ہوم << روہنگیا المیہ: پس منظر‘ حقائق‘ تاریخ - سعدیہ قریشی

روہنگیا المیہ: پس منظر‘ حقائق‘ تاریخ - سعدیہ قریشی

(گزشتہ سے پیوستہ)ڈاکٹر فرحت نسیم علوی کی کتاب میں پڑھنے کو بہت کچھ ہے بہت سی حیران کن اور دلچسپ حقائق بظاہر اس خشک اور سنجیدہ موضوع کے ساتھ قاری کو باندھے رکھتے ہیں۔

روہنگیا المیہ کی بنیاد یہ ہے کہ آج میانمار کے بدھست کہتے ہیں کہ روہنگیا 19ویں صدی میں بنگلا دیش سے غیر قانونی طور پر یہاں پہنچے۔ لہٰذا برمی انہیں اسے سرزمین کا باسی تصور نہیں کرتے اس لیے انہیں برما کی شہریت دینے سے انکاری ہیں۔ ان پر ہولناک ظلم و ستم اسی بنیاد پر کئے جاتے ہیں کہ وہ اس برمی نہیں۔مصنفہ نے جانفشانی سے مختلف صرف تاریخی کتب کو کھنگالا اور تاریخی حقائق ہمارے سامنے رکھے کہ۔ برما میں بسنے والے مسلمان صدیوں پہلے یہاں آکر آباد ہوئے ۔ ان کے تانے بانے عربوں سے ملتے ہیں۔ برما میں مسلمانوں کی آمد کیسے ہوئی اسلام کے پھیلنے کا پس منظر کیا ہے اس حوالے سے انہوں نے مسلم اور غیر مسلم مورخین کی کتابوں سے حوالے پیش کیے گئے ہیں .

جو اس بات پر متفق ہیں کہ اراکان(راکھائن) میں اسلام پہلے پہل عرب سے آنے والے تاجروں کی وجہ سے پھیلا۔ مورخین کا خیال ہے کہ را کھائن مسلمان عرب اور ایرانی تاجروں کی اولاد ہیں جو نویں اور پندرہویں صدی کے دوران اراکان میں آباد ہوئے تھے۔ برمی تاریخ میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ عربی تاجر کے دو بیٹے تھے یہاں تجارت کی غرض سے آئے تھے ان کا جہاز تباہ ہو گیا پھر انہیں اسی ساحل پر پناہ لینی پڑی اور وہ یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ تاریخ کا ایک دلچسپ حوالہ یہ بھی ہے کہ یہاں پہلے پہل حضرت علیؓ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ اپنے لشکر کے ساتھ 680 عیسوی میں آئے تھے ملکہ کایا پری اراکان پر حکومت کررہی تھی اس سے جنگ ہوئی جس میں محمد بن حنفیہ کو فتح ہوئی ملکہ نے اپنی رعایا سمیت اسلام قبول کرلیا اور محمد بن حنفیہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔

اس تاریخی حوالے کے شواہد ایک پہاڑی سلسلے کی صورت میں ملتے ہیں جہاں دو چوٹیاں آج بھی حنفیہ ٹونکی اور کایا پری ٹونکی کے نام سے موسوم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محمد بن حنفیہ کے قافلے کے ساتھ جو لوگ یہاں آئے ان کے مقامی لوگوں کے ساتھ میل ملاپ سے جو نسل پروان چڑھی دراصل وہی روہینگیا مسلمان ہیں۔اراکان کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان درویشوں اور اولیا کرام بھی یہاں تبلیغ اسلام کے لیے یہاں کے ساحلوں پر تشریف لائے ان کی یاد میں متعدد مزارات موجود ہیں۔ عرب تاجروں اور اصوفیاء کرام کی تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو اسلام کی طرف راغب ،ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں پہلے پر مقامی بدھ اور مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات استوار تھے مخلوط آبادی میں رہنے والے بدھستوں نے بہت سے اسلامی رسمیں بھی اپنا رکھی تھیں وہ گائے کا گوشت کھاتے۔

