وسطِ ایشیا کی الگ اور جداگانہ شناخت کی بنیاد طاہری اور صفاری ادوار ہی میں پڑ چکی تھی، لیکن جس دور میں یہ مکمل طور پر آزاد و خود مختار ہوا، وہ سامانیوں کا تھا۔ یہی وہ دور تھا جس میں طاقت کا مرکز مزید شمال کی طرف منتقل ہوا۔ سامانیوں سے پہلے کی تمام حکومتیں خراسان کے مختلف علاقوں سے راج کرتی تھیں، کبھی مرو تو کبھی نیشاپور اور صفاری تو پھر زرنج جیسے دُور پرے کے علاقے سے حکومت کرتے تھے۔ لیکن سامانیوں کا مرکز تھا بخارا، آمو دریا کے اُس پار کا شہر یعنی ماورا النہر کا شہر۔ اُن کے دور میں بخارا اور وسطِ ایشیا کے دیگر شہروں نے وہ عروج پایا کہ اُن کے سامنے بغداد بھی ماند پڑ گیا۔
سن 941ء میں بڑی طوفانی بارشیں ہوئیں اور ایک دن ایسی بجلی گری کہ شہر بغداد کے مرکز میں واقع عباسی محل کا سبز گنبد گر گیا۔ یہ وہی محل تھا جسے ابو جعفر المنصور نے بنوایا تھا اور پورا شہر اس کے گرد دائرے کی صورت میں قائم کیا گیا تھا۔ اس واقعے کو آج کے زمانے میں اس طرح سمجھیں کہ بجلی گرنے سے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کیپٹل ہل کا گنبد گر جائے۔ ہو سکتا ہے آج کے جدید لوگ اسے ایک حادثہ سمجھیں، لیکن ایک ہزار سال پہلے کے عوام کے لیے یہ بڑی بدشگونی تھی۔ یہ محل عباسیوں کی شان و شوکت کی علامت تھا، اس کا یوں ڈھیر ہو جانا دراصل اظہار تھا کہ اب عباسیوں کا دور گزر چکا۔
لیکن حقیقت یہ تھی کہ عباسی اس سے کہیں پہلے کمزور ہو چکے تھے۔ تقریباً 100 سال پہلے سن 847ء میں یعقوب بن لیث صفاری کے خلاف معرکہ دیر العاقول میں عباسیوں کو کامیابی تو ملی تھی، لیکن اس فتح نے ثابت کر دیا کہ بغداد میں اصل طاقت اب ترکوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس کے بعد کچھ ہی عرصے میں عباسیوں کی گرفت سے آزاد کئی ریاستیں ابھریں، جن میں سے ایک تھی سامانی سلطنت۔
سامانیوں کے آبا و اجداد
سامانی خاندان کا تعلق اصل میں افغانستان کے شہر بلخ سے تھا۔ ان کا جدِ امجد سامان خدات نامی ایک شخص تھا۔ سامان نے اپنے دشمنوں کے خلاف خراسان میں بنو امیہ کے والی اسد بن عبد اللہ القسری سے مدد طلب کی تھی، جس نے سامان کو پناہ بھی دی، مدد بھی فراہم کی اور ایسا سلوک کیا کہ وہ متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ بدھ مت کا پیروکار تھا۔ بعد ازاں، اُس نے اپنے ایک بیٹے کا نام اپنے محسن کے نام پر اسد رکھا۔
اسی اسد بن سامان کے چار بیٹوں کو ہارون رشید کے دور میں علاقائی سیاست میں اہم مقام حاصل ہوا۔ مامون رشید کے عہد میں تو ویسے ہی ہر طرف وسطِ ایشیا کے خاندانوں کا راج تھا۔ تب اسد بن سامان کے چاروں بیٹوں کو چار اہم شہروں کا والی مقرر کیا گیا۔ نوح بن اسد سمرقند، احمد فرغانہ، یحییٰ شاش یعنی تاشقند اور الیاس ہرات کا حاکم بنا۔
جب طاہر بن حسین خراسان کا والی بنایا گیا تو اُس نے چاروں بھائیوں کو مستقل طور پر یہ عہدے دے دیے۔ پھر طاہر بن عبد اللہ کے دور میں 851ء میں تو ماورا النہر کے والی کا اہم ترین عہدہ بھی سامانی خاندان کے یحییٰ بن اسد اور احمد بن اسد کو دے دیا گیا۔ پھر احمد کے سات بیٹوں کو بھی بڑے بڑے عہدے ملے، جن میں سے نصر بن احمد کو سمرقند و فرغانہ کی امارت ملی۔
طاہریوں کا زوال، سامانیوں کا عروج
