میں اکوع خان پشاور کے ایک قبائلی سردار کا بیٹا ہوں جو ایم فل کیلئے آکسفورڈیونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوں۔منہ میں سونے کا چمچ لیکر پیدا ہونے والی مثال شاہد مجھ جیسے لوگوں کیلئے ہی ہوتی ہے۔ چاہے وہ پڑھائی ہو یا غیر نصابی سرگرمیاں ہرفیلڈ میں میں ٹاپر ہی رہا ۔بابا جان کیساتھ بزنس میں ہاتھ بٹایا تو جس پراجیکٹ کو شروع کیا کامیابی سے تکمیل پہنچایا۔
پھر ان سب چیزوں سے دل بھر گیا تو بابا جان سے درخواست کی.
" بابا!اگر آپ اجازت دیں تو میں ایم فل کرنا چاہتا ہوں ۔"بابا نے مسکراتے ہوئے کہا،
" جان بابا!جیسا تم چاہو کرو۔پہلے کبھی تمہاری کوئی فرمائش ٹالی ہے جواب منع کرونگا۔بتاو کس یونیورسٹی میں ایڈمشن لینا چاہتے ہو۔"
یوں ایک دن میں آکسفورڈ آ گیا۔بابا جان نے آکسفورڈ شائر میں ایک فرنشڈ فلیٹ خرید کر میرے نام کر دیا اور دو نوکر بھی ساتھ کر دئیے کہ مجھے گھر کے کاموں میں پریشانی نہ ہو۔
آدے، میری اماں جان جنہیں ہم سب آدے کہتے ہیںمیرے ساتھ ہی آئیں تھیں کیونکہ انہیں اپنی تسلی کرنی تھی کہ مجھے انگلینڈ میں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔دس دن رہ کر انہوں نے گل جانہ اور اس کے شوہر کمال خان کوسب کام سمجھایا اور واپس چلی گئیں ۔
میری پڑھائی اچھی جا رہی تھی۔لیکن اچانک ہی میرا دل دنیا سے بالکل ہی اٹھ گیا۔نہ یونیورسٹی جانے کو دل چاہتا تھا نہ نماز پڑھنے کو ۔نہ میں کسی کا فون اٹینڈ کرتا تھا نہ کسی سے ملتا تھا۔بس نیہلزم کا شکار تھا۔کچھ کمی سی محسوس ہوتی تھی۔
دل چاہتا تھا بس اپنے کمرے میں بند رہوں اور روتا رہوں ۔کمال خان اور گل جانہ کھانا لاتے مگر میں دروازے سے ہی انہیں لوٹا دیتا۔میرے اس رویے سے پریشان ہو کر انہوں نے باباجان کو فون پہ اطلاع دے دی۔
اگلے ہی دن بابا میرے گھر پر تھے۔میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو میں نے چلا کر کہا۔
" ایکبار سمجھ نہیں آتی تمہیں ۔کہہ دیا نا نہیں کھانا کھانا مجھے تو پھر بار بار کیوں تنگ کر رہے ہو؟ "
جواب میں بابا کی آواز آئی،
" اکوع بچے!دروازہ کھولو یہ میں ہوں تمہارا بابا۔"انکی آواز سنکر مجھے کرنٹ لگا میں اچھل کر بستر سے اترا اور بھاگ کر دروازہ کھولا اور ان سے لپٹ کر رونے لگا۔
" ارے!ارے!یہ کیا بیٹا؟ میرا شیر رو رہا ہے؟کیا ہوا میرا بچہ؟" ،بابا نے گھبرا کر سوال کیا۔
مگر میں روتا ہی رہا۔وہ مجھے ساتھ لگائے بیڈ تک لائے میرے ساتھ بیٹھ کر میری کمر تھپکتے رہےجب میں اچھی طرح رو چکا تو میرا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیکر میرا ماتھا چومااور کمال کو آواز لگائی.
