الحمد للہ،یومِ عاشور امن اور خیر خیریت سے گزر گیا ہے۔ ہم سب نے 14 اگست کو پاکستان کا 75 واں یومِ آزادی بھی محبت اور تزک و احتشام سے منالیا۔ ہم نے اس یومِ آزادی کے موقعے پر یہ دل شکن اور افسوسناک مناظر بھی دیکھے ہیں کہ لاہور میں بعض لوگوں نے پاکستان کے قومی پرچم اتار کر وہاں پی ٹی آئی کے پرچم لہرا دیے۔
حیرانی کی بات ہے کہ پی ٹی آئی قیادت کی طرف سے اس دل آزار حرکت کی مذمت نہیں کی گئی ہے۔ اس یومِ آزادی کے موقعے پر وزیر اعظم جناب شہباز شریف نے، 68 سال بعد، جدید ترین ٹیکنالوجی سے تیار کردہ قومی ترانے کا افتتاح بھی کیا ہے۔ جناب لیاقت علی خان کے بعد یہ منفرد اعزاز شہباز شریف کا مقدر بنا ہے۔
اس دوران چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ، لندن کا دَورہ کر آئے ہیں۔ جناب جنرل 12 اگست کو ممتاز ترین برطانوی عسکری ادارے، رائل ملٹری اکیڈیمی سینڈ ہرسٹ، کی پاسنگ آوٹ پریڈ تقریب میں چیف گیسٹ تھے۔ جنرل قمر باجوہ افواجِ پاکستان کے پہلے سربراہ ہیں جنھیں یہ اعزاز ملا ہے۔ یہ اعزاز پاکستان اور افواجِ پاکستان کے لیے یکساں فخر کی بات ہے۔ جنرل صاحب نے مذکورہ ادارے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات تاریخی بلندیوں کو چھوئیں گے۔
جنرل قمر باجوہ کے برطانوی عسکری ادارے میں بطورِ مہمان خصوصی شرکت کو ایک بڑا اعزاز قرار دیا گیا ہے۔ اس اعزاز کا فخریہ احساس اُس سیاسی جماعت کے ’’لشکریوں‘‘ کو بھی ہونا چاہیے جنھوں نے پچھلے چار ماہ سے سوشل میڈیا پر جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور افواجِ پاکستان کے خلاف شرمناک، بیہودہ اور لغو مہمات چلا رکھی ہیں۔ اب ان گمراہ ٹرولرز کے مزاج درست کرنے کے لیے ہمارے کئی ادارے حرکت میں آ چکے ہیں۔
اُمید ہے ان اداروں کی تحقیقات پاکستان کے اجتماعی مفاد میں نکلیں گی۔ پی ٹی آئی دَور کے ایک وفاقی وزیر نے بھی برطانوی عسکری ادارے کی تقریب کی صدارت کرنے کے حوالے سے جنرل قمر باجوہ کی تعریف کی ہے تو اس تعریف کو محترمہ مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں کوٹ کیا ہے۔ گویا مریم نواز صاحبہ نے جنرل صاحب کی براہ راست تعریف و تحسین کرنے کے بجائے ایک سابق وفاقی وزیر کے تعریفی الفاظ سے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ عجب اسلوبِ سیاست ہے۔
عمران خان کا لاہور کے ہاکی گراونڈ میں، 13اگست کو، ایک زبردست جلسہ بھی ہو گیا۔ لاریب یہ کامیاب جلسہ تھا اور اس کا کریڈٹ عمران خان اور پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کو جاتا ہے۔لاہور کے جس ہاکی اسٹیڈیم میں خان صاحب کا یہ تازہ ترین جلسہ ہوا ہے، اس کا افتتاح 38 سال قبل اُس وقت کے صوبائی وزیر، میاں محمد نواز شریف، نے کیا تھا۔
نون لیگ کے ایک نہایت متحرک رہنما عطاء اللہ تارڑ، جنھیں وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت میں وفاقی وزیر کا درجہ بھی دے رکھا ہے، نے لاہور ہائیکورٹ کے توسط سے خان صاحب کے ہاکی اسٹیڈیم میں اس جلسے کو رکوانے کی بھرپور کوشش تو کی لیکن عدالتِ عالیہ نے ان کی یہ درخواست مسترد کر دی۔ یوں ہاکی اسٹیڈیم میں سیاسی جماعت کے جلسے کی راہ ہموار ہو گئی۔
پنجاب کے نئے صوبائی وزیر داخلہ، کرنل(ر) ہاشم ڈوگر، انھی نون لیگی رہنما عطاء اللہ تارڑ کے تعاقب میں ہیں۔ انھیں گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کی خاطر ڈوگرصاحب کے حکم پر عطا تارڑ صاحب کے لاہور والے پرانے گھر پر مبینہ طور پر پولیس چھاپہ بھی مار چکی ہے۔ عطا تارڑ صاحب کی طرف سے اس اقدام پر سخت ردِ عمل بھی سامنے آیا ہے جس سے پتہ چل رہا ہے کہ نون لیگ کی مرکزی اور پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے درمیان کشیدگی عروج کو پہنچ چکی ہے۔
