ہوم << تجزیے کا مغالطہ - عاطف حسین

تجزیے کا مغالطہ - عاطف حسین

عاطف حسین پچھلے کچھ دنوں کے دوران اوپر تلے مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت، ترکی میں ناکام فوجی بغاوت، قندیل بلوچ کا قتل اور آزاد کشمیر میں انتخابات چار ایسے واقعات ہوئے جن میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے دلچسپی ظاہر کی۔ اس دوران اپنی فیس بک نیوز فیڈ اور مختلف بلاگز سائٹس وغیرہ کو دیکھتے ہوئے راقم کو اچانک احساس ہوا کہ پیشہ ور اور نیم پیشہ ور تجزیہ کاروں کے ساتھ ساتھ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان واقعات کے متعلق جہاں اپنے جذبات کا اظہار کر رہی ہے وہیں ان واقعات کا تجزیہ بھی کر رہی ہے۔
مزید غور کرنے پر احساس ہوا ہے کہ 'تجزیہ' معاشرے میں ایک بہت مطلوب جنس ہے جس کی طلب پوری کرنے کےلیے تجزیہ کاری کی پوری صنعت موجود ہے جس سے سینکڑوں
ایسے لوگ وابستہ ہیں جو روزانہ درجنوں ٹی وی پروگرامز اور سینکڑوں کالمز کے ذریعے اس طلب کو پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ عوام بہت شدت سے ان تجزیوں کا انتظار کرتے ہیں اور ان سے مستفید ہونے کےلیے رقم اور وقت دونوں خرچ کرتے ہیں۔
تجزیوں کا مقصد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ واقعات کے اسباب متعین کیے جائیں، ان سے کچھ اسباق اخذ کیے جائیں اور ان کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے. دراصل ہم انسان ابہام، پیچیدگی اور غیر یقینیت کو پسند نہیں کرتے اور مسلسل اس کوشش میں رہتے ہیں کہ واقعات و مظاہر کے پیچھے کار فرما اصولوں اور سبب و مسبوب کے تعلقات کو سمجھ کر درست پیش گوئیوں اور اسباب کے رد و بدل کے ذریعے من چاہے نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت پاسکیں۔ اگر غور کیا جائے تو سارے تجزیوں کا مقصد یہی ہوتا ہے۔ مثلاً جب کوئی یہ تجزیہ کرتا ہے کہ مسلم لیگ نواز آزاد کشمیر میں کیوں الیکشن جیتی اور پاکستان تحریک انصاف کیوں ہاری تو دراصل وہ دعویٰ کرتا ہے کہ ووٹ حاصل کرنے کے کچھ اصول ہیں، جن کا لحاظ جو جماعت کرے گی وہ ووٹ حاصل کرے گی۔ باالفاظ دیگر یہ تجزیے ہماری ان اصولوں کو جن پر یہ دنیا چلتی ہے سمجھنے کی خواہش کی تسکین کرتے اور ہمیں یہ اعتماد دیتے ہیں کہ ہم اسباب کے ہیر پھیر کے ذریعے اپنے من چاہے مستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی کچھ ایسے اصول موجود ہیں اور انہیں تجزیوں کے ذریعے دریافت کیا جاسکتا ہے؟ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ایسے کوئی اصول موجود نہیں لیکن دوسرے سوال کا جواب قریب قریب یقین کے ساتھ نفی میں دیا جاسکتا ہے۔ سیاستدان فلپ ٹیٹلوک (Philip Tetlock) کی کم وبیش دو عشروں تک تجزیہ کاروں کی پیش گوئیوں پر کی گئی تحقیق نے تجزیہ کاروں کے بھرم کے غبارے سے مکمل طور پر ہوا نکال دی ہے۔ ٹیٹلوک کی ریسرچ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف اندھے بہرے الگورتھمز ماہر تجزیہ کاروں کی نسبت کہیں زیادہ بہتر پیش گوئیاں کرسکتے ہیں بلکہ اگر بندر بھی تکے لگاتے تو وہ ماہر تجزیہ کاروں کی نسبت بہتر پیش گوئیاں کرتے۔ مزید لطف یہ ہے کہ زیادہ ماہر اور مشہور تجزیہ کاروں کی پیش گوئیاں شوقیہ اور غیر پیشہ ور تجزیہ کاروں کی نسبت زیادہ غلط ہوتی ہیں!
