمائش کیسی ہے ؟۔ چھٹی غزل کے اختتام پر آواز آتی ہے "چھوٹی بحر کی سنائو"۔میں ان کی بات سمجھ جاتا ہوں۔ وہ میرا امتحان لے رہے ہیں۔ میں چھوٹی بحر کی کئی غزلیں ان کی بھر پور داد و تحسین کے درمیان سناتا ہوں
اب بھی وہ ہمیں ملا کہاں ہے
دیوار وصال درمیاں ہے
یہ شہر بلندیوں سے دیکھو
دریائے روا روی رواں ہے
دل سے تری یاد اتر رہی ہے
سیلاب کے بعد کا سماں ہے
جون صاحب سے غیر معمولی داد مل رہی ہے۔ وہ میری تمام شاعری پر بھر پور ستائشی کلمات کہہ رہے ہیں ۔اور اس سے قبل داد نہ دینے کی وجہ اپنے مخصوص انداز میں بتا رہے ہیں "ارے جانی تو کیا سمجھا تھا؟ مجھے کیاشعر کی سمجھ نہیں ہے؟۔ میں کیا الو کا پٹھا ہوں ؟۔ تیرے شعر سمجھ نہیں آرہے تھے مجھے؟ ارے میں تو دیکھ رہا تھا کہ کتنی غزلوں میں دم خم دکھاتا ہے تُو۔ ایک دو غزل اچھی کہہ لینا اور بات ہے ۔ اور چھوٹی بحر تو قیامت ہے قیامت۔ سانس پھول جاتی ہے آدمی کی ۔تُو تو کمال شاعر ہے۔۔ جا کہہ دیا میں نے، اوروں سے جا کر کہہ دے تو بھی۔ میاں سانس پھول جاتی ہے سانس۔"
اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ ان غزلوں کے درمیان داد دیتے تو شاید اتنی سیر حاصل داد نہیں مل سکتی تھی جو اب مل گئی ہے ۔ ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے۔ یہ مصرعہ ان کی ایک اور یاد پر کلک کرکے اسے روشن کر دیتا ہے ۔جیسے نقرئی سکرین پر یکایک ایک رنگا رنگ منظر روشن ہوجائے اور نیم تاریک گرد و پیش اس میں ضم ہو جائیں ۔
لاہور کے ایک پبلشر کے دفتر میں جون صاحب بیٹھے ہیں انھیں ان کے مداحوں نے گھیرا ہوا ہے جو اپنے اپنے مداح بھی جون صاحب سے ملوانے لائے ہوئے ہیں۔ جون صاحب شعر سنا رہے ہیں:
آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہم نشیں سانس پھول جاتی ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے۔
جون صاحب رو رہے ہیں۔ آج ان کے مصرعے خود انہی کے رخساروں پر پھسل رہے ہیں۔ ان شعروں سے ان کی کون سی یاد کون سا دکھ وابستہ ہے۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ کہا جا سکتا ہے تو یہ کہ کسی دکھ نے ان سے یہ شعر کہلوائے ہیں اور پڑھتے وقت کوئی دکھ ان شعروں کو خنجر کی طرح ان کے دل میں اتار رہا ہے۔
اوری انٹل کالج لاہور کے ایک مشاعرے کے لیے جون صاحب کو لینے میں اور معین نظامی جون صاحب کی اقامت گاہ پر پہنچے ہوئے ہیں۔ جون صاحب تیار ہو رہے ہیں۔ جن کے گھر میں قیام ہے وہ خاتون خانہ شاید جون صاحب کی عزیزہ ہیں۔ وہ جون کی صحت پر کڑھ رہی ہیں۔ ارے بھیا خدا کے لیے خود اپنا خیال کرو۔ یہ زخم ٹھیک نہیں ہورہا ۔ ذرا دیکھو تو سہی۔ وہ جون صاحب کی پنڈلی پر ایک زخم کی نشان دہی کر رہی ہیں جو اندمال کی منزلوں سے کافی دور ہے۔ ہم جون بھائی کا یہ شعر یاد کر رہے ہیں
