ایک کہانی لکھنا چاہتا ہوں جو رہی جا رہی ہے جس کا نام ہے چوروں کا راج۔آج بھی یہ قصہ رہ جائے گا‘ کیونکہ پنجاب کا فیصلہ آ گیا ہے یہ معرکہ تو سر ہوا‘ مگر ملک کا معاملہ وہیں کا وہیں بلکہ مزید الجھتا جا رہا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ پنجاب کی حکومت تو پی ٹی آئی کے پاس آ گئی ہے‘ وفاق کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
نہیں‘ نہیں یہ مطلب نہیں‘یہ چھوٹی بات ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے معاملات کی ڈور الجھتی جا رہی ہے۔ دیکھیے، آج ہی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ایک دوست ملک سے قرضہ مانگا تو اس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ آپ نے پہلے کبھی قرضہ واپس کیا ہے۔معلوم نہیں مفتاح اسماعیل ایسی دل دکھانے والی باتیں کیوں کرتے ہیں مگر اس سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔عالمی اداروں نے جو تجزیے جاری کئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ عالمی حالات کا اثر پاکستان کی معیشت پر بھی منفی پڑے گا۔ہم خواب دیکھ رہے ہیں کہ آئندہ چار چھ ہفتوں میں ہمیں آئی ایم ایف سے بھیک مل جائے گی تو دوست ممالک کی طرف سے بھی ہم پرہن برسنے لگے گا۔
معاف کیجیے یہ کیسی دوستی ہے جو عالمی اداروں کے اشارۂ ابرو کی محتاج ہے ،مگر عالمی سطح پر حقیقت یہی ہے اس دوست ملک کی ہمت ہے کہ وہ قرض واپس نہ کرنے کے باوجود ہماری مدد کرتا رہا ہے‘ اب بھی شاید اس نے اسٹاک ایکسچینج میں یا کسی ایسی ہی صورت میں مدد کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ صرف اقتصادی صورتحال ہے۔یہ جو فواد چودھری وغیرہ کہتے ہیں کہ وہ ایک منٹ میں وفاقی حکومت گرا سکتے ہیں مگر ہم سوچ رہے ہیں کہ ملک کو کیسے جمہوریت کی راہ پر لایا جائے۔اس کے اور بہت سے مطلب ہوں گے مگر ایک مطلب ہے کہ یہ بوجھ کون اٹھانے آئے۔یہ جو کہا جا رہا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ پاکستان ناقابل حکمرانی ہو جائے گا تو وہ وقت شاید ہمارے دروازے پردستک دے رہا ہے۔اس وقت تو ہم صرف حقیقت کا ذکر کر رہے ہیں، وگرنہ ہر سطح پر ایسی ایسی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ ہر ادارہ ملک چلانے میں ناکام ہو چکا ہے۔
کوئی آگے بڑھ کر معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کو تیار نہیں۔خیر یہ دوسرا مسئلہ ہے مگر معاشی طور پر جو اشاریے ہیں وہ پہلی بار اتنے نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں کہ بتاتے ہیں ہمارے ہاتھ پلے کچھ بھی نہیں ہے۔یہ جو مہنگائی ہے‘ لاکھ کہیں کہ اس حکومت سے سنبھل نہیں رہی یا سابقہ حکومت کی نااہلی کا نتیجہ ہے‘ کچھ بھی کہہ لیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے ملک کو مسلسل دلدل میں دھکیلا ہے۔اب جب صاف نظر آتا ہے کہ راہ نجات مشکل ہے۔میں مسلسل کہتا آیا ہوں کہ ملک کا معاشی بحران اس وقت شروع ہوا جب نواز شریف کو ایک مقدمے میں نااہل قرار دیا گیا۔قطع نظر اس بات کے کہ اس مقدمے کے میرٹ یا ڈی میرٹ کیا ہیں‘ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک اپنے اس جدید ترین دور میں جس معاشی حکمت عملی کی طرف چل رہا تھا اور جس نے ہمیں ملک کی 18بڑی معیشتوں میں شمار کر لیا تھا اور ہم G 20میں جانے کے خواب دیکھنے لگے تھے.