روہنگیا مسلمانوں کے بارے کتاب میں بیان ہونے والے چند دلچسپ حقائق:کبھی روہنگیا بہت خوشحال قوم تھی ،وہ سرزمین تجارت معاشی سرگرمیوں کا مرکز تھی دور دراز سے مزدور اور غریب لوگ اپنی غربت اور افلاس دور کرنے کے لیے یہاں آتے تھے فصل کی کٹائی اور دوسرے مشاغل کے لیے تقریبا پچاس ہزار مزدور ہر سال اراکان میں آتے اس کا تذکرہ روہنگیا کی قدیم لوک کہانیوں اور لوک گیتوں میں ملتا ہے۔روہنگیا مسلمان اسلامی روایات کے پیروکار ہیں ان کے اندر دیانتداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ،یہ بہادر اور ذہین لوگ تصور ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برما کی آزادی کے لئے انہوں نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا مگر بدھست کے بغض اور نفرت کی بنا پر ان کے کارناموں اور بہادری کسی سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔روہنگیا فنون لطیفہ کے رسیا ہیں ان کے مقامی گیت ہو لا' بٹیالی اور غاضر جو اپنی مدھر موسیقی کی بنا پر بہت مقبول ہیں۔

کبھی برما براڈ کاسٹنگ سروس سے روہنگیا آرٹ سے متعلق پروگرام ہوا کرتے تھے مگر اب یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ روہنگیا زبان و ادب اسلامی تہذیب کے بل بوتے پر پروان چڑھی روہنگیا زبان میں بنگلہ دیش کی چٹاگانگ کی زبان سے ملتی جلتی ہے اس میں فارسی اردو ہندی اور عربی زبانوں کے الفاظ جب اسلامی تہذیب کے بل بوتے پر پروان چڑھی روہنگیا زبان بنگلہ دیش کی چٹاگانگی زبان سے ملتی جلتی ہے فارسی اردو ہندی اور عربی زبانوں کے بہت سے الفاظ شامل ہیں۔روہنگیا ادب محبت کے گانوں لوک کہانیوں بارہ ماسہ صوفیانہ گیتوں محاورات غزلوں اور لوریوں سے بھر پور ہے۔آج کے دور میں برما کے مسلمان اقلیت پر جس طرح برمی حکومت نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں یہ بدھ نظریہ امن کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔برمی بدھ ریاست کی چھتری تلے روہنگیا مسلمان اقلیتوں کو انسانیت سوز ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔

ایسے ایسے ظلم کی انسان کی روح کانپ جائے۔2012 سے روہنگیا مسلمان اپنے ہی ملک میں بدترین فرقہ پرستی کا شکار ہیں ان کے گاؤں کے گاؤں جلا دئیے جاتے ہیں، روہنگیا مسلمانوں پر معاشی اور سماجی آزادی کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور عملی طور پر ان کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا ہے ان کے گاؤں کے گاؤں جلا دیے جاتے ہیں ظلم و ستم تنگ آکرچ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔بنگلہ دیش لاکھوں روہنگیا پناہ گزین ہیں پناہ گزینی بستیوں میں روہنگیا مرد و خواتین اور بچوں کی حالت قابل رحم ہے۔ روہنگیا عالمی برادری کی طرف انصاف اور امن کیلئے دیکھتے ہیں مسلم امہ کی طرف سے عملی ہمدردی کم ہی ان کے نصیب میں ہے ۔

روہنگیا المیہ کے پس منظر کو سمجھنے کیلئے لہولہو روہنگیا کتاب پڑھنی چاہیے کہ ہم انسانیت سوز ظلم سہتے روہنگیا مسلمانوں کیلئے اپنی تمام تر بے بسی کا احساس کرتے ہوئے خلوص نیت سے دل میں درد کی پھانس اترتی محسوس کریں ایمان کا یہ کمزور ترین درجہ نہ جاننے کی اس حالت سے بہتر ہے کہ ہم ان مظلوموں کی کربناک صورتحال سے یکسر غافل رہیں۔ (ختم شد)

Comments

Click here to post a comment