بروز اتوار بتاریخ 17جولائی 2022کی دوپہر جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں،پنجاب کے20حلقوں میں ضمنی انتخابات کا یُدھ پڑا ہُوا ہے ۔اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواروں میں ہوا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی ، جے یو آئی ایف اور ٹی ایل پی بھی اس انتخابی میدانِ کارزار میں اتریں لیکن کسی نہ کسی کی اتحادی اور سپورٹر بن کر ۔ البتہ ٹی ایل پی کے اُمیدوار کہیں کہیں اپنی آزاد حیثیت میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابل کھڑے رہے۔ ٹی ایل پی کے اُمیدوار نون لیگ اور پی ٹی آئی کے ووٹ تقسیم کرنے کا باعث بھی بنے ہیں۔ الیکشن کمپین کے دوران نون لیگ اور پی ٹی آئی نے مقدور بھر ووٹروں کو لبھانے اور اپنی جانب مائل کرنے کے لیے بڑے زور لگائے ہیں۔ دونوں پارٹیوں نے پنجاب میں مجموعی طور پر دو درجن کے قریب جلسے کیے ہیں ۔ یہ انتخابی مہم 15جولائی کی شب بارہ بجے اپنے اختتام کو پہنچ گئی تھی۔
بلا شبہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کے جلسے بھرپور اور پُر رونق رہے۔ان جلسوں کی یکساں بھرپور رونقیں دیکھ کر تجزیہ نگار کنفیوژن کا شکار پائے گئے کہ کس پارٹی کے حق میں فتح کا پلڑا جھکے گا؟نون لیگ کے جلسوں میں نون لیگ کی نائب صدر ،محترمہ مریم نواز شریف، نے اپنی حریف پارٹی اور اس کے قائد کو خوب چناؤتیاں دیں اور اپنے سامعین و حاضرین کو نون لیگ کی اکثریتی کامیابی کا یقین دلایا۔ پی ٹی آئی کے جلسوںمیں پی ٹی آئی کے مرکزی قائد، جناب عمران خان ، اپنی دونوں مخالف جماعتوں(نون لیگ اور پی پی پی) اور ان کے قائدین کے خلاف دھاڑتے رہے ۔ اُن کی تقاریر میں مخالفت، دشنام اور الزامات کا وہی پرانا اسلوب دکھائی اور سنائی دیتا رہا:لٹیرے، ڈاکو ، چور ، منی لانڈررز!!
ان ضمنی انتخابی مہمات کے دوران کہیں کہیں ووٹروں کولالچ دیے جانے کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں ۔ مثال کے طور پر ملتان کے ایک حلقے میں یہ بازگشت سنائی دی گئی کہ ایک اُمیدوار نے ووٹروں کو آفر دی کہ جو خاندان اکٹھے 10ووٹ انھیں دے گا، وہ ابھی ایک موٹر سائیکل اُن سے لے جائے ۔ یہ آفر مبینہ طور پر اس لیے دی گئی کہ اُن کے حریف اُمیدوار نے یہ اعلان کیا تھا کہ جو خاندان اکٹھے انھیں 20ووٹ دے گا، وہ ابھی اُن سے ایک نئی موٹر سائیکل لے جائے ۔
لاہور میں پی ٹی آئی کا ایک ایسا مبینہ کارکن(خالد سندھو) پکڑا گیا جس سے سیکڑوں شناختی کارڈز برآمد ہُوئے۔ اِن ضمنی انتخابی کمپین کے دوران مگر پی ٹی آئی کے تقریباً سبھی قائدین نون لیگ کی پنجاب حکومت پر متعدد الزامات عائد کرتے رہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین ، جناب عمران خان، خاص طور پر اپنے ہر جلسے کے دوران پنجاب حکومت، الیکشن کمیشن اور ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ پر الزامات عائد کرتے ہُوئے اپنے عشاق سامعین و حاضرین کو باور کرانے کی ممکنہ کوشش کرتے رہے کہ یہ لوگ ضمنی انتخابات میں دھاندلی کریں گے ۔
خان صاحب تواتر سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین پر جانبداری کے الزامات لگاتے رہے۔ انھیں دھمکاتے بھی رہے۔ انھوں نے متعدد بار یہ الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین اپنے عملے کے ساتھ ’’چوری چھپے‘‘ لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور نون لیگ کی نائب صدر محترمہ مریم نواز سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔خان صاحب یہ بھی الزامی دعویٰ کرتے رہے کہ ’’مسٹر ایکس‘‘ اور ’’مسٹر وائی‘‘ نون لیگ کے اُمیدواروں کو کامیاب کرانے کے لیے سرگرم ہیں۔
