ہوم << تحقیقاتی کمش ب ا ے کی ضرورت ہے- عبداللہ طارق سہیل

تحقیقاتی کمش ب ا ے کی ضرورت ہے- عبداللہ طارق سہیل

محترم مفتی تقی عثما نی یوم آزادی کی سرکاری تقریب میں کسی ”حیاسوز“ رقص پر سخت برہمی ظاہر کی ہے۔ ا نہوں نے فرمایا، ا اللہ پڑھ ے کا ارادہ تھا لیک یوم آزادی کے موقع پر یہ ہیں پڑھ ا چاہتا۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی عبدالاکبر چترالی بھی رقص و سرور کی اس تقریب پر ایوا میں سخت خطاب کیا اور حکومت کو آڑے بلکہ ترچھے ہاتھوں لیا۔

یہ تقریب جس کا بہت چرچا ہے، ہم ہیں دیکھ سکے اس لیے دو وں حضرات کے بیا کی چشم دید تائید تو ہیں کر سکتے البتہ اصولی تائید کئے بغیر بھی ہیں رہ سکتے۔ س ا ہے دسیوں کروڑ روپے خرچ آئے اور س ا تو یہ بھی ہے کہ اگرچہ اسے لائیو ٹیلی کاسٹ بھی کیا گیا لیک ہ ہو ے کے برابر لوگوں ے اسے دیکھا۔ گویا ج گل میں مور کو ب ا کسی فائدے کے چوایا۔ ہاں، حکمرا زعما کی ”دل پشوری“ ضرور ہو گئی، سو یہ سودا ات ا مہ گا بھی ہیں پڑا۔

کہا گیا ہے کہ فسق و فجور کے اس مظاہرے کا تماشائی بن کر حکمرا وں ے گ اہ کمایا۔ لیک یہاں کچھ گ جائش ”حس ظ “ کے لیے رکھی جا ی چاہیے۔ سہو ظر پر شریعت میں پکڑ ہیں، قصد ظر پر ہے۔ کیا پتہ حکمرا وں ے اس ”حیا سوز رقص“ پر محض ”سہو ظر“ ڈالی ہو، قصد ظر کا قصد ہ کیا ہو اور رہی سہو ظر کے دورا یے کی بات تو یہ چار سیک ڈ بھی ہو سکتا ہے اور چار م ٹ بھی۔ وزیر اعظم اور دوسرے شرکائے تماشا کو حس ظ کا فائدہ دی ا ضروری ہے۔ عدالتی اصطلاح میں اسے شک کا فائدہ کہا جاتا ہے لیک اس اصطلاح میں خرابی یہ ہے کہ جسے شک کا فائدہ دیا جائے ، وہ خود بخود ”مشکوک الیہ“ ہو جاتا ہے۔

اس سلسلے میں حکومت کی مجبوری بھی پیش ظر رہ ی چاہیے۔ اسے ”حریف“ سے سخت مقابلہ درپیش ہے اور کہتے ہیں کہ حریف کو اسی کے ہتھیاروں سے شکست دو۔ یع ی جو ہتھیار وہ چلاتا ہے، تم بھی چلاﺅ۔ چ ا چہ حریف پچھلے دو عشروں سے جو ہتھیار چلا رہا ہے، ایک آزمائشی مشق اس کی حکومت بھی کر ڈالی ہے تو کیا خرابی ہے۔ مفتی صاحب ا علمائے کرام میں سے ہیں جو عمرا خان کے خاموش یاز م دوں اور عقیدت کشوں میں شامل سمجھے جاتے ہیں اور یہی معاملہ جماعت اسلامی کا ہے، وہ بھی مدّت دراز سے زلف یازی کی اسیر ہے۔

ن لیک اس کا مطلب یہ ہیں کہ گزشتہ پو ے چار برسوں کے دورا تقریباً ہر روز ہو ے والے ا یسے ہی سرِبازار می رقصم والے تماشا ہائے ظر سوز سے ا ہوں ے ازراہ عقیدت چشم پوشی کر رکھی ہے۔ یقی ا اس بدظ ی کو دل میں جگہ ہیں دی ی چاہیے۔ مفتی صاحب اور جماعت کی گو ا گوں مصروفیات ے ا ہیں ا لغویات مذکورہ و جاریہ پر ظر ڈال ے کا موقع ہی ہیں دیا ہو گا۔

اب ذرا فرصت ملی تو ظر ڈالی اور خوب ڈالی، پکڑ کی اور خوب کی۔مفتی صاحب اور جماعت اسلامی دو وں ہی یک سیرت، قبول صورت، پر ام صالحی اور یکوکار جماعت ”ٹی ٹی پی“ کے حامی ہیں اور ا ہیں معاشرے میں باعزت مقام دلا ے کے لیے سرگرداں ہیں۔ مفتی صاحب اس سلسلے میں کابل کے دورے بھی کرتے رہیں ہیں۔ ٹی ٹی پی کے خلاف طویل عرصہ سے م فی پراپیگ ڈہ کیا جا رہا ہے۔ کہا گیا کہ ا ہوں ے 80 ہزار پاکستا ی شہری اور جوا شہید کر ڈالے اور اے پی ایس میں دو سو بچے بھی مار ڈالے۔ وہ جا بچا ے کے لیے سکول کے برآمدوں میں بھاگتے رہے اور چیختے رہے اور روتے رہے لیک سب کو چ چ کر مار دیا گیا۔

