ہوم << کاش عمران خان چند ماہ قبل کچھ سوچتے -محمد اکرم چوہدری

کاش عمران خان چند ماہ قبل کچھ سوچتے -محمد اکرم چوہدری

سابق وزیر اعظم عمران خان نے شہباز گل کے بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہباز گل کے بیان سے یہ تاثر گیا کہ شاید وہ فوج کو اکسا رہے ہیں۔ انہیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نے یہ فیصلہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا درست ہے.

لیکن شاید انہوں نے فیصلہ کرنے میں بہت دیر کر دی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ عمران خان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ شہباز گل نے کیا بات کی ہے کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وہ اس واقعے کی فوری بعد اس کی مذمت کرتے شہباز گل کے خلاف کارروائی کرتے، انکوائری کرتے تاکہ ان کی جماعت کے دیگر لوگ اس متنازعہ بیان سے پیچھے ہٹے رہتے لیکن عمران خان نے فیصلہ کرنے میں بہت تاخیر کی اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ جماعت کے دیگر لوگوں کو بھی نہ چاہتے ہوئے شہباز گل کی حمایت کرنا پڑی، جب تحریکِ انصاف نے شہباز گل کے بیان سے لاتعلقی اختیار نہ کی تو پھر دیگر لوگوں تک پیغام پہنچا کہ شاید یہ پارٹی پالیسی ہے اور یوں کھلم کھلا ایسی باتیں شروع ہوئیں اور پھر سب بات کرنے لگے۔ اتنے دن گذرنے کے بعد اب عمران خان نے یہ تسلیم کیا ہے کہ واقعی گفتگو قابل اعتراض تھی یعنی اس حوالے سے شہباز گل پر ہونے والے مقدمات ٹھیک ہیں۔

اگر اس متنازعہ بیان پر جماعت کا سربراہ قائل ہے توپھر تفتیش کا دائرہ کار وسیع ہو سکتا ہے کیونکہ پولیس شہباز گل کے موبائل اور لیپ ٹاپ تک رسائی چاہتی ہے۔ موبائل اور لیپ ٹاپ کے بعد مزید افراد شامل تفتیش ہوں گے اور پھر معاملے کی تہہ تک پہنچنے پر زور لگایا جائے گا اس وقت تک حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی اعتراف کے بعد شہباز گل کی مشکلات میں اضافے کا امکان ہے۔ اگر عمران خان نے غلط اور درست کا فیصلہ کرنا شروع کر ہی دیا ہے تو پھر انہیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ گذشتہ چند ماہ میں انہوں نے کب کب اور کہاں کہاں غلطی کی ہے اور اس غلطی کا ملک و قوم کو کتنا نقصان ہوا ہے۔ ملک کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے یہ بھی کسی غلطی کی وجہ سے تو نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔

شہباز گل والے معاملے پر بھی عمران خان کے اعتراف کے باوجود حالات ایسے ہیں کہ عوامی سطح پر عدم اعتماد یا غیر یقینی کی کیفیت برقرار ہے یا پھر ابہام ہے اور لوگ حقیقت جاننا چاہتے ہیں کیونکہ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کا یہ موقف ہے کہ شہباز گل پر تشدد کیا جا رہا ہے انہیں برہنہ کر کے جسمانی تکلیف پہنچائی جا رہی ہے جب کہ دوسری طرف وزیر داخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر نے عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل پر جیل میں تشدد کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں، شہبازگل کو برہنہ کرکے مارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب ایک عام آدمی کس بیان پر اعتبار کرے گا۔ ممکن ہے کہ عمران خان اور ان کے ووٹرز ایک ساتھ ہوں لیکن کیا عمران خان اور ان کے وزراءایک ساتھ ہیں یقیناً ایسا نہیں ہے۔ اس جماعت کا المیہ ہے کہ پارٹی سربراہ شہباز گل پر تشدد کی بات کرتا ہے اور پنجاب کا وزیر داخلہ اس کی تردید کرتا ہے۔ معاملہ الجھانے کے لیے یہ فرق کافی ہے۔ وزیرداخلہ پنجاب ہاشم ڈوگر بھی کہتے ہیں کہ شہباز گل کے بیان کی حمایت نہیں کرتا، ایبسلوٹلی ناٹ۔

یہ معاملہ اب اتنی آسانی سے ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا یہ وہ چند لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کو ہی نہیں ملک کو بھی خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ ہر وقت بے تکا بولتے رہنے کی عادت انہیں اس حد تک لے آئی ہے کہ درست اور غلط کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے اور پھر جب یہ احساس جاتا رہا تو ایسے حالات پیدا ہوئے کہ آپ قیدی بن گئے۔ درحقیقت شہباز گل کسی جیل میں قید نہیں بلکہ وہ اپنے الفاظ کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔ اب انہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ سب کیسے، کیوں اور کب ہوا اور ان کا اس سارے معاملے میں کیا کردار تھا کیا وہ صرف جو انہیں لکھا ہوا ملا وہ پڑھتے رہے یا پھر یہ سب انہوں نے خود لکھا تھا۔ کیونکہ شہباز گل کے بیان اور ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر منفی مہم کو ذرا مختلف انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس منفی مہم کے کرداروں کے گرد بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

لسبیلہ ہیلی کاپٹر واقعے میں شہداءکے خلاف سوشل میڈیا مہم کے تمام کرداروں کی گرفتاریاں عمل میں لانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ تفتیشی اداروں کی جانب سے سوشل میڈیا مہم کے کرداروں کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ افواجِ پاکستان کے خلاف یہ منفی مہم چلانے والوں اور ان کے سرپرستوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ شہداءکے خلاف سوشل میڈیا مہم میں کچھ بھارتی اکاو¿نٹس بھی استعمال کیے گئے ہیں اب یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ کہیں یہ اکاو¿نٹس پاکستان سے تو نہیں چل رہے تھے۔ ان حالات میں چیزیں بہت مختلف ہو جاتی ہیں۔ افواجِ پاکستان کے خلاف منظم مہم پھر شہباز گل کا یہ بیان آنے واففلے دنوں میں پاکستان تحریکِ انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان اب اگر اس بیان کو غلط قرار دے رہے ہیں لیکن اس دوران ان کی طرف سے ہونے والی تاخیر سے جو نفرت پھیلی ہے اور جتنا منفی کام ہوا ہے اسے کیسے سمیٹا جائے گا پی ٹی آئی میں تو ان کے علاوہ کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو گفتگو سے قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو یہاں تو سب ایک سے بڑھ کر ایک بدزبان ہے۔ ان میں سے کوئی مناسب اور دلیل سے بات کرنے والا ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔ عمران خان ہی اس صورتحال میں جماعت کو مشکلات سے نکال سکتے ہیں لیکن کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں؟

Comments

Click here to post a comment