ربِ کریم کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اُس نے آج کے دن پچھتر برس قبل ہمیں یہ پیارا اورخوب صورت ملک عطا کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ بد قسمتی سے ہمارے بزرگوں اور خود ہماری نسل نے اس کی وہ عزت اورخدمت نہیں کی جو اس کا حق تھا .
یعنی یہ ملک ہم نے بنایا تو ٹھیک تھا چلایا ٹھیک طرح سے نہیں جس کی وجہ سے لوگوں بالخصوص نئی نسل میں مایوسی، پریشانی، افراتفری، اور بے یقینی بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ہم ایک سادہ ،امن پسند، اﷲ کو ماننے والی اور خوش خصال قوم کی جگہ ایک اُلجھا وے، تخریب پسند، بے دین اور بد مزاج گروہ کی شکل اختیا کر گئے ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو اس زوال اور الجھاؤ کی وجوہات تک پہنچنا کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں ہے، مختصراً اسے اس طرح سے دیکھا جاسکتا ہے ۔
۱۔ برصغیر میں مسلمانوں کی طویل حکمرانی کے باوجود تعلیم، معیشت اور اتحاد کی کمی۔ ۲۔ برطانوی غلامی کے ڈیڑھ سو سال جنھوں نے ان خامیوں کو محکم اور عام کردیا۔ ۳۔ زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور جدید سیاسی شعور سے رُوگردانی۔ ۴۔ انگریز کا وفادار جاگیردار طبقہ۔ ۵۔ قیامِ پاکستان کے بعد جاگیرداری، بیوروکریسی، فوجی مہم پسندی اور سرمایہ دارانہ نظام کا گٹھ جوڑ جس کی وجہ سے عوام میں شعور اور قیادت دونوں کی کمی رہی ۔ ۶۔ ہمسائے ا ور اردگرد کی دنیا۔ ۷۔ دین کے بجائے دین کے جھوٹے دعویداروں کا فروغ۔ ۸۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد کے مسائل۔ کشمیر، لساّنی وحدت اور فسادات۔ ۹۔قائداعظم کی علالت اور وفات۔ ۱۰۔مشرقی پاکستان سے ایسے فیڈرل سسٹم میں ناکامی جو بہت سے مسائل کوختم کرسکتا تھا۔
غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ ان میں بہت سی وجوہات پیدائشی ہیں، یقینا کوشش اور محنت کے ساتھ ان کی شدت کو کم کیا جاسکتا تھا مگر بدقسمتی سے قوتِ نافذہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جنھیں اپنے اور اپنے طبقے کے مفادات ملک سے زیادہ عزیز تھے ۔ میں ان کی تفصیل میں جاکر مزید لا یعنی اور بے معنی بحثوں کا حصہ بننے کے بجائے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ جو نہیں ملا اُسے بھول جا۔
دنیا میں کوئی انسانی گروہ ایسا نہیں جسے کم یا زیادہ مسائل درپیش نہ ہوں، سو ہمہ وقت ان کا ماتم کرنے اور ہا ہا کار مچانے سے بہتر ہے کہ جو چیزیں اچھی ہیں اور موجود بھی ہیں اُن کو جمع کرکے فروغ دیا جائے اوراُن وسائل کو بروئے کار لایا جائے جو ہمیں حاصل اور موجود ہیں اور یقین کیجیے کہ ایسا کرنے پر آپ کو قدم قدم کامیابی اور خوشگوار حیرت ملے گی کہ ربِ کریم نے ہماری قوم کو بے حد عنایات سے بھی نوازا ہے۔
ضرورت صرف اس خداداد سرمائے کو سمجھنے اور انصاف کے ساتھ تقسیم کرنے کی ہے۔ میں ابھی چند دن پہلے ا مریکہ سے وہاں کے پاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم ’’اپنا‘‘ کی ایک تقریب میں شرکت کرکے لوٹا ہوں، دنیا بھر کے بہترین ڈاکٹرز اس ملک میں موجود ہیں مگر آپ کو یہ جان کر یقینا بہت خوشی ہوگی کہ پاکستانی ڈاکٹرز کا شمار پہلی صف میں ہوتا ہے، اسی طرح وطن کے اندر بھی اگر سیاسی پارٹیوں کی بے ربطی اور سیاستدانوں کی خودپرستی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ آگے بہت آگے تک جاسکتا ہے۔
کئی برس پہلے میں نے’’ہم لوگ نہ تھے ایسے‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی جس میں زوال کے اس منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ آیئے پہلے اس مختصر نظم کو دیکھتے ہیں کہ اسی میں موجود امید اور روشنی کو ہمیں آگے لے کر چلنا ہے ۔
ہیں جیسے نظر آتے
اے وقت گواہی دے
ہم لوگ نہ تھے ایسے
یہ شہر نہ تھے ایسے
یہ لوگ نہ تھے ایسے
دیوار نہ تھے رستے زندان نہ تھی بستی
آزار نہ تھے ایسے خلجان نہ تھی ہستی
یوں موت نہ تھی سستی
یہ آج جو صورت ہے حالات نہ تھے ایسے
یوں غیر نہ تھے موسم دن رات نہ تھے ایسے
تفریق نہ تھی ایسی سنجوگ نہ تھے ایسے
اے وقت گواہی دے ہم لوگ نہ تھے ایسے
اب رہا یہ سوال کہ ہمیں ایساکیوں بنا دیا گیا ،اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے لیکن میرے خیال میں 14اگست یعنی یومِ آزادی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سارے الزامات ، گِلہ گزاریوں اور مایوسیوں کو ایک طرف رکھ کر ربِ کریم کا اس بات پرشکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں امکانات سے بھرا ایک ایسا اچھا ملک دیا ہے جس میں ہم اور ہماری اولاد یں امن، چین اور خوشی سے زندگی گزار سکتی ہیں۔ سو ہم نئے ارادوں اور حوصلوں کو ساتھ لے کر پھر اُس عہد کی تجدید کرتے ہیں جو ہمارے بزرگوں کی امانت ہے اور اس نعمت خداداد کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیں عالمی برادری میں نام اور پہچان دیے۔
پچھتّر سال پہلے ایک دن ایسا بھی آیا تھا
جب اک سورج نکلنے پر سنہری دھوپ پھیلی تھی
تو منظر جگمگایا تھا
اگرچہ میں نے وہ منظر بچشم خود نہیں دیکھا
مگر جب یاد کرتا ہوں تو سانسیں گنگناتی ہیں
کُھلا سر پر جو اُس اعلان کا خوشبو بھرا سایا
ہلالی سبز پرچم کا وہ ٹھنڈا دلربا سایا
تو اُن کی جاں میں جاں آئی
غلامی کے دریچوں سے نوائے آشیاں آئی
پچھتر سال پہلے کا وہ اک احسان مت بھولو
خدا کی خاص رحمت ہے یہ پاکستان مت بھولو
تبصرہ لکھیے