جانے مجھ سے یہ کون کہتا تھا
آپ اپنا خیال تو رکھیے
جون صاحب ایک لفظ کہے بغیر تیار ہو رہے ہیں۔ جیسے ایک چھوٹا سا بچہ جسے اس کی ماں اس کی لاپرواہی سے عاجز آکر ڈانٹ رہی ہو ۔
گلستان جوہر کراچی نیا نیا آباد ہوا ہے اور اس آبادی میں شاید یہ پہلا مشاعرہ ہے۔ کراچی کے تقریبا" تمام سینئر جونیئر نمائندہ شاعرموجود ہیں۔ میں کراچی میں موجودگی کے سبب اس مشاعرے میں موجود ہوں۔ جناب رضی اختر شوق سے یہ میری پہلی ملاقات ہے۔ مشاعرہ ابھی شروع ہی ہوا ہے۔ چھ سات نو وارد اپنی شاعری سنا چکے ہیں کہ جون صاحب اچانک اٹھ کر مائیک پر آجاتے ہیں۔ " اب ہم پڑھیں گے۔" تمام شاعر اور سامعین ہکا بکا ہیں۔ ناظم مشاعرہ سراپا احتجاج ہے " جون صاحب آپ کو تو اپنے مقام پر پڑھنا ہے۔" لیکن جون صاحب مصر ہیں۔ وہ کسی کی بات نہیں سن رہے۔ ناظم مشاعرہ کیا کسی اور میں بھی اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ ان کی بات ٹال سکے۔ وہ اپنا کلام پڑھتے ہیں۔ حسب معمول فرمائشوں پر فرمائشیں ہو رہی ہیں اور وہ اپنے مخصوص والہانہ پن سے اپنی نئی اور پرانی غزلیں سنا رہے ہیں۔
یہ غم کیا دل کی عادت ہے؟ نہیں تو
کسی سے کچھ شکایت ہے؟ نہیں تو
کسی صورت بھی دل لگتا نہیں ؟ ہاں
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے ؟ نہیں تو
اور
یہاں میں ذکر نہیں کر رہا مکینوں کا
کبھی کبھی در و دیوار مرنے لگتے ہیں
ان کے جونئیر ان کے بعد اپنا کلام سناتے ہیں لیکن پہلے ہو یا بعد میں، جون صاحب مشاعرہ لوٹ چکے ہیں ۔
اب تصویریں تیزی سے چل رہی ہیں جیسے ایک لڑی میں پرو دی گئی ہوں. لکشمی چوک کے نیشنل ہوٹل میں میں نے کافی احباب کو کھانے پر مدعو کیا ہوا ہے۔ جون بھائی کے اعزاز میں دعوت ہے لیکن جون صاحب آ ہی نہیں چکتے۔ انتظار طویل ہوچکا ہے۔ بالآخر جون صاحب آتے ہیں۔ میرے ماتھے کی شکایتی شکنیں دیکھتے ہیں اور اپنے میٹھے لہجے میں کہتے ہیں۔ سعود جانی صرف تیری وجہ سے آیا ہوں قسم سے، ورنہ شاعری اور شاعروں سے میرا کیا واسطہ، کیا تعلق؟ اب شکایت چھوڑ، کھانا کھلا۔ میں ہنس پڑتا ہوں۔ جون صاحب کے دست راست انیق مسکرا رہے ہیں۔ بعد میں وہ بتاتے ہیں کہ جون صاحب ڈرامہ نہیں کر رہے، واقعی درست کہہ رہے ہیں۔ جس محفل سے بلکہ جس طرح کی من پسند محفل سے وہ اٹھ کر آئے ہیں، وہاں سے آنا واقعی مشکل تھا۔
عکس ِ رواں آب رواں کی طرح بہتے چلے جارہے ہیں. جون صاحب اپنے مداحوں میں گھرے بیٹھے ہیں۔ کہہ رہے ہیں یارو ، یہاں لاہور میں ایک شاعر ہے۔ (وہ ایک نوجوان شاعر کا نام لیتے ہیں )۔ اس کی فرمائش پر میں نے اس کے مجموعے کا دیباچہ لکھا۔ اس ۔۔۔۔۔ نے وہ دیباچہ تو چھاپ دیا لیکن اس میں تحریف کردی۔ ایک دو جملے نکال دیے. اس حرکت کے باوجود وہ چل پھر بھی رہا ہے، ہنس بول بھی رہا ہے حتٰی کہ سانس بھی لے رہا ہے. اور کوئی شخص کچھ نہیں کرتا. حیف ہے بھئی حیف ہے ۔
