وسط ایشیا کی تاریخ کے سلسلے میں اب تک زیادہ تر ذکر جنگوں، فتوحات، شکستوں اور مار دھاڑ کا ہی ہوا ہے۔ چاہے ہمیں تاریخ کا یہ پہلو بُرا ہی کیوں نہ لگے، لیکن یہ تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہے، بھیانک سچائی ہے۔ چاہے کوئی کتنا ہی امن پسند کیوں نہ ہو، لیکن انکار نہیں کر سکتا کہ دنیا کی آج جو بھی شکل و صورت ہے، اس میں سب سے اہم کردار جنگوں نے ہی ادا کیا ہے۔ حمورابی کی فتوحات سے لے کر آج کی جدید ترین جنگوں تک، "قصہ آدم کو رنگیں" کرنے کا سامان جنگیں ہی فراہم کرتی آئی ہیں۔
لیکن تمام تر اہمیت کے باوجود تاریخ صرف جنگوں کا نام نہیں ہے۔ شخصیات کی تاریخ، معاشرت، معیشت، ثقافت کی تاریخ، یہ سب بھی اس موضوع کا حصہ ہیں۔ آپ نے پچھلی قسط میں علم و فن کے شعبے سے وابستہ افراد کا ذکر تو پڑھا ہوگا لیکن ابھی تک ہم نے خاص طور پر کسی شہر کو اپنا موضوع نہیں بنایا۔
وسط ایشیا کی تاریخ کے اس سلسلے میں اب تک جن شہروں کے نام آئے ہیں، ان میں سے کئی ایسے ہیں جو گردش زمانہ کی نذر ہو گئے، کچھ ایسے ہیں جن کی شان و شوکت چھن گئی، لیکن چند ایسے بھی ہیں جو ماضی کے مقابلے میں آج کہیں بڑے شہر ہیں۔ گزشتہ تحاریر میں جس شہر کا نام سب سے زیادہ آیا ہے، وہ ہے مرو۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے ہم اسی کا ذکر کریں۔
یہ شہر ترکمنستان میں واقع ہے، بلکہ یہ کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ واقع تھا۔ یہ وہ شہر ہے جو زمانے کے الٹ پھیر کا نشانہ بن گیا۔ آج اصل شہر مرو کی جگہ اس کے کھنڈرات ہی باقی ہیں، چند پرانے قلعے ہیں، کچھ مزارات ہیں لیکن وہ بارونق شہر نہیں جو کبھی دنیا بھر کے لیے کشش رکھتا تھا۔
صرف دو باتوں سے مرو کی عظمت کا اندازہ لگا لیں: ایک، یہ کئی سال تک پوری اسلامی دنیا کا دار الخلافہ رہا اور دوسرا یہ کہ ایک زمانے میں یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔
مرو کا جنم
کہا جاتا ہے جس جگہ مرو قائم تھا، وہاں پہلا شہر سکندرِ اعظم کے حکم پر بنایا گیا تھا، جسے انطاکیہ مرغیانہ کہتے تھے۔ اسی دریائے مرغاب کی نسبت سے، جو اس شہر کے ساتھ ساتھ بہتا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ شہر سکندر اعظم سے بھی پرانا ہے۔ چھٹی صدی قبلِ مسیح میں فارس کے عظیم بادشاہ کوروش اعظم نے اسے بنوایا تھا۔ یہ وہی کوروش ہیں جن کے بارے میں کئی مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے وہ دراصل کوروش ہی ہیں، واللہ اعلم۔
خیر، صدیوں تک انسانوں کا مرکز رہنے کے بعد یہ شہر 1788ء میں ایسا تباہ ہوا کہ پھر دوبارہ نہ اٹھ سکا۔ دلّی تو سات مرتبہ لٹی، پھر بھی آباد ہو گئی، لیکن مرو کے نصیب میں یہ نہ تھا۔ وہ مرو جسے مروِ شاہجان کہتے تھے، مروِ عظیم کہتے تھے، ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
عروج کی جانب سفر
کوروش اور سکندر جیسے فاتحین کے بعد یہ شہر پارثی، ساسانی، پھر اموی، عباسی، طاہری، صفاری، سامانی، غزنوی، سلجوق، خوارزم شاہی اور تیمور ادوار میں قائم و دائم رہا۔ چند سلطنتیں تو ایسی تھیں کہ جن میں یہ دار الحکومت بھی رہا۔
مثلاً عظیم عباسی بادشاہ مامون الرشید کا دور ہی لے لیں۔ اُن کے دور میں مرو شاہجان چھ سال تک خلافتِ اسلامیہ کا مرکز رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بغداد موجود تھا، دمشق تھا، کوفہ و بصرہ جیسے شہر بھی تھے لیکن مامون نے دار الحکومت مرو کو بنایا۔ اگر مامون کو مجبوراً بغداد نہ جانا پڑتا تو یقیناً دار الخلافت مرو ہی رہتا۔
کیا آج ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ اسلامی دنیا کا مرکز و محور ترکمنستان میں تھا؟ حیرت ہوتی ہے کہ تاریخ کیسے رنگ بدلتی ہے۔ گردشِ زمانہ شاید اسی کو کہتے ہیں۔
مرو کی اہمیت
یہ مرو ہی تھا کہ جہاں مسلمانوں کی کسریٰ کے خلاف فتح مکمل ہوئی۔ آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد سوم پے در پے شکستوں کے بعد بھاگ کر مرو ہی آیا تھا، جہاں اسے قتل کر دیا گیا، جس کے بعد مرو کے والی نے عرب افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
پھر یہی شہر تھا جو اموی سلطنت کے دور میں صوبہ خراسان کا دار الحکومت بنا۔ اسی شہر سے قتیبہ بن مسلم نے وسطِ ایشیا کو فتح کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔ وہ ہر سال مرو سے نکلتا، وسطِ ایشیا میں فتوحات حاصل کرتا اور سردیوں میں واپس مرو آ جاتا۔ یہاں تک کہ پورا خراسان اور ماورا النہر مسلمانوں کے قدموں تلے آ گیا۔ یعنی مرو ہی سے نکل کر مسلمانوں نے بلخ، بخارا اور فرغانہ کو اسلامی حدود میں شامل کیا تھا۔
پھر یہی مرو تھا جس نے عباسی تحریک کو بھی جلا بخشی۔ 748ء میں ابو مسلم خراسانی نے امویوں کے خلاف الگ عباسی حکومت کا اعلان اسی شہر میں کیا تھا۔ عباسی سلطنت قائم ہونے کے بعد بھی ابو مسلم مرو ہی میں رہا۔ نیم خود مختارانہ حیثیت سے خراسان پر راج کرتا رہا، یہاں تک کہ اپنے ہی محسنوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
عباسی دور میں خلیفہ کے بعد سب سے طاقتور شخص خراسان کا والی ہوتا تھا، جس کا مرکز اسی شہر مرو میں ہوتا تھا۔
تبصرہ لکھیے