" کمال خان بیٹا!گل جانہ سے کہو کھانا لگائے میں اور میرا بیٹا اکھٹے کھانا کھائیں گے۔"
چنانچہ ان دونوں نے ڈائننگ ٹیبل پہ کھانا لگا دیا۔ شاید بابا نے انہیں پاکستان سے روانہ ہونے سے پہلے ہدایات دے دی تھیں میری پسند کی ہر چیز ٹیبل پر موجود تھی۔نمکین گوشت، چرسی کڑاہی، بھنی ماش دال ، سیزر سیلڈ اور مکھڈی حلوہ۔مگر مجھے ایک لقمہ لینے کا بھی دل نہیں کر رہا تھا۔
بابا نے مجھے خود اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا ۔اور کھانے کیبعد مجھے حکم دیا،
" تیار ہو جاو ہم کسی سے ملنے جا رہے ہیں ۔"
میں نے کپڑے چینج کیے اور انکے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔کمال خان گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔وہ پہلے بھی بابا جان کیساتھ انگلینڈ میں رہ چکا تھا لہذا ڈرائیونگ لائسنس تھا اس کے پاس۔میں اپنی سوچوں میں گم تھا چونکا اس وقت جب گاڑی رکی اور بابا جان نے مجھے کہا،
" آ جاو اکوع۔"
ہم ایک نامور سائیکاٹرسٹ کے کلینک پہ کھڑے تھے۔میں چپ چاپ بابا جان کیساتھ اندر چلا گیا جبکہ کمال گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔
" ڈاکٹر معیز میرے ایک دوست کے دوست ہیں ۔انہی کی ریکمینڈیشن پر میں تمہیں یہاں لایا ہوں۔"
بابا نے بتایا میں نے سر ہلا دیا۔ریسپشن پہ بیٹھی خاتون سے بابا نے ہی اپنی آمد کی اطلاع ڈاکٹر صاحب کو دینے کا کہا ۔فورا ہی ہمیں اندر بلا لیا گیا۔چند رسمی کلمات کے بعد بابا نے کہا۔
" ڈاکٹر معیز!یہ میرا بیٹا اکوع ہے۔آپ پلیز ذرا اسے چیک کیجئے اور بتائیے کہ اس کیساتھ کیا مسلہ ہے۔"
" شیور!خان صاحب! آپ پلیز ذرا ویٹنگ ایریا میں تشریف رکھیے میں ان سے بات چیت کرتا ہوں۔"
وہ بابا کو دروازے تک چھوڑ کر آئے۔پھر مجھے ایک کاوچ پر لیٹا دیا اور خود ایک پیپرپیڈ اور پین لیکر نزدیک ہی کرسی پر بیٹھ گئے۔آدھے گھنٹے تک مجھ سے چھوٹے چھوٹے سے سوالات کرتے رہے۔پھر بولے،
" اکوع!آپ باہر بیٹھے اور اپنے فادر کو اندر بھیج دیجئے.
" میں نے ایسا ہی کیا۔مجھے نہیں معلوم ان دونوں کے درمیان کیا گفتگو ہوئی مگر جب بابا باہر آئے تو خاصے سنجیدہ تھے۔ہم واپس گھر آ گئے۔کھانا کھایا اور سو گئے۔ صبح فجر سے پہلے بابا نےمجھے اٹھایا اور ہم دونوں نے اکٹھے نماز پڑھی۔ پھر ناشتے کے بعد بابا مجھے ایک اسلامک سینٹر لے گئے۔جہاں مفتی اسماعیل منک کا ایک لیکچر تھا۔
ہم ہال میں گئے تو ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔بہرحال ہم دو کرسیوں پر بیٹھ گئے۔کچھ دیر بعد مفتی منک اندر آئے۔مسکراتے ہوئے سب کو سلام دیا اور لیکچر کا آغاز کیا۔
" مائی برادرز اینڈ سسٹرز!
ہم فتنوں کے دور میں رہ رہے ہیں اور شیطان جتنا آج کے دور میں چست ہے شاید ہی کسی دور میں ہو۔اسی لئے ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ڈپریشن کا شکار ہی جاتے ہیں ۔ذرا سوچیے دنیا میں صرف سلیمان علیہ السلام کے پاس یہ طاقت تھی کہ انکا تخت ہوا پہ اڑتا تھا۔آج میں اور آپ جہاز میں بیٹھ کر چند گھنٹوں میں دنیا کے کسی بھی سرے میں پہنچ جاتے ہیں ۔قارون کا خزانہ اتنا بڑا تھا کہ 20 اونٹ اسکی چابیاں اٹھاتے تھے۔ہم کریڈٹ /ڈیبٹ کارڈ کی صورت میں اپنا بینک ہر جگہ ساتھ لیجاتے ہیں ۔
بادشاہ نرم گداز بستروں پہ سوتے تھے آج ہم میں سے ہر شخص فوم کے گدے اور بہترین بیڈز پہ سوتا ہے۔ ٹھنڈا پانی کسی کسی کو نصیب ہوتا تھامگر آج ہر گھر میں فریج ہےہم کئی بادشاہوں سے اچھی زندگی گزار رہے ہیں مگر نہیں یے تو سکون نہیں ہے۔ایسا کیوں ہے؟
کیا دین سے دوری اسکا سبب ہے؟
اگر ایساہے تو دیندار لوگ اس کا شکار کیوں ہیں؟
ہم نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، ذکر کرتے ہیں، حقوق العباد کا خیال رکھتے ہیں پھر نہلیزم کا شکار کیوں ہیں ؟۔
واللہ!
برادرز اینڈ سسٹرز یہ کچھ نہیں مگر ایک بیماری ہے۔جیسے ہمیں بخار ہو جاتا ہےکسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔کوئی کینسر کا مریض ہے تو کوئی کسی اور بیماری کا۔اور یہ بیماری کسی کے مسلمان ہونے یا کافر ہونے کو نہیں دیکھتی ۔ویسے ہی ڈپریشن بھی ایک بیماری ہے اور اس کا علاج دوسری بیماریوں کی طرح ضروری ہے۔اگر آپ کسی سائیکالوجسٹ یا سائیکاٹرسٹ کے پاس جاتے ہیں تواس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پاگل ہیں ۔بلکہ آپکو دوا کی مدد کی ضرورت ہے۔ ذکر الہی کیساتھ ساتھ دوابھی ضروری ہے۔
اللہ سے دعا کیجئے اور اس کیساتھ ساتھ دوا لیجئے۔اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔دنیا میں بیشمار ایسے واقعات ہیں جہاں کامیاب ترین اور امیر ترین لوگوں نے ڈپریشن کی وجہ سےخود کشی کر لی۔یاد رکھیے حالات کتنے ہی برے کیوں نہ ہوں ۔ہم کینسر کی لاسٹ اسٹیج پر ہی کیوں نہ ہوں یہ حق ہمیں حاصل نہیں ہے کہ ہم اللہ کی دی ہوئی امانت ، زندگی کو ختم کر لیں۔
وہ آپکو آزما رہا ہے امتحان لے رہا ہے۔اسی سے مدد مانگیے ۔کیونکہ آپ ہر وقت اس کی نظر میں ہیں ۔یقین رکھیے کہ ساری دنیا آپکو چھوڑ سکتی ہے مگر وہ نہیں ۔کیونکہ آپ اسکی مخلوق ہیں ۔وہ آپ سے 70 ماوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اپنی فیلنگز کو شئیر کیجئے۔اپنے کسی دوست سے رشتےدار سے۔کیونکہ ہم سماجی حیوان ہیں ہمیں انسانوں سے رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔بات کرنے سے ہی حل ملے گا۔کمرے میں بند ہو جانا یا اپنی جان لے لینا کوئی حل نہیں ہے۔"
انکا لیکچر جاری تھا اور مجھے لگ رہا تھا وہ یہ سب مجھے ہی کہہ رہے ہیں ۔انکی ہر ایک بات دل پر اثر کر رہی تھی۔سب سے عمدہ یہ بات تھی کہ ہم سب اللہ کی نظر میں ہیں اور وہ ہم سے پیار کرتا ہے ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔اب میں اکثر انکے اور دیگر علماء کے لیکچرز اٹینڈ کرنے لگا ساتھ ساتھ ڈاکٹر معیز کا علاج بھی جاری رہا۔یوں ایم فل کی ڈگری کیساتھ ساتھ میری ڈپریشن کی بیماری بھی کم ہوتی گئی۔میں نے بہت سارے گروپس جوائن کر لئے جہاں میں اپنے تجربات شئیر کر کے اپنے جیسے مریضوں کو حوصلہ دیتا ہوں۔
اللہ کا شکر ہے کہ اب مجھے زندگی بامقصد دکھائی دینے لگی ہے۔جلد ہی پاکستان واپس جاونگا جہاں بابا اور آدے میری شادی کی تیاریاں کر رہے ہیں ۔میرا ارادہ ہے کہ میں وہاں ایک این جی اور شروع کروں جس کے ذریعے ڈپریشن کے بارے میں آگاہی پھیلاوں اور اپنے جیسے مریضوں کا علاج بھی کرواوں۔آپ سب دعا کیجیے میں اس مقصد کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جاوں ۔اور کوئی بھی مریض محض اس وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے کہ اس کا علاج نہیں ہو سکا۔"
تبصرہ لکھیے