آج ایک اخبار میں بڑی سرخی لگی ہوئی تھی کہ” ڈینگی سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے“۔ اس خبر کو پڑھ کر مجھے ایک قرآنی واقعہ یاد آیا جو پیش خدمت ہے۔
22ویں پارے میں قوم سباء کے نام سے ایک سورہ مبارکہ ہے جس میں اس قوم پر اللہ کے احسانات اور پھر ناشکری کے نتیجے میں آنے والے عذاب کا ذکر ہے۔ اخباری خبر میں نظر آنے والا نعرہ قوم سباء نے بھی لگایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو بہت بڑے ڈیم کی شکل میں پانی کا وافر ذخیرہ دیا تھا، اس ڈیم کے اوپر نیچے تین دروازے تھے۔ اوپر والا دروازہ جب کھولا جاتا تو تین چار مہینے تک پانی بہتا رہتا، پھر جب پانی کی سطح کم ہو جاتی تو یہ لوگ نیچے والا سپل وے (دروازہ) کھول دیتے، پھر اس سے تین چار مہینے پانی بہتا رہتا۔ پھر اس سے نیچے والا کھول دیتے، اور پھر مون سون کا موسم آجاتا اور بارشوں سے پورے سال کا پانی ذخیرہ ہوجاتا۔ اس تربیلا ڈیم کی طرز کے عظیم الشان ڈیم سے آگے دس بارہ نہریں نکلتی تھیں جو آگے کی تمام آبادیوں کو سیراب کرتی، باغ اور فصلیں خوب ہوتی تھیں۔ روایات کے مطابق اتنا پھل ہوتا تھا کہ کوئی شخص خالی ٹوکری سر پر رکھے باغ سے گزرتا تو خود بخود گرنے والے پھلوں سے وہ ٹوکری بھر جاتی۔
اس قوم پر اللہ نے ایک احسان یہ بھی کیا تھا کہ ان کے راستے آج کل کے راستوں کی طرح تھے، یعنی ہر آٹھ دس میل کے بعد کوئی نہ کوئی آبادی اور بازار آجاتا تھا چنانچہ ان لوگوں کے قافلوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اس قوم کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے کئی پیغمبروں کو بھیجا، وہ دعوت و تبلیغ کرتے رہے لیکن مجموعی لحاظ سے قوم ہدایت سے دور ہی رہی، اس قوم کی تاریخ اور مقدس کتابوں میں یہ بات لکھی ہوئی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب اس ڈیم کی بنیادوں میں چوہے پڑ جائیں گے، وہ چوہے اس کی بنیادوں کو کمزور کریں گے اور پھر ایک دن اچانک یہ بند ٹوٹ جائے گا جس کے نتیجے میں ساری قوم ڈوب کر ہلاک ہوجائے گی۔ یہ بات اس قوم کے بڑوں کو معلوم تھی، لیکن ان کا ذہن چونکہ سیکولر تھا اس لیے انہوں نے بجائے اس کے کہ اللہ کی طرف رجوع کرتے، توبہ استغفار کرتے، نبیوں اور رسولوں کی تعلیمات پر عمل کرتے۔ الٹا اللہ کے مقابلے میں کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ جب ناشکری اور نافرمانی حد سے بڑھ گئی، رسولوں اور ان کی تعلیمات کا استہزا ہونے لگا تو اس ڈیم کی بنیادوں میں چوہے پیدا ہوگئے۔ جب قوم نے چوہوں کو دیکھا تو لوگوں کے دو گروہ بن گئے، ایک اقلیتی گروہ تھا جس کا کہنا تھا وہ عذاب ہم پر آنے والا ہے جس کا ہماری کتابوں اور پیغمبروں کی تعلیمات میں ذکر ہے، اس لے ہمیں توبہ استغفار کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ جبکہ دوسرا گروہ جو اکثریت میں تھا کہنے لگا، چوہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، ہم ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ان چوہوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ چنانچہ اس وقت کے لحاظ سے جو دستیاب ٹیکنالوجی چوہوں کو ختم کرنے کے لیے تھی، اسے استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت چوہوں کو ختم کرنے کے لیے بلیوں کا استعمال کیا جاتا تھا، چنانچہ سینکڑوں بلیاں جمع کرکے ڈیم کے آس پاس اور اس کی بنیادوں میں چھوڑ دی گئیں۔ اقلیتی گروہ نے قوم کے سیانوں اور لیڈروں کو بہتیرا سمجھایا کہ بھائی اللہ کے عذاب کا مقابلہ ٹیکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ توبہ استغفار کے دو کلمات ہمیں اس عذاب سے بچا سکتے ہیں۔ لیکن اس اکثریتی روشن خیال طبقے نے اقلیتی گروہ کی باتوں کو دقیانوسی قرار دے کر بنیاد پرست، جاہل، اجڈ اور تاریک خیال ہونے کے طعنے دیتے ہوئے ان کی نصیحت کو رد کردیا۔ چنانچہ وہ اقلیتی گروہ وہاں سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ جو اس وقت غیرآباد تھا، یہاں آکر آباد ہوگیا اور پھر یہی مدینہ کی آبادی کا سبب بنا۔ جبکہ دوسرا گروہ بلیاں چھوڑ کر اللہ کے عذاب کا مقابلہ کرنے میں لگا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے چوہوں کو اتنا بڑا کردیا کہ وہ الٹا بلیوں کو کھانے لگے، اور بلیاں ان سے جان بچا کر بھاگ جاتیں تھیں، چوہے حکم الٰہی کے مطابق ڈیم کی بنیادوں کو کمزور کرتے رہے، اور پھر ایک دن جب ڈیم بھرا ہوا تھا،اچانک اس کا بند ٹوٹا اور وہ تباہی پھیلی جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ لوگ ہلاک اور تباہ وبرباد ہوگئے، فصلیں ختم ہوگئیں، باغات اجڑ گئے، زمین بنجر ہوگئی۔ عمدہ قسم کے باغات کی جگہ جھاو اور بیری کے چند ایک درخت اگ گئے اور ہرطرف ویرانی ہی ویرانی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ناشکری کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔
آج کچھ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا اس امت کو بھی ہے، اگرچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس امت کو اس طرح مجموعی لحاظ سے یعنی ساری کی ساری ہلاک نہیں کرے گا جس طرح پہلی قومیں ہلاک ہوا کرتی تھیں، لیکن چھوٹے چھوٹے عذاب اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو یکے بعد دیگرے دانے گرنے لگتے ہیں۔ آج بھی نہایت ہی اقلیتی تعداد میں ناصحین امت اس امت کے رہنمائوں اور لیڈروں کو یہی سبق دے رہے ہیں کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، توبہ استغفار کیا جائے، فحاشی، بے حیائی، ارتداد، الحاد اور دین بیزاری کو روکا جائے لیکن نام لبرل اور نہاد روشن خیال طبقے کو یہ بات سمجھ نہیں آتی، اور وہ قوم کو اللہ کا مقابلہ کرنے کا سبق پڑھا رہے ہیں، ایسے نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ ہم نے عذاب سے ڈرنا نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ نعرے باقاعدہ بڑی پلاننگ اور سوچ بچار سے ملحدین تیار کرتے اور پھر عام کیے جاتے ہیں، ان نعروں کی آڑ میں نہ صرف دین بیزاری بلکہ اللہ بیزاری کا بیج خفیہ طریقے سے قوم کے ذہنوں میں بویا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دین دار طبقات، مصلحین امت اور خیرخواہان قوم لوگوں کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں۔
تبصرہ لکھیے