اس سنگین الزام کو ثابت کرنے کے لیے البتہ خان صاحب کوئی ٹھوس ثبوت اور شواہد سامنے لانے میں ناکام رہے ۔وہ ’’مسٹر ایکس‘‘ اور ’’مسٹر وائی‘‘ کا نام لینے کی جرأت بھی نہ کر سکے۔اِن الزامات کے جواب میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اس کے سربراہ یا تو خاموش رہے یا اتنا کہنے پر اکتفا کرتے رہے کہ ’’ ہمارے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے کہ ہم عمران خان اور پی ٹی آئی کے بے بنیاد الزامات کا جواب دیتے رہیں۔‘‘ یہ مختصر جواب دے کر الیکشن کمیشن آف پاکستان کئی اُلجھنوں سے محفوظ رہا ۔
اِن ضمنی انتخابات کے دوران نون لیگ نے عوامی مفاد میں کچھ عملی اقدامات بھی کیے ۔پی ٹی آئی کی قیادت نے مگر یکمشت اور یک زبان ہو کر ان ا قدامات کے خلاف آواز اٹھائی ۔ مثال کے طور پر جب وزیر اعلیٰ پنجاب، جناب حمزہ شہباز، نے یہ خوش کُن اعلان کیا کہ پنجاب میں وہ خاندان جو ماہانہ بجلی کے 100 یونٹس استعمال کرتے ہیں، اُن سے بجلی کے بلز وصول نہیں کیے جائیں گے ۔ اربوں روپے ماہانہ کا یہ مالی بوجھ پنجاب حکومت برداشت کرے گی ۔ پی ٹی آئی مگر عوامی مفاد کے اِس اعلان کے خلاف یہ کہہ کر میدان میں کود پڑی کہ ’’یہ تو ضمنی انتخابات جیتنے کے لیے نون لیگ کا ہتھکنڈہ اور رشوت ہے۔ اس فیصلے کو منسوخ کیا جائے ۔‘‘ چنانچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پی ٹی آئی کے اس مطالبے کے سامنے سرجھکانا پڑا اور پنجاب حکومت کو ضمنی انتخابات کے خاتمے تک اس پر عمل کرنے سے روک دیا۔
پنجاب کے کئی غریب خاندانوں کو ریلیف کی نئی اُمید بندھی تھی مگر حمزہ شہباز کو الیکشن کمیشن کے حکم اور قانون کی حاکمیت کے سامنے اپنے فیصلے سے دستکش ہونا پڑا۔ دیکھنا مگر اب یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے بعد اس منسوخ شدہ فیصلے پر دوبارہ کب اور کس طرح حمزہ شہباز بروئے کار آتے ہیں ؟ پنجاب کے اِن ضمنی انتخابات کے دوران وزیر اعظم پاکستان، جناب شہباز شریف، نے بھی ایک اہم اور عوامی مفاد میں قدم اُٹھایا ۔ انھوں نے تیل کی مصنوعات میں کمی کر دی۔ پٹرول کی قیمت میں 18روپے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت میں40روپے فی لٹر کمی کی گئی۔
جناب شہباز شریف نے تو یہ کہہ کر تیل کی مصنوعات میں مذکورہ کمی کی کہ ’’چونکہ تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گر گئی ہیں اس لیے اس کا فائدہ پاکستان کے عوام کو بھی فوری ملنا چاہیے ‘‘ لیکن اس فیصلے کی بھی پی ٹی آئی اور عمران خان نے یہ الزام عائد کرکے بھرپور مخالفت کی کہ’’ پنجاب میں 20 سیٹوں پر ضمنی انتخابات کے دوران اِس ریلیف کا اعلان فقط یہ مقصد رکھتا ہے کہ ووٹروں کو نون لیگ کی طرف مائل کیا جا سکے‘‘۔ حالانکہ اس فیصلے سے تو پاکستان کے اُن صوبوں کے عوام بھی مستفید ہُوئے ہیںجہاں ضمنی انتخابات ہو ہی نہیں رہے تھے ۔ عمران خان کی قیادت میں مگر پی ٹی آئی اپنی ہٹ پر قائم رہی۔ اِس ضمن میں عمران خان کے سابق وزیر خزانہ ، شوکت ترین، نے بھی الزام عائد کر دیا کہ ’’پنجاب میں ضمنی انتخابات کی وجہ سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔
یکم اگست کو پھر ان قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔‘‘ شوکت ترین ایسے سنجیدہ اور شائستہ شخص کے اس الزام پر بھلا کیا تبصرہ کیا جائے ؟ بہر حال جب یہ سطور شایع ہوں گی، ضمنی انتخابات کے کچھ نتائج سامنے آ کر فاتح کا اعلان بھی ہو چکا ہوگا۔ سوال مگر یہ ہے کہ شکست خوردہ بآسانی اپنی ہار مان لیں گے؟ضمنی انتخابات کے انعقاد سے قبل چوہدری پرویز الٰہی کے جادُو چلنے سے پنجاب میںنون لیگ کے جن دو ایک ارکانِ اسمبلی نے استعفیٰ دیا ہے،حمزہ شہباز کے لیے یہ بڑا دھچکا ہے۔
تبصرہ لکھیے