17جولائی کے دن پنجاب میں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد میری مسلم لیگ (نون) کے کسی بھی سطح کے سرکردہ فرد سے براہ راست گفتگو نہیں ہوئی۔سیاسی حرکیات کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے اپنے تئیں اگرچہ اس رائے کا اظہار اس کالم میں کردیا تھا کہ جو نتائج رونما ہوئے ہیں وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ شہباز شریف صاحب گیارہ جماعتوں پر مشتمل وفاقی حکومت کی قیادت سے مستعفی ہوجائیں اور اپنی جماعت کو آئندہ انتخاب کے لئے تیار کریں۔
پیر کے دن تاہم چند متحرک صحافیوں سے رابطہ ہوا۔مسلم لیگ (نون) کے چند پالیسی ساز ان سے دل کی بات بھی کرلیتے ہیں۔ان صحافی دوستوں سے گفتگو کے بعد اندازہ ہوا کہ شہباز صاحب غالباََ ’’اب کی مار‘‘ والے رویے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔فقط دو صحافیوں کو البتہ یہ گمان تھا کہ وہ اتحادی جماعتوں کے عمائدین کے ساتھ منگل کے روز ہوئے اجلاس کے دوران وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجانے کی خواہش کا اظہار کریں گے۔اتحادی اگر قائل نہ ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سوال کی بابت راوی خاموش رہے۔عمران خان صاحب ضمنی انتخابات کے ذریعے اپنی عوامی مقبولیت ثابت کرنے کے بعد بھی اپنے مخالفین کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے ملکی بحران کا حل تلاش کرنے کو آمادہ نظر نہیں آرہے۔
سوئی ان کی فی الفور نئے انتخابات کے حصول پر اٹکی ہوئی ہے۔چیف الیکشن کمشنر کے ’’نیک چال چلن‘‘ سے بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ ان کے استعفیٰ کے حصول کے لئے بدستور بضد ہیں۔یہ بات عیاں ہے کہ اگر ان کے یہ مطالبات سرجھکاکر تسلیم نہ کئے گئے تو وہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حمایت سے چودھری پرویز الٰہی کے قیام اور اس کے مستحکم ہوجانے کے بعد اسلام آباد پر ایک بار پھر لانگ مارچ کی صورت ’’حملہ آور‘‘ ہوں گے۔اب کی بار ’’عوامی ہجوم‘‘ فقط خیبرپختونخوا ہی سے اس شہر میں داخل نہیں ہوگا۔پنجاب سے بھاری بھر کم ہجوم لانے میں بھی آسانی ہوگی۔ہوسکتا ہے کہ لاہور سے آئے جلوس کی وہ بذاتِ خود قیادت کریں جسے راولپنڈی تک پہنچانے میں صوبائی حکومت کی انتظامیہ فدویانہ تعاون فراہم کرے گی۔
2014ء میں تخت لاہور پر شہباز شریف براجمان تھے۔وہ تحریک انصاف کو طاہرالقادری کے حامیوں سمیت اسلام آباد تک مارچ کو روک نہیں پائے تھے۔ان کے ’’جگری‘‘ چودھری نثار علی خان وفاقی وزیر داخلہ تھے ۔وہ بھی ہجوم کے روبرو بے بس نظر آئے۔عمران خان صاحب کا دیا دھرنا 126دنوں تک جاری رہا۔وہ اپنے ہدف کے حصول میں یقینا ناکام رہا۔وفاقی حکومت کی تاہم اس نے بنیادیں ہلادی تھیں۔پشاور کے آرمی سکول میں دہشت گردی کا سانحہ نہ ہوتا تو شاید وہ استعفیٰ دینے کو مجبور ہوجاتی۔آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے اور اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے صوبے پر کنٹرول کھودینے کے بعد وفاق میں بیٹھے شہباز شریف ویسے ہی نظر آئیں گے جیسے کسی زمانے میں افغانستان کے حامد کرزئی کی بابت محسوس ہوتا تھا۔طنزیہ طورپر انہیں افغانستان کا صدر نہیں بلکہ ’’کابل کا میئر‘‘ پکارا جاتا تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی پہلی حکومت کے ساتھ بھی 1988ء سے 1990ء کے دوران ایسا ہی عالم رہا تھا۔مغلیہ دور کے زوال کے دنوں میں ایک بادشاہ شاہ عالم کے نام سے نمودار ہوا تھا اس کی حکمرانی ’’ازدلی تا پالم‘‘ تصور ہوتی تھی۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ شہباز شریف صاحب اپنے بارے میں ویسی ہی تاریخ دہرانا چاہ رہے ہیں یا نہیں۔
