ہوم << آ وینس ڈے: بھارتی افغان دشمنی کی مثال-حماد یونس

آ وینس ڈے: بھارتی افغان دشمنی کی مثال-حماد یونس

سال ہے 2008، دیس ہے بھارت اور فلم انڈسٹری ہے بالی ووڈ۔ بھارتی سینما کےعظیم اداکار، نصیر الدین شاہ ، ایک فلم میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے بازار، معصوم ، امراؤ جان ادا ، مالامال، آکروش، مہرہ اور ایسی بہت سی فلموں میں قابلِ قدر کردار نبھائے ہیں۔ 1988 کا شہرہ آفاق ڈرامہ ، غالب، جسے سمپورن سنگھ گلزار نے تحریر کیا تھا، اس میں مرکزی کردار ، یعنی مرزا اسد اللہ خاں غالب کا کردار انہی نصیر الدین شاہ نے نبھایا تھا۔
وہی نصیر الدین شاہ اس فلم میں اپنے فن کا جوہر دکھانے والے ہیں۔دیگر اہم کردار نبھانے والوں میں شامل ہیں سینیئر اداکار انوپم کھیر۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ہیں نیرج پانڈے ، جبکہ سکرپٹ بھی انہی کا لکھا ہوا ہے۔

فلم میں شروع سے آخر تک ایک سسپنس اور سنسنی کا سماں ہے۔ فلم دیکھنے والے ، یعنی ناظرین انگشت بدنداں ہیں، اور منتظر ہیں کہ کب کہاں کس مرحلے پر کہانی ایک نیا موڑ لینے والی ہے ۔ یہ سب تو ہے بالائی سطح پر اس فلم کا تجزیہ، دیکھیے اس بحر کی تہہ سے ابھرتا ہے کیا۔ اس فلم کا مرکزی خیال ہے دہشت گردی ۔ جرائم ، مذہب کے نام پر قتل ، مذہبی انتہا پسندی ، شدت پسندی ، ان سب کے گرد اس فلم کی کہانی گھومتی ہے ۔ بھارت کے زمینی حقائق کو سمجھنے والا کوئی بھی غیر جانبدار فرد جب اس منظر پر سرسری نگاہ ڈالے گا تو یہی سمجھے گا کہ اس فلم میں شیو سینا ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بھارتی جنتا پارٹی جیسی دہشت گرد ، انتہا پسند ہندو تنظیموں کے کرتوت واضح کیے جا رہے ہیں۔ آخر سمجھوتہ ایسکپریس جیسا محبت اور دوستی کا پیغام کس نے نظرِ آتش کیا تھا؟

وہ کون ہے جس کے ہاتھ ہزار ہا مسلمانوں کے لہو میں سَنے ہیں؟ کس نے کشمیر ، گجرات ، بنگال ، آسام ، دہلی ، راجستھان ، ممبئی ، غرض بھارت کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا جہاں مظلوم مسلمانوں کے خون کا دریا نہ بہہ رہا ہو؟
مغربی میڈیا ، ایمنیسٹی ، یہاں تک کہ برطانوی رکنِ پارلیمینٹ جارج گیلوے بھی بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر سراپا احتجاج ہیں۔ روزانہ یہاں گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر مسلم نوجوانوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور کس بلا کا نام ہے؟ دہشت گردی اور کیا ہے؟ یہی تو شدت پسندی ہے۔

مگر ہم نے اوپر واضح بیان کیا تھا کہ ایسی سوچ کسی عادل، غیر جانبدار شخص کی ہی ہو سکتی ہے۔ جبکہ بھارتی میڈیا اور فلم انڈسٹری سب کچھ ہو سکتی ہے مگر عادل یا غیر جانب دار نہیں ہو سکتی۔ جھوٹ بولنے، غلط بیانی کرنے اور منفی پروپیگنڈہ کرنے کے علاوہ کم ہی کسی چیز پر عبور حاصل ہے بالی ووڈ کو۔ جبکہ موجودہ سرکردہ میڈیا کا اصول یہ ہے کہ جھوٹ بولو ، اتنا بولو کہ اس پر سچ کا گماں ہونے لگے۔ خود جارج اورویل نے کہا تھا کہ The very concept of objective truth is fading out of the world Lies will pass into history چنانچہ امریکہ نے 20 برس تک افغانستان پر ایک پل سانس لیے بغیر بمباری کی ، لاکھوں غیور، بہادر افغانوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔ دسیوں لاکھ افغان بے گھر ہو کر نقل مقانی پر مجبور ہو گئے۔ گرم پانیوں کی جستجو میں عراق ، یمن ، شام پر پچھلی تین دہائیوں سے امریکی سرکردگی میں چالیس ممالک کی افواج آگ اور خون کا کھیل رچا رہی ہیں۔ دوسری طرف ، اسرائیلی غاصب صہیونیوں کی جانب سے اہلِ فلسطین آٹھ دہائیوں سے محبوس ہیں ، دو بار فلسطینی مسلمان ، غاصب یہودیوں کے ہاتھوں منظم نسل کشی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ اہلِ غزہ ایک جانب الگ سے  محصور ہیں۔