جب طاہریوں کو زوال آیا تو خراسان کے علاوہ وسطِ ایشیا میں بھی حالات بہت بگڑ گئے۔ تب نصر کے بھائی اسماعیل بن احمد نے صفاری خاندان کو ایک فیصلہ کن جنگ میں تاریخی شکست دی۔ اسماعیل نے جلد ہی اپنی صلاحیتوں کی بدولت پورے ماورا النہر میں امن قائم کر دیا اور پھر وہ عروج پایا کہ آج تاریخ کے اہم ترین مسلمان بادشاہوں میں شمار ہوتا ہے۔
سن 900ء میں صفاریوں کے خلاف فتح حاصل کرنے کے بعد خراسان میں کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جو سامانیوں کا مقابلہ کر سکتی۔ اسماعیل نے پورے وسطِ ایشیا اور خراسان پر اقتدار حاصل کرنے کے باوجود اپنا دارالحکومت بخارا ہی میں رہنے دیا۔ یوں بخارا مرکز و محور بن گیا، خراسان کا بھی، وادئ فرغانہ، خوارزم اور افغانستان کا بھی۔
اپنے عروج کے زمانے میں ماورا النہر کے علاوہ خراسان، سیستان، کرمان، جرجان، رے اور طبرستان تک سامانی حکومت کا حصہ بنے یعنی ترکمنستان، ازبکستان، قیرغزستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان اور ایران کا بڑا حصہ بھی۔ سامانی خاندان 999ء تک ان علاقوں پر حکمرانی کرتا رہا، یعنی اُن کا اقتدار تقریباً ایک صدی تک قائم رہا۔
وسط ایشیا، علم و ادب کا مرکز
سامانی دور علمی لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جدید فارسی ادب کی بنیاد رکھنے کا جو سہرا خواہ مخواہ میں صفاریوں کے سر پر باندھا جاتا ہے، اس کا اصل کریڈٹ سامانیوں کو جاتا ہے۔
نصر دوم کے عہد میں بخارا کی لائبریری دنیا کے بڑے کتب خانوں میں سے ایک تھی۔ قرآن مجید کا پہلا فارسی ترجمہ بھی سامانی دور ہی میں ہوا۔ اس طرح کے اقدامات سے وسطِ ایشیا میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا، خاص طور پر ترک قبائل میں۔
پھر جدید فارسی شاعری کے ابتدائی بڑے نام بھی سامانی دربار ہی سے وابستہ تھے، مثلاً مشہور شاعر رودکی۔
رودکی کی داستان
رودکی کا پورا نام ابو عبد اللہ جعفر بن محمد تھا۔ اسے جدید فارسی شاعری کا پہلا بڑا نام سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ تاجکستان کے ایک علاقے رودکی میں پیدا ہوا۔ کیونکہ اس کی زندگی کے بارے میں مستند معلومات بہت کم ہیں، اسی لیے بہت سی کہانیاں رودکی سے وابستہ ہو گئیں۔ کیونکہ نابینا تھا، اس لیے اس کی بینائی کے حوالے سے بھی عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں، مثلاً کچھ مؤرخین اسے پیدائشی نابینا کہتے ہیں تو کچھ نے شاعری سے اندازہ لگایا کہ وہ بعد میں نابینا ہوا۔ کیسے ہوا؟ یہ نہیں معلوم، بلکہ چند مؤرخین کے خیال میں تو اسے بطور سزا اندھا کر دیا گیا تھا۔
بہرحال، نصر بن احمد کے دور میں بخارا آیا اور اُس کا قصیدہ خوان بن گیا۔ اپنی قصیدہ خوانی کی وجہ سے بہت مشہور ہوا اور اتنے انعامات پائے کہ جب ایک بار اپنے شہر کو واپس گیا تو 200 اونٹوں پر مال لادا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ بھی کہانی ہی ہو۔
خیر، اس نے ہندوستان کی مشہور کہانیوں پنچ تنتر کے ایک فارسی ترجمے کلیلہ و دمنہ کو نظم کے قالب میں ڈھالا۔ رودکی کا بیشتر کلام گردشِ زمانہ کی نذر ہو گیا اور اس کی عظمت کا اندازہ اس کے باقی ماندہ کلام سے لگایا جاتا ہے۔
سامانی دور کا ایک اور مشہور شاعر ابو منصور دقیقی تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی نے سامانی حکمران نوح بن منصور کے کہنے پر شاہنامہ لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ لیکن صرف 1,000 اشعار ہی لکھ پایا اور بعد میں فردوسی نے اسے مکمل کیا اور عالمگیر شہرت پائی۔
تبصرہ لکھیے