وہ سفر یک لخت کٹ گیا سی پیک ایک ایسا منصوبہ تھا جس سے ہم نے ایک نئی منصوبہ بندی کا آغاز کیا تھا۔ جو مغرب سے مختلف تھی ہم سمجھے دنیا یہ برداشت کر لے گی مگر ایسا نہ ہوا۔اس منصوبے کے تحت ہم نے اپنی لاجسٹک اور انرجی کا مسئلہ طے کرنا تھا اور دوسری مرحلے پر صنعتی یونٹ لگانے تھے۔بنیادی انفراسٹرکچر بن رہا تھا کہ مغرب نے ہمارے ہاں سب کچھ پلٹ دیا۔ میں نہیں کہتا کہ اس وقت نواز شریف کے خلاف ساری بغاوت اسی لئے ہوئی مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعد ہماری سمت دوبارہ کم از کم اقتصادی طور پر پرانی سمت چلنے لگی۔میں ان دنوں اعداد شمار پیش کر کے بتاتا رہا کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ہمارے مرحوم دوست رئوف طاہر مجھے ہنس ہنس کر کہتے تھے کہ آپ نے یہ اعداد و شمار اتنے تسلسل سے پیش کئے ہیں کہ مجھے ہی نہیں،اب تو میرے بچوں کو بھی ازبر ہو گئے ہیں۔
اب ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں نہ ہم فوری طور پر واپس چین کی طرف جا سکتے ہیں ،نہ ہمیں اپنی روایتی مغربی دوستوں سے امداد مل رہی ہے بلکہ ہمارے گرد شکنجے تنگ کئے جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری قومی اسمبلی میں شور اٹھا کہ ہمارے اکائونٹ میں ڈیڑھ بلین ڈالر کہاں سے آیا۔وزیر خزانہ غالباً سرتاج عزیز تھے انہوں نے پہلے تو بہت لیت و لعل سے کام لیاپھر بتایا کہ سعودی عرب نے چپکے سے ذاتی طور پر نواز شریف کو یہ مدد فراہم کر دی ہے۔اس میں کچھ عالمی نزاکتیں ہوں گی کہ ہمارے کرم فرما اس راز کو افشا نہ کرنا چاہتے ہوں مگر ہمارے جمہوری اداروں نے یہ راز راز نہ رہنے دیا۔اب ہم سرکاری طور پر قرضہ مانگنے جاتے ہیں تو سو شرائط لگا دی جاتی ہیں۔ میرے ایک پروگرام میںممتاز معیشت دان ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نہ ڈالر کے بڑھتے ہوئے نرخ کے لئے سٹیٹ بنک کے گورنر باقر رضا کو ذمہ دار قرار دیا۔
پھر بتایا کیا کیا جا سکتا تھا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے اور یہ گورنر ہی کر چکے ہیں مگر اب نہیں کیا گیا۔ہمارا یہ حال ہے مہینہ دو مہینے گزر گئے اور ہم اب تک سٹیٹ بنک کے نئے گورن کا تقرر نہیں کر سکے۔معیشت کی گاڑی ڈانواں ڈول ہے اور اس پر کوئی ڈرائیور ہی نہیں۔ہم بہت کچھ سٹیٹ بنک کو دے چکے ہیں وزارت خزانہ اس میں بے بس ہے مگر گورنر کے تقرر میں تو بے بس نہیں۔ یہ میں نے صرف معیشت کا رونا رویا وگرنہ ہمارا کون سا معاملہ ہے جو سیدھا ہے۔یہ جو تخت لاہور کا مقدمہ آیا ہے اس نے ہمارے عدالتی نظام کے کیا کیا معاملات طشت ازبام کر دیئے ہیں۔بار کونسل کے اعتراض کیا ہے بنچ بنانے اور انہیں مقدمات تفویض کرنے کا اختیار صرف ایک شخص کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔یہ بحث بھارت میں بھی چھڑی ہے۔یہ ادارہ ایک اداراتی بحران کا شکار ہے۔میں ہر ادارہ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہوں۔
باقیوں کا نام بھی نہیں لیا کہ پر جلتے ہیں۔جن کے پاس اقتدار ہے‘ وہ بھی پریشان ہیں جو اقتدار سے باہر ہیں انہیں بھی کچھ سمجھ نہیں آتا۔ پنجاب میں کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا۔صرف یہ کہا جاتا ہے کہ پرویز الٰہی زیرک سیاستدان ہیں ان کا دور اچھی حکمرانی کا دور تھا ۔ان کا پرویز مشرف کے ساتھ گزارا ہو گیا تھا تو عمران سے بھی ہو جائے گا۔مگر عمران کے لئے بزدار کی جگہ پرویز الٰہی کیسے رہیں گے۔یہ ایک سوال ہے۔یہ میں کیا پنجاب میں الجھ کر رہ گیا‘ مجھے تو ملک کی بات کرنا ہے مگر ملک کا معاملہ پہر بات سے نتھی ہے۔ پنجاب سے بھی ،سندھ سے بھی اور ہاں خیبر پختونخواہ سے بھی۔
صرف یہ نہیں کہ وہاں 9سال سے ایک ہی پارٹی کی مستحکم حکومت ہے مگر اس نو سال میں خیبر پختونخواہ میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں اور اس وقت بھی بہت سے فیصلے منتظر ہیں کہ کوئیکسی نتیجے پر پہنچے۔طالبان کا مسئلہ معمولی نہیں۔یہ ہماری سکیورٹی کے مسائل میں بنیادی ہے اور ہم ادھر لگ گئے تو بہت کچھ نظرانداز ہو جاتا ہے۔جی‘ کشمیر بھی ‘ بس اب رہنے دیجیے۔ہر ادارے کا امتحان ہے۔ہر کوئی عرصہ محشر میں ہے۔
تبصرہ لکھیے