اب میں جون صاحب کو میں غزل سنا رہا ہوں اور وہ کہہ رہے ہیں ۔ بھئی یہ "کی مانند " نہیں ہوتا ۔ یاد رکھ جانی "کے مانند" ہوتا ہے. ایک تصویر اٹک گئی ہے، اور ایک فریم سکرین پر ٹھہر گیا ہے۔ جون صاحب کا کلوز اپ. لاہور میں ایک صاحب ِعلم شاعر کے گھر جون صاحب مدعو ہیں ۔اپنا رجسٹر طلب کرتے ہیں اور ایک نظم سناتے ہیں جس کا رزمیہ اور رجزیہ آہنگ انتہائی زوردار ہے۔ شاید یہ نظم کبھی چھپی نہیں اور کسی سے کبھی اس کا تذکرہ بھی نہیں سنا۔ جون صاحب ویسے ہی حالت وارفتگی میں ہیں، کچھ سامعین کی پر زور داد ، کچھ نظم بھی ان پر طاری ہے۔ وہ ایک حالت ِحال میں اُٹھتے ہیں اور قریبی دیوار سے زور سے اپنا سر ٹکراتے ہیں۔ شوریدہ سری اور دیوار کا جو تعلق ہے وہ حاضرین بھی جانتے ہیں اور خود صاحب کلام بھی۔ ہوش ترمذی کا شعر یاد آ رہا ہے
ایک دیوار ہے زندگی
کوئی شوریدہ سر چاہیے
اور جون صاحب وہی شوریدہ سر ہیں
عکس پھر سے متحرک ہوگئے ہیں۔ ان سب شبیہوں میں ایک شبیہہ ایسی ہے جو چالاکی سے عبارت ہے۔ جون صاحب کو شعر سنانے پر مائل کیا جارہا ہے۔ یہ جو بحر ہے نا رجز مثمن مطوی مخبون۔ مفتعلن مفاعلن ، مفتعلن مفاعلن ۔جس کے بارے میں جون بھائی نے لکھا ہے کہ ہمارے گھر کے در و دیوار "اس بحرپر صبح و شام جھوما کرتے تھے" اس میں جون صاحب کی غزل جو حال ہی میں فنون میں چھپی ہے، میں دوستوں کے درمیان ان کے سامنے پڑھ کر داد دے رہا ہوں ۔
شہر بہ شہر کر سفر زاد سفر لیے بغیر
کوئی اثر کیے بغیر ، کوئی اثر لیے بغیر
کچھ بھی ہو قتل گاہ میں حسن ِ بدن کا ہے ضرر
یاں سے نہیں ٹلوں گا میں دوش پہ سر لیے بغیر
قریہ گریہ میں مرا گریہ سخن ورانہ ہے
میں نہ یہاں سے جاؤں گا داد ِہنر لیے بغیر
ان کے سامنے پڑھنے کا مقصد یہی ہے کہ ان کی طبیعت موج پر آجائے اور اس میں مزید غزلیں ان کی زبان سے سننے کا موقع مل سکے۔ طریقہ کارگر ہوتا ہے اور ان کے در و دیوار اس بحر پر جھومنا شروع کردیتے ہیں۔ اس بحر میں جون صاحب نے ایک سے ایک قاتل شعر کہا ہے۔ ایسا کہ یہ بحر گویا اپنی کرلی۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بحر کا ذکر آئے اور جون کے شعر یاد نہ آئیں
جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں ، آپ نے کیا نہیں کیا
تو بھی کسی کے باب میں عہد شکن ہو غالبا"
میں نے بھی ایک شخص کا قرض ادا نہیں کیا
۔۔۔
میں بھی بہت عجیب ہوں ، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا ، اور ملال بھی نہیں
۔۔۔
شور اٹھا مگر تجھے لذت گوش تو ملی
خون بہا مگر ترے ہاتھ تو لال ہو گئے
ہم نفسان ِوضعدار ، مستمعان ِبردبار
ہم تو تمہارے واسطے ایک وبال ہوگئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے سبھی گلے بجا ، پر ہے یہی کہ دلربا
میرا ترا معاملہ عشق کے بس کا تھا نہیں
جائیے خود میں رائیگاں اور وہ یوں کہ دوستاں
ذات کا کوئی ماجرا شہر کا ماجرا نہیں
شاید جون کا دکھ یہی تھا کہ ذات کا کوئی ماجرا شہر کا ماجرا نہیں. ماجرا کے لفظ کااستعمال تو جون بھائی پر ختم تھا۔ اس لفظ کو پر اثر اور ایسا پر ُ ماجرا بنا دینا کیا کسی اور کے لیے ممکن تھا۔
عکس ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔ تصاویر ہیں کہ ایک کے بعد ایک کھنچی چلی آرہی ہیں۔ ان کے خد و خال واضح اور رنگ تازہ ہیں جیسے کسی نے وقت کو منجمد کر دیا تھا اور آج ایک اشارے سے یہ ساکت و صامت وقت سیال اور متحرک ہوگیا ہے۔ جون صاحب شعر سنا رہے ہیں
اک نہ اک بات سب میں ہوتی ہے
وہ جو اک بات تجھ میں تھی ، کیا کی؟
تیری ہر بات اب حساب سے ہے
بے حسابی کی زندگی کیا کی؟
شش جہت آئنوں کے بیچم بیچ
تو نے اپنی وہ بے رخی کیا کی؟
سب اس لفظ بیچم بیچ کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ جون صاحب کے انداز سے ظاہر ہے کہ وہ اس داد کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ یہ جو " بیچم بیچ "اور "بے رخی " کے الفاظ کا نادر استعمال ہے۔ یہ کون کرے گا جون کے علاوہ؟ افسوس کہ یہ غزل جب کتاب میں شامل کی گئی تو یہ شعر اس میں سہوا " یا ارادتا " نکال دیا گیا۔ بیچم بیچ کا لفظ میں نے اس سے پہلے
شاعری میں کبھی نہیں سنا حالانکہ میری نانی اور والدہ یہ لفظ بولا کرتی تھیں۔ اور سچ یہ ہے کہ اس کے بجائے بیچوں بیچ لگا دیں تو بات ہی نہیں بنتی۔ ایسے لفظ برتنے کے لیے ایک حوصلہ درکار ہے جو یا صرف لغت میں ملتا ہے یا بزرگوں کی زبان میں۔ اور جون بھائی ایسے لفظ نئے نکور کرکے جھاڑ پونچھ کر شاعری کے حوالے کردیتے تھے۔ نہیں کی متروک شکل نئیں کو انہوں نے زندہ کیا
مرا اک مشورہ ہے التجا نئیں
تو میرے پاس سے اس وقت جا نئیں
سفر درپیش ہے اک بے مسافت
مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں
اور پھر یہ چل نکلا۔ ہر خاص و عام نے اسے ہر جگہ استعمال کیا خواہ وہاں یہ جچتا بھی نہ ہو۔ اس کے لیے تو مزاج چاہیے تھا، اور وہ مزاج دان جون ایلیا تھے۔ جون صاحب کو ایسے الفاظ کا بڑا ادراک تھا۔ ایک جگہ کہتے ہیں '' میں خود میں جھینکتا ہوں اور سینے میں بھڑکتا ہوں'' . یہاں ذرا "جھینکنا " کا لفظ دیکھیں۔ کم از کم میرے علم میں موجودہ شاعری میں اس کی مثال نہیں ہے۔ چنانچہ جب وہ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو یہ ان کے ساتھ مخصوص ہوجاتے ہیں.