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بڑے مکمل، جاندار اور درست معلوم ہونے والے تجزیوں کی بنیاد پر کی گئی پیش گوئیاں کیوں غلط ثابت ہوتی ہیں؟ اس سوال کا جواب سماجی دنیا کی پیچیدگی اور انسانی صلاحیتوں کے محدودات میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
دراصل سماجی دنیا ناقابل فہم اور خطرناک حدتک پیچیدہ ہے جس میں ہر واقعے کی بنیاد میں ان گنت عوامل شامل ہوتے ہیں جن میں سے کسی ایک میں بھی ذرا سی بھی تبدیلی نتائج میں زمین آسمان کا فرق ڈال سکتی ہے۔ اسے عرب بہار کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عرب بہار کا آغاز ایک نوجوان کی خود کشی سے ہوا۔ یہ کوئی پہلی خودکشی تو نہیں تھی۔ اس سے پہلے بھی ہزاروں خودکشیاں ہوئیں جن پر کوئی انقلاب برپا نہیں ہوا۔ تاہم چھوٹے چھوٹے عوامل نے مل کر اس خودکشی کو ایک بہت بڑی تحریک کی بنیاد بنا دیا جس کے دوران کئی حکومتیں گریں۔ ان عوامل میں سے کوئی ایک بھی عامل اگر عین ویسا ہی نہ ہوتا جیسا کہ تب تھا تو شاید اس خود کشی پر کوئی احتجاج نہ ہوتا، یا صرف اسی قصبے تک محدود رہتا۔ یہ واقعہ جتنی بڑی تحریک کا موجب بنا اس کی نہ تو پہلے پیش گوئی کی جاسکتی تھی اور نہ اب ان عوامل، ان کی مقدار یا ترتیب کا ٹھیک ٹھیک تعین کیا جاسکتا ہے۔
اور اگر بالفرض محال کر بھی لیا جائے تو وہ مزید کسی پیش گوئی کے کام نہیں آسکتا کیونکہ یہ منفرد صورت حال تھی جو اب دوبارہ کبھی پیدا نہیں ہوگی۔ درحقیقت سماجی دنیا میں ہونے والا ہر واقعہ ہی منفرد ہوتا ہے لہذا اگر ایک واقعے کو ٹھیک ٹھیک سمجھ بھی لیا جائے تو عملی مقاصد کےلیے بے کار ہے کیوں کہ اب وہ واقعہ دوبارہ کبھی نہیں پیش آنے والا۔ اب اگر ہم کہیں پولیس کی ناانصافی کے خلاف احتجاجی خود کشی دیکھیں تو یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ایک اور عرب بہار برپا ہونے والی ہے۔
اسی سے یہ بھی سمجھیے کہ چونکہ ہر بڑا واقعہ بہت چھوٹے چھوٹے اتفاقات کی سیریز کا نتیجہ ہوتا ہے اسی لیے ان واقعات کے متعلق پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ چودہ سو سال قبل ایران میں اگر اخباری تجزیہ کار ہوتے تو ان کا سارا زور بڑے بڑے عوامل پر ہوتا اور ان کے سان گمان میں بھی نہ ہوتا کہ عرب جیسے غیر اہم خطے میں ہونے والے بظاہر غیر اہم واقعات سے بھی ساسانی سلطنت کو کوئی حقیقی خطرہ ہوسکتا ہے۔ تاہم انھی واقعات کے نتیجے میں صرف چند سالوں میں ساسانی سلطنت نیست و نابود ہوگئی۔
اس بحث کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ چاہے کسی گذرے ہوئے واقعے کے اسباب متعین کرنے ہوں یا موجودہ صورت حالات کا تجزیہ کرکے مستقبل کے متعلق درست پیش گوئی کرنی ہو، دونوں کے لیے ضروری ہے کہ تجزیہ کار کو تمام عوامل (جن کی تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے) کے وجود اور تناسب کا بالکل ٹھیک ٹھیک پتا ہو۔ اب ایسا مکمل علم لاپلاس کے تصوراتی عفریت (Laplace’s Demon) کے پاس تو ہوسکتا ہے، کسی انسان کے پاس نہیں۔ لہذا ہر انسانی تجزیہ چاہے وہ جانبداری سے معجزاتی طور پر بالکل پاک بھی ہو، نامکمل اور بیشتر اوقات غلط اور ناقابل اعتبار ہی ہوتا ہے۔