کشمیر پر قابض بھارتی افواج کے مظالم اور بہیمانہ دہشت گردی سے تو سب دنیا واقف ہے۔ مگر انہی دہشت گرد ممالک ، بھارت ، اسرائیل اور امریکہ نے مل کر مسلمانوں کو بالعموم اور افغانوں کو بالخصوص دہشت گرد قرار دیا ، اور اس دھڑلّے اور دیدہ دلیری سے اس بہتان کو دہرایا کہ اندھی بہری اور گونگی دنیا اس پر یقین کرنے لگی۔ بھارت میں گجرات کا قصاب مودی، مسلمانوں کا قاتل بال ٹھاکرے اور کند چھری سے مسلمانوں کا معاشی و سماجی قتلِ عام کرنے والی کانگریس ، یہ سب مل کر افغانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ یعنی چھاج بولے سو بولے، چھلنی بھی بولے، جس میں ستر چھید!!!

نصیر الدین شاہ اس فلم میں ایک پر امن شہری ہونے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں ، ان کے کردار کا یہ مطالبہ ہے کہ دہشت گردوں کو گرفتار نہ کیا جائے بلکہ سیدھا چھ گولیاں فی دہشت گرد کے حساب سے سب کو ٹپکا دِیا جائے۔ چلیے دہشت گردوں سے کس کو ہمدردی ہو سکتی ہے!!! مگر فلم میں پیش کیے گئے دہشت گرد کون ہیں ؟ کیا نام ہیں ان کے؟ جی تو جناب، توقعات کے عین مطابق، بھارت کی افغان دشمنی کی ایک اور کڑی یہاں واضح ہوتی ہے جب افغانوں کو ایک بار پھر دہشت گرد بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ ان دہشت گردوں کے نام ہیں ، ابراہیم خان ، خورشید لالا ، اخلاق احمد ، اور محمد ظہیر، جن کے نام ہی نہیں ، حلیے بھی افغانوں والے ہیں ۔ ذرا غور کیجیے، بھارتی فلم انڈسٹری انہیں پٹھانوں اور افغانوں سے ہٹ کر ، دیگر مسلم اقوام کے افراد بنا کر بھی پیش کر سکتی تھی ۔ مگر آٹھ سو برس تک مسلمانوں اور افغانوں کے زیرِ نگیں رہنے کا قرض بھی تو چکانا ہے نا!!! چنانچہ ان چار میں سے تین دہشت گردوں کو فلم میں نصیر الدین شاہ بم کے ذریعے اڑا دیتے ہیں۔ جبکہ چوتھے دہشت گرد کو پولیس کمشنر کا کردار نبھانے والے انوپم کھیر نے اپنے ماتحت کے ذریعے مروا دیا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی نصیر الدین شاہ دو برس پہلے ، جنوری 2020 میں Citizenship (Amendment) Act, 2019 کے بارے میں سراپا آنسو بن گئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے بھارت میں مستقبل کو مشکل دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسند جنونی ہندوؤں کا ہجوم ان کے بچوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سٹیزن شپ ایکٹ کی حمایت کرنے والے "انوپم کھیر" کو انہوں نے مسخرہ اور سنکی قرار دیا تھا۔ اقبال نے کہا تھا،
زمانہ کہ زنجیرِ ایام ہے
دَموں کے اُلٹ پھیر کا نام ہے

یہ تو ہُوا بھارت کے ایک مغلوب، غلامی پہ رضامند پابستہ مسلمان اداکار کا احوال، اب ذرا بھارتی اربابِ اختیار کا بھی جائزہ لیں۔ بھارتی ریاست ، ایک ڈائن ہے۔ ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ کیسی ماں ہے جو اپنی ہی اولاد، اپنے پر امن شہریوں ، بالخصوص مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے؟ اور اس کے چہرے پہ بھارتی مسلمانوں کا خون ابھی تک ٹپک رہا ہے ، اس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون میں ڈوبے ہیں ، ایک ہاتھ میں اس نے سیکولرازم کا جھوٹا ترنگا پرچم اٹھا رکھا ہے ، جبکہ دوسرے ہاتھ سے یہ مسلمانوں اور افغانوں پر دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کر رہی ہے۔ کیا ہم نابینا ہیں ، یا نا سمجھ ہیں جو اس کھلی اور واضح حقیقت کو نہ سمجھ سکیں؟ مگر ایسے حالات میں بھی ، وہ کون سا طبقہ ہے جوبھارت کو افغانستان کا خیر خواہ اور دوست تصور کرتا ہے؟ اس طبقے کو جلد از جلد ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ، کہ دوستوں اور دشمنوں کی پہچان ہی بالغ نظری کی پہلی منزل ہے۔