یہ خبر البتہ افسوسناک اور پریشان کن ہے کہ لاہور کے اس ہاکی اسٹیڈیم (جس میں 75 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے) میں فقط خان صاحب کے جلسے کے لیے وہاں بچھے کروڑوں روپے مالیت کی آسٹرو ٹرف کو اکھاڑ ڈالا گیا۔ اور جب سابق عالمی شہرت یافتہ ہمارے ہاکی اسٹار اولمپئن کھلاڑی، جناب منظور الحسن جونیئر اور میڈیا نے اس بارے میں پنجاب حکومت کے سامنے جینوئن سوالات اٹھائے تو متعلقہ حکام نے لاپروائی سے کہہ دیا کہ اکھاڑی گئی آسٹرو ٹرف کو ضایع نہیں کیا جا رہا بلکہ اسے سرگودھا کے ہاکی اسٹیڈیم میں دوبارہ بچھایا جائیگا۔
جب کہ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ سرگودھا ہاکی اسٹیڈیم میں تو پہلے ہی آسٹرو ٹرف بچھا ہوا ہے۔ اب حکومتِ پنجاب نے نئی لن ترانی یہ کی ہے کہ چونکہ لاہور ہاکی اسٹیڈیم میں بچھایا گیا آسٹرو ٹرف دس سال پرانا ہو چکا تھا، اس لیے نیا بچھانے کے لیے پرانا اکھاڑنا از بس ضروری تھا۔ پنجاب میں اسپورٹس منسٹری کے بننے والے نئے نئے وزیر، ملک تیمور مسعودصاحب، بھی اس ضمن میں کوئی لب کشائی کرنے پر تیار نہیں ہیں۔اتنا بہرحال ضرور ہوا ہے کہ اپنے محبوب لیڈر کے جلسے کی خاطر پنجاب حکومت نے اس ہاکی اسٹیڈیم کو کروڑوں روپے کا چونا لگا دیا ہے۔
افسوس تو خان صاحب پر بھی ہے جنھوں نے خود سابقہ نامور کھلاڑی ہوتے ہوئے کھیل کے میدان کو دن کی روشنی میں برباد ہوتے تو دیکھا لیکن ردِ عمل کوئی نہیں دیا۔ منظور الحسن جونیئر کا کہنا ہے: ’’اس آسٹرو ٹرف کو اکھاڑنے کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔ ابھی پچھلے ماہ اسی ہاکی اسٹیڈیم میں چیف آف آرمی اسٹاف انٹر کلب ہاکی ٹورنامنٹ ہوئے ہیں لیکن کسی ہاکی پلیئر نے اس آسٹرو ٹرف بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔ اب نیا آسٹرو ٹرف یہاں بچھایا جائیگا تو اس پر کئی گنا زیادہ ڈالر کے اخراجات اٹھیں گے۔‘‘
عمران خان کے اس جلسے سے ایک روز قبل صدرِ مملکت عارف علوی نے لاہور کے گورنر ہاؤس میں کچھ سینئر اخبار نویسوں سے گفتگو کی ہے۔ جب سے صدر مملکت کے محبوب لیڈر جناب عمران خان اقتدار سے بوجوہ رخصت کیے گئے ہیں، صدر عارف علوی صاحب کچھ خاموش بھی ہو گئے ہیں اور اتحادی حکومت سے ناراض بھی۔ اتحادی حکومت کے سینئر حکام کو گلہ ہے کہ صدر مملکت، عمران خان کے ورکر کے طور پر تو کام کر رہے ہیں لیکن غیر جانبدار ہو کر اور سبھی سیاسی جماعتوں کے صدر بن کر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ 12اگست کو صدر مملکت نے اخبار نویسوں سے جو گفتگو فرمائی ہے، اس میں بھی خانصاحب اور پی ٹی آئی کی طرف ان کی محبتوں کا پلڑا جھکا ہوا نظر آتا ہے۔انھوں نے کھل کر عمران خان کی پالیسیوں اور سوچ کا دفاع کیا ہے۔
مثال کے طور پر انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ اتحادی حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ خاتمے کے حوالے سے جو سمریاں انھیں بھیجی تھیں، انھوں نے یہ مسترد کردیں اور ان پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ بتائی ہے کہ ”خود میں نے ان دونوں موضوعات پر بہت محنت کی تھی۔‘‘
جناب صدر نے اس تازہ ترین گفتگو میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ’’عمران خان میرے لیڈر اور دوست ہیں۔‘‘ اور جب خان صاحب ان کے لیڈر اور دوست ہیں تو فطری سی بات ہے کہ صدر صاحب دیگر سیاستدانوں اور دوسری سیاسی جماعتوں کو برابری کی نظر سے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ صدر صاحب کا جلد انتخابات کرانے کی بات کرنا بھی دراصل عمران خان کے بیانات کو آگے بڑھانے اور تقویت دینے کے مترادف ہے۔ ایسے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ صدر صاحب سب کے صدر بن کر قومی خدمات انجام دے رہے ہیں؟ اس شکوے کا بھگتان ہم سب بھگت رہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے