ہوم << انسان اور کائنات - محمد عرفان ندیم

انسان اور کائنات - محمد عرفان ندیم

پروفیسرانڈریو ہکسلے مشہور ماہر طبیعیات تھا، یہ برطانیہ میں پیدا ہوا اور ایک دہائی قبل 2012میں وفات پائی ۔ بیسیوں صدی کائنات کے اسرار کو جاننے کے حوالے سے اہم تھی اور اس جانکاری میں پروفیسر ہکسلے کے ایک جملے نے خوب شہرت سمیٹی ۔

اس نے کائنات کے خودبخود وجود میں آنے کی تشریح کرتے ہوئے کہاکہ اگر چھ بندر ایک ٹائپ رائٹر لے کر بیٹھ جائیں اورالٹے سیدھے الفاظ ٹائپ کرتے جائیں تو ممکن ہے کہ اربوں کھربوں سالوں بعد شکسپئیر کی کوئی نظم وجود میں آ جائے ۔ اسی طرح ممکن ہے کہ مادے کے اربوں کھربوں سالوں کے اندھے عمل کے نتیجے میں اتفاقا یہ کائنا ت وجود میں آ جائے جو خود بخود مشینی انداز میں چل رہی ہو ۔ہکسلے کے ان الفاظ نے لاکھوں کروڑوں ذہنوں کو مسخر کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے ۔ کائنات کی سائنسی تشریح کے مطابق انسانی وجود کو اس دنیا میں جنم لیے تقریبا تین لاکھ سال ہوئے ہیں ، اس سے قبل دنیا میں انسانی وجود ناپید تھا ۔

اس کے مقابلے میں کائنات کی عمر تقریبا دو لاکھ ارب سال ہے ، کائنات موجودہ شکل میں آنے سے قبل برقی ذرات کے غبار کی صورت میں تھی ، پھر اس میں حرارت پیدا ہوئی اور مادہ سمٹ کر مختلف جگہوں میں جمع ہونا شروع ہوا ، اس جمع شدہ مادے سے ستارے ، سیارے اور شہابیے وجود میں آئے ۔مادے پر مشتمل یہ ستارے اور سیارے خطرناک گولوں کی شکل میں نامعلوم مدت تک فضا میں گردش کرتے رہے ۔ ایک اندازے کے مطابق دو ارب سال قبل کائنات کا ایک بڑا ستارہ فضا میں گردش کرتا ہوا سورج کے قریب آگیا، سور ج اس وقت اپنے موجودہ حجم سے کئی گنا بڑا تھا ۔ اس ستارے کی کشش سے سورج کی سطح پر ایک عظیم طوفان برپا ہوا، اس طوفان سے دیوہیکل لہریں پیدا ہوئیں۔ ستارے کی کشش ثقل اتنی بڑھی کہ سورج کی گیسوں کے کچھ حصے ٹوٹ کر دور فضا میں بکھر گئے ، یہی گیسیں بعد میں ستاروں اور سیاروں میں ڈھل گئیں اور نظام شمسی وجود میں آئے۔

کائنات کی وسعتوں کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک روشنی جس کی رفتارایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہو اس کو کائنات کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں اربوں سال لگیں ۔اس وقت ہمارے نظام شمسی جیسے اربوں کھربوں نظام کائنات کی وسعتوں میں گردش کر رہے ہیں ،ان میں ہمارے نظام شمسی کی حیثیت سمندر کے مقابلے میں پانی کی ایک بوندسے بھی کم ہے ۔ہمارے نظام شمسی میں شامل سیاروں میں سے ایک زمین ہے ،یہ بیضوی شکل میں ہے اور اس کی گولائی تقریبا پچیس ہزار میل ہے ، یہ خود بھی گھوم رہی ہے اورگھومتے گھومتے سورج کے گرد بھی طواف کر رہی ہے۔

اس کی رفتار ایک ہزار میل فی گھنٹہ ہے ، خلا کے اندر تیرتی ہوئی زمین کو انسانی وجود قائم رکھنے کے لیے ایک خاص اندازے کے مطابق رکھا گیا ہے ، اگرایسا نا ہوتا تو انسانی وجود کی حالت ان ذرات کی طرح ہوتی جنہیں گھومتے ہوئے پہیوں پر رکھ دیا گیا ہو۔اب بھی زمین کی کشش ہمیں کھینچے ہوئے ہوئے ہے اور اوپرسے ہوا کا وجود ہمیں دبائے ہوئے ہے ، ایک اندازے کے مطابق ہر انسانی وجود پر تقریبا دو سو اسی من ہوا کا دباؤ ہے ۔پھر یہ زمین جس سورج کے گرد گھوم رہی ہے وہ اس سے دس لاکھ گنا بڑا ہے ، یہ آگ کا دہکتا ہوا سمندر ہے جس کے قریب کوئی بھی چیز ٹھوس حالت میں نہیں رہ سکتی ، اگر سورج موجودہ سے نصف فاصلے پر آ جائے تو ہر چیز جل کر راکھ ہو جائے ۔ اور اگر یہ اس سے بھی نزدیک چاند جتنے فاصلے پر آجائے تو زمین پگھل کر بخارات میں تبدیل ہو جائے اور اگر یہ موجودہ فاصلے سے دور چلا جائے تو زمین برف کی طرح جم جائے ۔