یہ ٹھیک ہے لیک اس کا مطلب یہ کہاں سے کلتا ہے کہ ٹی ٹی پی کی یت خراب تھی۔ وہ تو معاشرے کی اصلاح کر ا چاہتے تھے اور یہ جو 80 ہزار ا ہوں ے مارے، ہ مارتے تو بھی ا ہوں ے ایک ہ ایک د مر ہی جا ا تھا۔ موت سے کس کو رست گاری ہے ، آج وہ کل ”تمہاری“ باری ہے۔ باری آگے پیچھے ہو ہی جاتی ہے۔بہرحال، ایک پہلو اس تقریب کا، سیاسی قطہ ظر سے، اس سے بھی اہم تھا اور وہ تھا، وزیر اعظم کا خطاب دل افروز۔ س ا ہے جس ے س ا، گرویدہ ہو گیا، دل و دماغ کی اتھاہ گہرائیوں سے وزیر اعظم کا شیفتہ ہو گیا۔ تقریر کیا تھی جھ ڈے گاڑ ے والی یلغار تھی۔

یہ ات ا اہم معاملہ تھا کہ اس پر ایک تحقیقاتی کمش ب ا ے کی ضرورت ہے۔ جو اس بات کا پتہ چلائے کہ یہ خطاب لکھا کس ے تھا۔ وجہ صاف اور سیدھی ہے، ایسی ہی ایک تقریر اور وزیر اعظم ے کر لی تو ا ہیں ظر لگ جائے گی۔ ایسے کمش کی سخت ضرورت اس لیے ہے کہ ا ہیں آءدہ ظر بد سے بچایا جا سکے۔ کمش تو ایک اور بھی ب ا ا چاہیے جو اس بات کا سراغ لگائے کہ تقریر کر ے کا مشورہ کس ے دیا تھا لیک معاشی ت گی کے دور میں بچت ضروری ہے۔ اس لیے فی الحال ایک ہی کمش پر گزارا کر ا ہو گا۔ن

___________

چلیے، اس حیاسوز موضوع سے آگے چلتے ہیں۔ حقیقی آزادی کے جہاد کے سالار اعلیٰ عمرا خا ے ایک ٹی وی ا ٹرویو میں فرمایا ہے کہ کوئی ہرج ہیں اگر الیکش اگلے برس کرا لیے جائیں۔ الیکش جت ا عرصہ ملتوی ہوں گے، ہمارا فائدہ ہے کہ ہماری مقبولیت اور بڑھے گی۔ن

پی ٹی آئی کے ”سروے“ بتاتے ہیں کہ خا صاحب کی مقبولیت 80 فیصد ہو گئی ہے۔ اگلے سال تک یہ مقبولیت سو فیصد ہو جائے گی۔ پھر تو ا تخابات کی ضرورت ہی کہاں رہے گی۔ بس کاغذات امزدگی داخل کرا ے کا مرحلہ رہ جائے گا۔ ساری سیٹوں سے بلامقابلہ ا تخاب۔ الیکش کمش ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا رہے گا، اسے بس سو فیصد سیٹوں پر پی ٹی آئی کی کامیابی کے وٹیفکیش پر دستخط ہی کر ا ہوں گے اور کچھ ہیں۔

خان صاحب کی اس ”آمادگی“ کو لوگ ہار جا ے کے مع ے دے رہے ہیں کہ خا ن صاحب ہمت ہار گئے۔ وہ /13 اگست کی رات ہاکی سٹیڈیم کے جلسے میں ”حتمی ایکشن پلا ن“ کا اعلا ہ کر ے کو بھی دلیل ب ا رہے ہیں۔ ا ہوں ے مسلسل یہ اعلا ات کئے تھے کہ ”فاءل ایکش “ کا دھماکہ کروں گا لیک ہیں کیا۔ ا کا معاملہ اگلے سال پر ڈال دیا کہ اگلے اگست جش منا ئیں گے۔ درحقیقت یہ ہار ہیں ہے، ا ہیں پتہ چل گیا ہے کہ جیت ”وٹ“ پر پڑی ہے، پھر تھکے اور تھکا ے کا فائدہ کیا۔ اس دورا لہو گرم رکھنے کے لیے جلسے ہوتے رہیں گے۔ جلد الیکش کے مطالبے سے دستبرداری کا ایک اور ”ماسٹر کارڈ“ ہے جو کامیابی سے کھیل دیا ہے۔

Comments

Click here to post a comment