افغانستان میں حالیہ زلزلے اور سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی، جس کی وجہ سے استحکام معیشت کے لیے اور نقصان سے نمٹنے کے لیے افغان اثاثوں کو غیر منجمد کرنے کی استدعا ایک بار پھر سنجیدہ حلقوں میں بلند ہوتی نظر آئی۔ ترجمان امارت اسلامیہ ذبیح اللہ مجاہد نے بھی افغان قیدی اسداللہ ہارون کی بازیابی کے موقع پر یہی مطالبہ میڈیا کے سامنے دہرایا۔
اب یہ معاملہ دراصل کیا ہے؟ یہ جاننے سے قبل سمجھتے ہیں کہ بیرونی اثاثے کیوں اور کس شکل میں رکھے جاتے ہیں؟ اس کے پشت پر کون سے عوامل و مقاصد کارفرماء ہوتے ہیں؟
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا کے تمام تر یا بیشتر ممالک زر مبادلہ کے ذخائر کے ضمن میں کچھ بیرونی اثاثے رکھتے ہیں۔ ممالک کے زر مبادلہ کے ذخائر رکھنے کی بنیادی وجہ بیرونی تجارت میں سہولت کاری اور اپنی کرنسی کی قدر و قمیت میں اضافہ یا اس کو سہارا دینا ہوتا ہے, تاہم یہ رقم کسی بھی ملک کے مرکزی بنک کے ریزرو پر غیر ملکی کرنسی میں رکھی جاتی ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر میں بینک نوٹ، ڈپازٹس، بانڈز، ٹریژری بلز اور دیگر سرکاری سیکیورٹیز شامل ہو سکتے ہیں، مگر مقصود یہی ہوتا ہے کہ ملکی کرنسی کے غیر اہم ہوتے ہی پشت پر سہارا دینے کے لئے کوئی رقم موجود ہو۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ اگر روپے کی قیمت ڈالر کے بدلے گھٹتی ہے تو اس وقت غیر ملکی کرنسی میں رکھے گئے ریزرو رقوم ہی فائدہ پہنچاتے ہیں۔
دنیا بھر میں یہ ایک عام روش کے طور پر موجود ہے۔ زیادہ تر رقوم امریکی ڈالرز میں ریزرو کئے جاتے ہیں، کیونکہ ڈالر ہی دور حاضر میں سب سے زیادہ تجارتی کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
اب افغان اثاثوں کو منجمد اور غیر منجمد کرنے کا معاملہ کیا ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ ہر ملک کی طرح افغانستان مرکزی بینک کے بھی زر مبادلہ کے ذخائر کے ضمن میں کچھ بیرونی اثاثے موجود ہیں۔ ان بیرونی اثاثوں کی کل حجم نو یا ساڑھے نو ارب ڈالر ہے۔
اگست 2021 میں امارت اسلامیہ کے قیام کے بعد یہ اثاثے تشکیک کا موجب ٹھہرے جب امریکہ کی جانب سے طرح طرح کی پابندیوں کے دور دورے شروع ہوئے۔ طالبان نے ملک کے تمام تر اداروں پر کنٹرول حاصل کیا جس میں افغانستان مرکزی بینک بھی شامل تھا۔
چونکہ طالبان کی امارت اسلامیہ بزور شمشیر قائم ہوئی تھی اور اس میں لوگوں کی رضامندی کو دخل حاصل نہیں تھا، اس بنا پر عالمی سطح پر امارت اسلامیہ کی قبولیت کے لئے امریکہ سمیت کوئی اور ملک تیار نہ تھا۔ اس کے بعد امریکی حکومت نے تمام مالیاتی اداروں کو حکم ارسال کیا کہ افغانستان مرکزی بنک کے تمام تر اثاثوں کو منجمد کیاجائے اور چونکہ مرکزی بنک افغانستان اب طالبان کے زیر تسلط تھا، تو ان اثاثوں تک ان کی رسائی پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
بدقسمتی کا عالم دیکھیے کہ ایک جانب بڑے امریکی بہادر نے جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اربوں کھربوں ڈالر خرچ کیے، مگر دوسری جانب جب افغانستان میں انسانی اور معاشی بحران عروج پر تھا اور اس وقت ان اثاثوں کے استعمال کی اشد ضرورت تھی، امریکہ نے اس کو بغض طالبان میں ناقابل استعمال بنا دیا۔
رواں سال فروری کے مہینے میں موجودہ امریکی انتظامیہ نے سات ارب ڈالر کے اثاثے غیر منجمد کردیے تھے۔ مگر ساتھ ہی اعلان کیا کہ یہ طالبان کو براہ راست حوالے نہیں کئے جائیں گے۔ اس کے برعکس ان کو افغان عوام اور انسانی بحران سے نمٹنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ جبکہ اس میں آدھی رقم 9/11 کے واقعے کے متاثرین کو دیے جائیں گے۔
اس تمام صورتحال کو دیکھنے کے بعد افغان مرکزی بنک کے فقط ساڑھے دو ارب ڈالر کے منجمد اثاثے باقی رہتے ہیں۔ معلوم نہیں عالمی اجارہ داری اور انصاف پسندی کی یہ کونسی کاوشیں ہیں کہ زبوں حالی کے شکار ملک افغانستان میں چند گروہوں سے دشمنی دنیا بھر میں انصاف کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو اس مقام پر لا کھڑا کریں کہ عوام کا خیال بھی باقی نہ رہیں اور عالمی طاقت ہونے کے باوجود ایک زبوں حال ملک کا پیسہ اپنے عوام پر لگائیں۔
امریکہ سمیت ہر ایک ملک جس نے افغان جنگ کے دوام پر پیسہ لگایا، آج افغانستان کے تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرکے دکھا دیں۔ اپنی غلطیوں سے بازپرس کرنے کا اس سے موزوں کوئی اور وقت نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ آج جنگ و جدل کے بادل نہیں منڈلا رہے، اب افغان عوام نے جینا ہے، اور ہمیں ان کا سہارا بننا ہے۔
تبصرہ لکھیے