یادوں کی ان ساکت و متحرک فلموں میں ایک فلم ایسی بھی ہے جہاں جون صاحب موجود نہیں ہیں۔ صرف ان کی شاعری موجود ہے۔ جون صاحب کی ایک غزل ہے جس کا ایک مصرعہ اور تین شعر یاد آ رہے ہیں ۔
یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے وہاں تو کچھ بھی نہیں
کسے خبر سر منزل جو دل نے حال سہے
اذیتِ سفرِ رائیگاں تو کچھ بھی نہیں
سہے ہیں میں نے عجب کرب سود مندی کے
گلہ ہے تجھ کو زیاں کا ، زیاں تو کچھ بھی نہیں
اس میں کیا عجیب شعر ہے ۔ سنتے جائیے ، سر دھنتے جائیے
درونیانِ تسلی سے تو ملا ہے کبھی ؟
عذاب ِحسرت بیرونیاں تو کچھ بھی نہیں
یہ درونیان ِتسلی۔ یہ برونیانِ حسرت زدہ۔ یہ کن منزلوں کی ترجمانی ہے۔ یہ الفاظ نہیں معنی ہیں۔ اور معنی بھی وہ جو ان منزلوں سے گزرنے والے جون ایلیا پر روشن تھے۔ وہ تو ایک منزل پر پہنچ کر معنی کے بھی انکاری تھے
کوئی معنی نہیں کسی شے کے
اور اگر ہوں بھی تو میاں تب کیا
جون صاحب پڑھتے تھے تو ان کے انداز پر اصغر گونڈوی کا وہ مصرعہ یاد آتا تھا۔
کچھ خواب ہے ، کچھ اصل ہے ، کچھ طرز ادا ہے
وہ جس والہانہ اور وارفتہ انداز میں بلکہ ڈرامائی طریقے سے شعر پڑھتے تھے، وہ انہی سے مخصوص تھا اور شعر کی خوبیوں سے الگ یہ انہیں مشاعرے میں منفرد بھی کرتے تھے۔ اس کی نقل کرنے والے بعد میں کئی آئے لیکن جون اپنی پڑھت میں یکتا ہی رہے اور یکتا ہی رہیں گے۔ اسی طرح مصرع سازی میں کچھ پیرائے ، کچھ اسالیب، کچھ انداز تو ایسے ہیں کہ وہ جون صاحب ہی کے دم سے تھے اور سچ یہ ہے کہ سجتے بھی انہی کو تھے.
میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا یعنی میں
لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں
میں انہیں چشم تصور سے اپنی نہایت منفرد اور کمال نظم د رخت زرد میں اپنے بیٹے زریون سے مکالمہ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔
تمہارا باپ یعنی میں ، عبث میں ، اک عبث تر میں
مگر میں ، یعنی جانے کون ؟اچھا میں ، سراسر میں
میں کبھی کبھی جون بھائی کے یہ شعر یاد کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ شعر انہوں نے کس کے لیے کہے تھے۔ پھر میں یہ شعر پڑھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ تو کسی کے لیے بھی نہیں تھے ۔ یہ تو ان کا خود اپنے آپ سے خطاب تھا ۔ یہ تو خود کلامی تھی
حساب دارئی ِسود و زیاں سے چل نکلو
میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو
مری سنو تو زمان و مکاں میں رہتے ہوئے
بصد سلیقہ زمان و مکاں سے چل نکلو
سو وہ اس زمان و مکان سے اس سلیقے سے رخصت ہوئے کہ سال ہا سال گزرنے کے بعد بھی یقین ہی نہیں آتا کہ وہ اب ہم میں نہیں ہیں۔ یادوں کے درخت ِزردتلے بہت سے سرخ ، آتشی ، نارنج و زرد پتوں کا ایک ڈھیر لگا ہے۔ میں اس پتاور میں کھڑا ہوں۔ ہر پتہ ایک لمحہ ہے۔ ہر لمحے پر ایک تصویر ہے اور ہر تصویر جون ایلیا کی ہے۔ ہنستے روتے، چلتے پھرتے ، کھاتے پیتے، بولتے اور غم گھولتے ہوئے جون ایلیا۔ وہ کہاں گئے ہیں۔ اتنی یادوں اتنی تصویروں کے ہوتے ہوئے۔
خود انہوں نے ہی تو کہا تھا
ہم سے بے واسطہ نہیں ہے وہ
وہ یہیں تھا ، یہیں کہیں ہے وہ
تبصرہ لکھیے