جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی تیرے اندر دلکشی باقی رہے گی ہو کوئی برباد اس سے تجھ کو کیا ہے تیرے رخ پر سادگی باقی رہے گی ظاہر ہے اگر انسان سیر ہو جائے تو بھوک کہاں رہتی ہے۔وہ جو منیر نیازی نے کہا تھا کچھ باتیں ان کہی رہنے دو کچھ باتیں ان سنی رہنے دو، ساری باتیں کہہ دیں اگر تو باقی کیا رہ جائے گا۔
بس زندگی میں ایک سسپنس ضروری ہے۔تکمیل تو موت ہے۔ جب فنکار میں گنجائش ہو ختم ہو جائے تو مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے اس کے اندر ٹھہرائو آ جاتا ہے یا جمود اور پھر جمود تو موت ہے: وہ کہ تسلیم تو کرتا ہے محبت میری میں ادھورا بھی نہیں اور مکمل بھی نہیں آپ شعروں پر غور کریں یا الفاظ پر تو وہ بکھرنے لگتے ہیں اپنا دامن وا کر دیتے ہیں ہر لفظ کی اپنی ایک کمسٹری ہے۔ ایسے ہی اوپر درج کردہ شعر کے لفظ برباد پر میرا دھیان گیا تو یاد آیا کہ یہ دو لفظوں سے بنا ہے۔فارسی میں ’’بر‘‘ کے معنی اوپر ہے اور باد کا معنی ہوا تو برباد کا مطلب ہوا کے سپرد یعنی جو چیز ہوا پر رکھ دی گئی تو پھر ہوا جدھر چاہے اسے اڑا لے جائے۔
جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ اشجار سے جھڑے ہوئے خشک پات ہوا کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ہائے ہائے شیلے یاد آ گیا جو کہتا ہے کہ اے مغرب کی ہوا مجھے ایک پتے یا پر کی طرح اٹھا اور مجھے زندگی کے کانٹوں پر گرا دے زندگی ایسی ہی تو ہے اس کا مقصد تو آسمان سے عطا ہوتا ہے مگر توجہ ضروری ہے۔زندگی کے حوالے سے اپنے مرحوم دوست انجم یوسفی صاحب یاد آ گئے: مجھ سے پوچھتے کیا ہو زندگی کے بارے میں اجنبی بتائے کیا اجنبی کے بارے میں یقینا آپ سوچتے ہونگے کہ میں یہ کیا لکھتا جا رہا ہوں آپ بالکل درست سوچتے ہیں کہ مجھے خود بھی کچھ علم نہیں۔کبھی دل چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو قلم کے سپرد کر دیا جائے اور پھر یوں لگنے لگتا ہے کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ خالد احمد نے تو دوسرا مصرع اٹھا کر ساتھ لگا دیا تھا کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو۔شراب میں، ویسے تو زندگی خود اک نشہ ہے اس کی خوبصورتیاں انسان کومد ہوش کر دیتی ہیں۔
مسکراتے ہوئے اسے دیکھا باور آیا کہ زندگی کیا ہے کیٹسنے تو موسم خزاں کو بھی اسی رنگ میں دیکھا اور اس کی تجسیم کر ڈالی کہ وہ کتی شکلوں میں نظر آتی ہے۔ وہ جو میں نے کہا تھا نہ کہ ہر لفظ کی کیمسٹری ہے جو بات مشکل سے سمجھ میں آتی ہے وہ چہرے میں نہیں جس نے میرے دل کو درد دیا اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں۔ جو آگ لگی جلتی ہی گئی جو پھول کھلا کملایا نہیں۔ہمارے دوست ڈاکٹر فرقان احمد قریشی صاحب مجھ سے ایک شعر کی تشریح پوچھنے لگے کہ: کہ طالب ہو تو مطلوب نظر آتا ہے ورنہ سب کو کیا عجوب نظر آتا ہے کسی بھی شعر کی تشریح کرنا اسے برباد کرنے کے مترادف ہے شعر کی کئی پرتیں ہوتی ہیں جو توجہ کرنے پر کھلتی جاتی ہیں پھر بھی سرسری نظر بھی کچھ نہ کچھ دیکھ لیتی ہے مقصد یہ ہے کہ جب آپ کی طلب میں خلوص اور شدت ہو تو پھر ہی آپ کو کہیں باریابی مل سکتی ہے تقاضے توکرنے پڑتے ہیں۔
کچھ کشٹ تو کاٹنا پڑتا ہے طالب کو چاہیے کہ اپنے آپ کو کسی مقام پر لائے کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔بس اتنا کہ آپ طالب بنیں تو اس طرح کے مطلوب کو پسند آ جائیں مگر کیا کریں: ایسے لگتا ہے کہ خالی ہے یقیں سے بستی پر مسیحا یہاں مصلوب نظر آتا ہے بس یہی افسوس ناک مقام ہے کہ جب سچ اٹھ جائے اور جھوٹ کا بول بالا ہو۔ پھر خوبصورتی بھی عنقا ہو جاتی ہے وہی جو کیٹس نے کہا تھا کہ سچ خوبصورتی ہے اور خوبصورتی سچ۔دونوں ایک ہی چیز ہے۔حضرت علیؓ نے فرمایا کہ سچ بولو کہ یہ یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ جھوٹ تو ثابت کرنا پڑتا ہے اور اس کی بنیاد دلیل پر نہیں بلکہ ایک اور جھوٹ پر ہوتی ہے۔جھوٹ کے کئی نام رکھ لئے جاتے ہیں کہ محسوس نہ ہو ۔آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر غلط بیانی انسان کا وقار اور اعتبار ختم کر دیتی ہے اور انسان کے پاس یہی کچھ تو ہے جو اسے اعلیٰ و ارفع مقام لے جاتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ پوری کائنات ہی توازن پر کھڑی ہے سب کچھ متعین ہے اسی لئے عدل اور انصاف کا حکم ہے پورا معاشرہ اسی پر مدار کرتا ہے جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہے کچھ نہ کچھ ہر جگہ گڑ بڑ ہوتی ہے مگر ہماری تو گزارش ہے کہ اس مقدس ادارے کو تماشہ نہ بنایا جائے اللہ کہتا ہے کہ ایک عادل جو اپنے منصب سے انصاف کرتا ہے بڑے سے بڑے عابد سے بہتر ہے۔اس کی جنبش قلم پر لوگوں کی زندگیاں لگی ہوتی ہیں۔۔وقت تو گزر جائے گا مگر تاریخ آپ کو کسی نہ کسی حوالے سے زندہ رکھے گی ۔اللہ نے سب سے پوچھنا ہے کہ وہ حق کے ساتھ کھڑے تھے یا باطل کے ساتھ۔ً ایک سوال خان صاحب سے کہ آپ کی شہرت ایماندار اور دیانتدار کی تھی مگر آپ نے قاضی فائز عیسیٰ کو کیوں نشانے پر رکھا۔
مقصد تو آپ کا کچھ تھا پھر آپ سب کچھ کر کے اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ آپ کی غلطی تھی۔ یہاں سچا آدمی کسی کو نہیں چاہیے ۔ میرٹ اور قانون پر چل کر نئی تقرریاں کی جائیں اور باقی معاملات دیکھے جائیں سچ کی تلاش تعصب اور دشمنی میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔سچ اور حق کو پہچان لینا اور تسلیم کر لینا ہی بڑے پن کی دلیل ہے منصب کا تو منصب ہی حق اور سچ کو باطل اور جھوٹ سے ممتاز کرنا ہے: اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید سارا شہر سجایا جا سکتا تھا
تبصرہ لکھیے