ترکی میں پیش آمدہ ایک مسئلے پر ہمارا کوئی رائے رکھنا یا ایک دوسرے سے مختلف زاویہ نگاہ رکھنا یقیناً حرج کی بات نہیں۔ تُرکی صورتحال سے لاتعلق رہنا ایک مسلمان کےلیے اِس ’الیکٹرانک‘ جہان میں ناممکن ہے، جبکہ دیکھنے کے زاویے ہمارے مابین جدا ہو سکتے ہیں، اور رہیں گے۔ البتہ اس کا طریقہ میرے خیال میں یہی درست ہے کہ آپ ایک بات کو اپنی رائے کے طور پر بیان کرنے تک رہیں۔ اپنی اس رائے کے حق میں بھرپور دلائل بےشک دیں۔ اس سے معارض نقطۂ نظر کو دلائل کے ساتھ غلط ٹھہرانا بھی لامحالہ رہے گا کہ اس درجہ تبادلۂ آراء ایک صحتمند عمل ہے۔ البتہ یہ اسلوب اختیار کرنا کہ فلاں جماعت نے (باقاعدہ جماعت کا نام لے کر) یہ موقف اختیار کیوں کر رکھا ہے، میرے خیال میں اسلامی سیکٹر کے باہم الجھ پڑنے کا موجب ہو سکتا ہے، ایک ایسے وقت میں جب نہ اس کی ضرورت ہے اور نہ ہم اس کے متحمل۔ یہ چیز اسلامی آوازوں کی ہم آہنگی کو متاثر کرنے کا باعث بن سکتی ہے اور شاید جواب در جواب کے کسی سلسلہ کو ایک غیرضروری انگیخت دے، جبکہ نقطہ نظر کا بیان کسی جماعت کو موضوع بنائے بغیر بھی ممکن ہے۔ اس کے باوجود، اگر کسی طرف سے ایسی کوئی بحث شروع ہو گئی ہے تو اس کو اچھے سے اچھے احتمال پر محمول کرنا چاہیے، نیز اسلامی سیکٹر کےلیے اس سے بھی زیادہ سے زیادہ فائدے ہی لے کر آنے کی سعی ہونی چاہیے، جس پر میں تھوڑا آگے چل کر بات کروں گا۔ البتہ اس اعتراض کے مضمون پر بےتکلفی سے کچھ بات کر لینے میں بھی حرج نہیں۔
جماعت اسلامی پر یہ تنقید ہوئی ہے کہ یہاں ایک جیسے واقعات کو دیکھنے کےلیے کچھ دہرے قسم کے پیمانے ہیں۔ اردگان صاحب ترکی میں عین وہی کر رہے ہیں جو حسینہ واجد صاحبہ بنگلہ دیش میں
پھر اس بات کا تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ جماعتِ اسلامی اردگان کی حمایت کس حوالے سے کر رہی ہے۔ آیا جماعت اسلامی یہ کہہ رہی ہے کہ گولن کو پھانسی چڑھا دو؟ یا حتیٰ کہ جماعت اسلامی نے بغاوت میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے عناصر کو سزائیں دلوانے کی تحریک چلا رکھی ہے؟ ایک جمہوریت کے خلاف 'کُو' ہوا اور اس میں جماعت اسلامی اپنے ملک میں اردگان کےلیے کلمۂ خیر کہلوا رہی ہے، جس کی پشت پر اسلامی اخوت کا جذبہ کارفرما ہے، اس حد تک اس میں اعتراض کی بات کیا ہے؟ اردگان کی حمایت کی ہے مگر یہ بھی تو دیکھیں کس حوالے سے؟ ایک ہی بات کے بےشمار حوالے ہو سکتے ہیں، کچھ ان میں سے غلط ہوں گے کچھ صحیح ہوں گے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ جب میں ایک جماعت پر اعتراض کرتا ہوں تو اس کےلیے میں اس کے کون سے بیان کو بنیاد بناتا ہوں۔ ترکی کے داخلی نزاع میں میرا خیال ہے
ہاں اس حالیہ خونیں واقعے کی گرد بیٹھے اور کوئی ٹھوس شواہد اس بات کے سامنے آئیں کہ
[/pullquote]