ہر تجزیہ کار اپنی صلاحیت یا نظریاتی میلانات کے مطابق کچھ حقائق اور واقعات کو اٹھاتا ہے اور انھیں ایک مسلسل کہانی کی شکل دیتا ہے جو اکثر بہت متاثر کن اور درست معلوم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ترکی کی بغاوت کے متعلق بالکل متضاد کہانیاں تخلیق کی جاسکتی ہیں (اور کی بھی جا رہی ہیں) جن میں سے ہر ایک بہت متاثر کن معلوم ہوگی۔ ایک کہانی یہ ہوسکتی ہے کہ یہ بغاوت اردگان کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ ایک اور کہانی یہ ہوسکتی ہے کہ یہ فتح اللہ گولن کے پیروکاروں کی بغاوت تھی۔ بالکل اسی طرح ایک کہانی یہ بھی ہے کہ یہ مغربی طاقتوں کی سازش تھی۔ لطف یہ ہے کہ ان میں سے ہر کہانی کی تصدیق کرنے والے کئی حقائق مل جائیں گے اور اپنی نظریات میلانات کی تصدیق کی خواہش یا محض سہل پسندی کے زیراثر کسی ایک ہی خاص کہانی کو درست ماننے کے خواہش مند اس کہانی میں سیدھے سیدھے فٹ نہ ہوسکنے والے حقائق کو بھی توڑ مروڑ کر اس کے مطابق بنا لیں گے اور اس پر یقین کیے رکھیں گے۔ نسیم طالب نے اس کے لیے 'بیانیے /کہانی کا مغالطہ' (Narrative Fallacy) کی اصطلاح وضع کی ہے۔
ہمارے ہاں چونکہ اکثر تجزیے تجزیہ کاروں کے نظریاتی میلانات کے زیراثر ہوتے ہیں مثلاً کچھ لوگ ہر چیز کی تشریح استعمار کی سازش کے طور پر کرتے ہیں اور کچھ لوگ پاکستان میں ہر برائی کی بنیادیں پدرسری نظام وغیرہ میں کھوج نکالتے ہیں تو اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ٹیٹلوک کی تحقیق کے مطابق اس طرح کے تجزیہ کاروں کے تجزیے جو کسی ایک ہی تصور کی روشنی میں ہر تجزیہ کرتے ہیں، خاص طور پر غلط ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسے تجزیہ کار جو مختلف امکانات کو مدنظر رکھتے ہیں ان کے تجزیے اول الذکر تجزیہ کاروں کی نسبت کم غلط ہوتے ہیں۔
تو کیا ہمیں تجزیہ کرنا ہی نہیں چاہیے؟ ایسا ممکن نہیں ہے کیوں کہ ہم فطری طور پر تجزیے کرنے پر مجبور ہیں۔ مثلاً یہی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ تجزیے کے خلاف لکھتے ہوئے راقم خود ایک طرح کے تجزیے کا مرتکب ہو رہا ہے۔ صرف اتنا عرض کرنا مقصود ہے کہ تجزیہ کار حضرات صرف ایک آدھ حقیقت اور اپنے نظریاتی میلانات کی بنیاد پر تجزیات کی بلند وبالا عمارات کھڑی کرنے کی روش پر نظرثانی کریں اور قارئین بھی تجزیات پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں رکھیں کہ تفصیلی ترین ، گہرے سے گہرے اور بہت درست معلوم ہونے والے تجزیات بھی حقیقت نہیں بلکہ اسے سمجھنے کی ایک ناقص کوشش ہی ہوتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment