افغان طالبان کی سوچ کے کچھ فرقہ وارانہ پہلو اور ان کے ماضی کی طرز حکومت کے بہت سارے پہلوؤں سے اختلاف باوجود زمینی حقائق اور پاکستان کے مفادات کے مطابق سوچا جائے تو افغان طالبان اور ان کی مرکزی کمانڈ کا کمزور ہونا پاکستان کے مفاد میں نہیں. ان کے کمزور ہونے سے داعش اور ٹی ٹی پی افغانستان میں مضبوط ہوں گے یا ان دونوں کو سی آئی اے اور را کی جانب سے درپردہ طور پر مضبوط کیا جائے گا، اور اس سے خطے میں ایک اور خطرناک کھیل شروع ہو جائےگا.
افغان حکومت پہلے ہی انڈیا کے کیمپ میں جا چکی ہے اور وہاں سے مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر ایک بڑا معاشی خطرہ دریائے کابل کے پانی کی بندش کی صورت میں منڈلا رہا ہے، جس کا براہ راست اثر وسطی اور جنوبی خیبر پختونخوا، جنوب مغربی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے صوبوں پر اور بلاواسطہ اثر پورے پاکستان پر پڑے گا، کیونکہ انڈیا وہاں افغان حکومت کے ساتھ مل کر ڈیمز بنا رہا ہے. جب چناب، توی، جہلم، نیلم کے پانی پر اور دریائے سندھ کے لداخ سے نکلنے والے ایک تیز ترین معاون دریا پر قبضہ ہو رہا تھا تو ہماری حکمران اشرافیہ سست ہو کر بیٹھی رہی. اس سے پہلے راوی، بیاس اور ستلج کو انڈیا کے حوالے کرنے کی سنگین غلطی کی گئی اور اس پر دوبارہ سوچا تک نہیں. اس کا نتیجہ پاکستان کو زرعی و صنعتی معیشیت کی تباہی، پانی کی شدید کمی، زیر زمین پانی کی خرابی و کمیابی اور ماحولیاتی نظام کی بربادی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے، اور حکمران اشرافیہ کو ابھی بھی کچھ کرنے کی توفیق نہیں ہو رہی.
اس کے ساتھ بھارت کی پاکستان میں نہ رکنے والی مداخلت کا سلسلہ بھی جاری ہے. مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے اور ان کی زمینوں کو ہتھیا کر ڈیموگرافک تبدیلی کی بھارتی کوششیں بھی زور و شور سے جاری ہیں. پاکستانی ریاست و عوام کو درپیش ان سارے مسائل اور خطرات سے نجات دلانے کے لیے حکمران اشرافیہ کو ہر صورت میں بہادری، حکمت اور ثابت قدمی سے قوم کو ساتھ ملا کر ہر جگہ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ستلج اور راوی سمیت باقی پاکستانی دریاؤں کے پانی کو بھی واپس حاصل کرنے اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروانے کے لیے عالمی و علاقائی سطح پر ہر طرح کی مؤثر خفیہ و اعلانیہ سیاسی، عسکری اور سفارتی کوششیں تیز کرنا ہوں گی. اسی حکمت عملی میں پاکستان کی بقا اور مستقبل پوشیدہ ہے.
تبصرہ لکھیے