جن صحافی دوستوں سے پیر کے روز گفتگو ہوئی ان کی اکثریت مصر رہی کہ شہباز صاحب کے استعفیٰ کی توقع باندھتے ہوئے میں ’’انتہا پسندانہ اور غیر ذمہ دار‘ ‘ رویہ اختیار کررہا ہوں۔ معاشی حقائق کے بارے میں وہ مجھ سے کہیں زیادہ باخبر ہیں۔وہ بضد رہے کہ اگر شہباز شریف نے موجودہ حالات میں اپنے ہاتھ کھڑے کردئیے تو پاکستان کو ’’دیوالیہ‘‘ ہونے سے روکنا ناممکن نہ سہی انتہائی دشوار یقینا ہوجائے گا۔ انہیں یہ بھی گلہ تھا کہ مجھ جیسا نام نہاد ’’پڑھا لکھا‘‘ شخص عوام کو ’’دیوالیہ‘‘ ہونے کے عواقب سے کماحقہ انداز میں آگاہ نہیں کررہا۔
پنجاب کے ضمنی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہوگیا تو اس کے عین ایک روز بعد پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں یک دم ریکارڈ بناتے انداز میں ’’ٹکے ٹوکری‘‘ ہوگئی۔سٹاک ایکس چینج بھی بلبلااٹھا ہے۔اپنے دفاع میں یاد دلانے کو مجبور ہوا کہ ہمارے برعکس بھارت میں مودی سرکار سیاسی اعتبار سے مستحکم ہے۔ ہمارے ہمسائے کا سیاسی استحکام مگر بھارتی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں مسلسل گرنے سے روک نہیں پارہا۔ یہ کالم لکھنے سے قبل اطلاع آئی ہے کہ ایک امریکی ڈالر کے بدلے اب بھارت میں 80روپے مل رہے ہیں جو اس ملک کی تاریخ میں بدترین گراوٹ ہے۔
تمام یورپی ممالک میں یورو نام کی کرنسی رائج ہے۔یورو گزشتہ کئی برسوں سے اوسطاََ ڈیڑھ ڈالر کے برابر رہا ہے۔اب یورو اور ڈالر کی قدرمسادی ہوگئی ہے۔پاکستانی روپے کی گراوٹ روکنا فی الحال میری دانست میں ممکن نظر نہیں آرہا کیونکہ اس کے اسباب ہمارے کنٹرول میں نہیں۔عام پاکستانی مگر اپنی حکومت ہی کواس کا ذمہ دار ٹھہرائے گا۔عمران خان صاحب جن دنوں ہمارے وزیر اعظم تھے تو پاکستانی روپے کی گراوٹ ان کے ذمہ ڈالی جاتی تھی۔شہباز شریف صاحب کو ان کے برعکس ’’بری الذمہ‘‘ ٹھہرایا نہیں جائے گا۔پاکستان ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں اس وقت مہنگائی اور کساد بازاری نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنارکھی ہے۔ بنیادی وجہ اس کی روس کی یوکرین کے خلاف برپا کی گئی جنگ ہے۔اس جنگ کے خاتمے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔ عام پاکستانیوں کی اکثریت مگر مذکورہ جنگ کے ہولناک اثرات سے قطعاََ غافل ہے۔
ہمارے عوام کی بھاری بھر کم تعداد خواہ وہ عمران خان کی حامی یا ووٹر نہ بھی رہی ہو نہایت شدت سے یہ محسوس کررہی ہے کہ وہ اگر اب بھی حکومت میں ہوتے تو زندگی شاید آسان رہتی۔روس ہماری تیل کی ضروریات ’’سستے داموں‘‘ پوری کردیتا۔آئی ایم ایف کو تحریک انصاف کی حکومت ٹھینگا دکھائے رکھتی اور اس کے مطالبے پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے سے انکار کردیتی۔سیاست میں تاثر حقائق سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے
۔اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے موجودہ حکومت کو فوری انتخاب کے لئے رضا مند ہوجانا چاہیے۔ اگر یہ انتخاب عمران خان صاحب کو بھاری اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹادیں تو شاید چند ماہ بعد ہم حقائق کو دیکھنا بھی شروع ہوجائیں۔
تبصرہ لکھیے