یہاں کی کسی بھی اسلامی جماعت کو میں اپنا وجود سمجھتا ہوں، اور اپنے وجود کےلیے جوش اور حمیت میں آنا میرے نزدیک نادرست ہے، خصوصاً کسی ایسے شخص کے مقابل جو خود بھی اسلام کا نہایت خیرخواہ ہے، اور مجھ سے تو یقیناً زیادہ ہو گا۔ لہٰذا ان مسائل پر بات کرنا اُسی حد تک اور صرف اُسی پہلو سے میرے نزدیک جائز ہے جس سے ملک میں اسلامی ایجنڈے کا بھلا ہو سکتا یا اس سے کسی ضرر کو دفع کیا جا سکتا ہو۔ لہٰذا مسئلہ کی کچھ وضاحت بھی ہو جانا ضروری تھا، جس پر میں کچھ گزارشات آپ کے سامنے رکھ چکا۔ مگر اب میں اس موضوع پر آؤں گا کہ اپنے کسی بھائی کی کسی اسلامی جماعت پر تنقید کو، اگرچہ وہ ہماری نظر میں بےجا بھی ہو، کیونکر اچھے احتمالات پر محمول کیا جا سکتا اور اسلامی ایجنڈا کےلیے اس سے فائدہ لیا جا سکتا ہے۔
اِس مقام پر، میں مسئلہ کو کسی ایک جماعت یا ایک فورم کی نظر سے دیکھنا درست نہیں سمجھتا۔ بلکہ اسلامی سیکٹر کی نظر سے دیکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مسئلہ کچھ یوں ہو گیا ہے کہ ایک عرصہ سے عقول یہاں عالمی میڈیائی عوامل کے زیرِاثر ساخت پا رہی ہیں، جس کے باعث اسلامی جماعتوں اور ان کے ایشوز کو دیکھنے کا ایک خاص زاویہ عقول کے اندر تشکیل پا چکا ہے۔ بےشک دینی طبقوں کے اپنے اندر اس کا کچھ ردعمل ہو گا، اور اس کی اصلاح ایک الگ موضوع ہے، لیکن ہم بات کر رہے ہیں یہاں مین سٹریم میڈیا سے راہنمائی لینے والی عقول کی، جسے فی الوقت ’رائےعامہ‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک اصل چیلنج اس رائےعامہ کو اسلامی ایجنڈا کے حق میں متاثر کرنا ہے، جو اس وقت جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں ہمارے وہ کالم نگار ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں جن کی ہمدرردیاں ملکی اور عالمی سطح پر ایک اسلامی ایجنڈے کے ساتھ ہیں۔ اِس رائےعامہ کے محاذ پر ہمیں مختلف سطحوں پر کھیلنا اور اپنے ہر کھلاڑی کو داد دینی ہے۔ (کھلاڑی کی کسی غلط شاٹ کی نشاندہی ایک مختلف سیاق ہے مگر اس کے باوجود اس کے حوصلے بڑھانا ایک اور سیاق)۔
قومی اخبارات کے ’اسلامی‘ قارئین کو چھوڑتے ہوئے، جو تعداد میں بہت زیادہ نہیں، رائےعامہ سے کچھ ’کیش‘ کروانے کے معاملے میں مختلف صحافیوں کی ’لِمِٹ‘ یہاں مختلف ہے۔ کسی کا ’ڈیپازٹ‘ زیادہ تو کسی کا کم۔ یہاں رائےعامہ جب ہمارے کسی ’اسلامی‘ سمجھے جانے والے صحافی کو اسلامی جماعتوں کا زیادہ بڑا ناقد دیکھے گی تو کسی دوسرے موقع پر وہ اس کے اسلامی خیالات کو سننے اور برداشت کرنے پر نسبتاً زیادہ آمادہ ہوگی۔ اور جو ہر وقت ’اسلامیوں‘ کی تائید میں لگا رہے گا اس کو پڑھنے سے پہلے لپیٹ دینے کی جانب مائل ہوگی۔ رائےعامہ کی یہ ایک عمومی ساخت، کچھ معلوم عوامل کے زیراثر، ایک واقعہ ہے، کم از کم میں اس کو نظرانداز نہیں کروں گا۔ لہٰذا ہمارا کوئی اسلام پسند صحافی ہماری کسی دینی جماعت پر تنقید کر جانے میں اگر کوئی غلطی کر بیٹھے تو میں اس غلطی کی نشاندہی تو جہاں ضرورت ہو گی، ضرور کر دوں گا اور اس سے اگر کوئی نقصان ہوا تو وہ تو ہو ہی چکا، لیکن میری نظر اس فائدہ پر بھی بہرحال چلی جاتی ہے جو مین سٹریم میڈیا میں ہمیں ایک دوسری صورت میں لامحالہ مل جائے گا۔ اصل چیز ہے ہمارے ان دوستوں بھائیوں کی اسلامی کاز سے ہمدردی، جو ان شاءاللہ ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔
حسینہ واجد کے ساتھ زیادتی - حامد کمال الدین

بہتر ہے، اچھا ہے