زمین کی بناوٹ کچھ اس طرح ہوئی کہ ابتداء میں یہ ایک شعلہ کی طرح سورج کے گر د گھوم رہی تھی ، مسلسل حرارت خارج کرنے کی وجہ سے یہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی اور یہ عمل کروڑوں برسوں سے مسلسل ہوتا رہا ۔ سورج کے گرد گھومنے کی وجہ سے گرمی اب بھی اس پر پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے بخارات بننا شروع ہوئے اور گھٹاوں کی شکل میں اوپر فضاپر چھا گئے ۔ بادلوں کی بہتات ہوئی تو یہ برسنا شروع ہوئے ، اتنا برسے کہ زمین پانی سے بھر گئی ۔ زمین کا اوپر والاحصہ اگرچہ ٹھنڈا ہو گیا تھا مگر اس کا اندرونی حصہ اب بھی گرم تھا ، اس کے نیتجے میں زمین سکڑنے لگی، اس سے زمین کے اندر موجود گرم گیسوں پر دباؤ بڑھنے لگا اور وہ باہر نکلنے کے لیے بے قرار ہو گئیں ۔ یہ بے قراری حد سے بڑھی تو زمین پھٹنے لگی ، زمین کی سطح پر بڑے بڑے شگاف نمودار ہوئے ، بحری طوفانوں ، زلزلوں ، آتش فشاں دھماکوں اور سیلابوں کا یہ دور ہزاروں سال چلتا رہا ۔

ان طوفانوں اور زلزوں کی وجہ سے زمین کا کچھ حصہ اوپر ابھر آیااور کچھ دب گیا۔ دبے ہوئے حصوں میں پانی بھر گیا اور انہوں نے سمندروں کی شکل اختیار کرلی ، جو حصے ابھرے ہوئے تھے وہ بر اعظم کی صورت اختیار کر گئے اورکچھ ابھارزیادہ نمودارہونے کی وجہ سے پہاڑوں کی شکل اختیار کر گئے ۔ تقریبا ایک ارب تئیس کروڑ سال قبل پہلی بار زمین پر زندگی نمودار ہوئی ، چھوٹے چھوٹے حشرات پانی کے کناروں پر وجود میں آئے ،یہ حشرات اپنی شکلیں بدلتے رہے ، نئی نئی شکلیں وجود میں آئیں اور مرتی رہیں ، کئی ہزار سال یہ پروسس جاری رہا ۔ اس کے بعد سمندری پودے نمودار ہوئے اور خشکی کے ٹکڑوں پر گھاس اگنا شروع ہو گئی ، یہ عمل بھی ہزاروں سال جاری رہا تاآنکہ انسانی زندگی کے لیے حالات سازگا ہوئے اور زمین پر پہلے انسان نے قدم رکھا ۔اس نظریے کے مطابق پہلا انسان آج سے تین لاکھ سال قبل اس دنیا میں نمودار ہوا ۔

کائنات کی عمر کے حساب سے انسان کی عمر نہ ہونے کے برابر ہے ، وقت کے جو فاصلے کائنات نے طے کیے ہیں اس کے مقابلے میں انسانی تاریخ کی حیثیت محض ایک لمحے کی ہے ۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اگر ایک انسان کی عمر کا اندازہ لگایا جائے تو وہ زیادہ سے زیادہ ایک سو سال ہو سکتی ہے ۔ پھر انسانی وجود اس کائنات میں سب سے بہتر وجود ہے ، اب تک کی معلوم حقیقتوں کے مطابق انسان اس کائنات کی سب سے بہترین اور عقل مند مخلوق ہے مگر اس سے بڑی اور حیر ت انگیز حقیقت یہ ہے کہ انسان جن مادی وجود سے مرکب ہے ان کی عمر اربوں کھربوں سال ہے مگر انسان محض سو سال تک زندہ رہ سکتا ہے ۔

آج دنیا میں ساڑھے سات ارب انسان موجود ہیں ، ان میںسے اگرہر انسان کا وجود چھ فٹ لمبااور دو فٹ چوڑا ہو تو اس پوری آبادی کو سمیٹنے میں ہمیں محض ایک ایسا صندوق درکار ہو گا جس کا طول و عرض صرف ایک میل ہو ۔ پھر اس صندو ق کو زمین میں گڑھا کھود کر دبا دیا جائے یا کسی سمندر میں پھینک دیا جائے تو کچھ عرصہ بعد کسی کو معلوم بھی نہیں ہو گا کہ یہاں انسان نام کی کوئی مخلوق آباد تھی ۔ کتنی خوفناک حقیقت ہے نا ؟ مگر یہی سچی حقیقت ہے ۔

یہ سارے خوفناک حقائق کائنات کی سائنسی تشریح کے مطابق ہیں، یہ دنیا عارضی اور انسان کی حقیقت زمین پر رینگنے والی چیونٹی سے بھی کم تر ہے۔اربوں کھربوں سالہ کائنات میں انسان کی ساٹھ ستر سالہ عمر ایک ثانیے سے بھی کم تر ہے ۔جبکہ مذہب کی حقیقتیں اس سے بھی زیادہ واضح اور خوفناک ہیں ۔ کیا اتنی واضح حقیقتوں کے بعد بھی انسان خود کو ناگزیر سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہو سکتا ہے ؟بے شک انسان نادان اور کم عقل ہے۔