ہوم << اشرافیہ کی شامت- عبداللہ طارق سہیل

اشرافیہ کی شامت- عبداللہ طارق سہیل

حکومت نے برسراقتدار آتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ قربانیاں دینے کی باری اب اشرافیہ کی ہے اور اس اعلان کے فوراً بعد ہی اس پر عمل شروع ہو گیا۔ اشرافیہ پر ٹیکس لگ رہے ہیں۔

کل حکومت نے 60 ہزار روپے ماہانہ سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ماہانہ کمانے والی اشرافیہ پر ٹیکس لگا دیا۔ امید کی جاتی ہے کہ اگلی باری 50 ہزار روپے ماہانہ کمانے والی اشرافیہ کی ہو گی۔ اشرافیہ کی من پسند خوراک یعنی دالوں کی قیمت میں بھی شایان شان اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یکے از اشرافیہ سے گزشتہ روز ملاقات ہوئی، پوچھا، عید پر کیا قربانی کرنے کا ارادہ ہے، بولے ، اس بار دو کلو مسور کی دال کی قربانی دوں گا۔

حکومت نے بجٹ میں ’’محروم طبقے‘‘ کو کئی سو ارب روپے کی چھوٹ دے کر اس کی محرومیوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا تھا۔ غریب ملازمین کی کیٹگری یعنی ایگزیکٹو کلاس کے افسروں کی تنخواہوں میں 150 فیصد اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف تو تھا ہی لیکن کیا کہا جائے، بے چاروں کو اسی ’’زیرے‘‘ پر گزارا کرنا ہو گا۔

بڑی صنعتوں پر دس فیصد سپر ٹیکس کی زد بھی ’’اشرافیہ، پر پڑے گی۔ دوا دارو سے لے کر سیمنٹ بجری تک ہر شے کے اضافی دام انہی سے وصول کئے جائیں گے۔ وزیر اعظم کا یہ اعلان نہایت خوش آئند ہے کہ امیروں سے لے کر غریبوں پر خرچ کیا جائے گا۔ امیر وہی ایک لاکھ اور اس سے کم کمانے والے اور غریب وہی جو بے چارے چند سو کروڑ روپے قرضہ لے کر واپس کرنے کی سکت نہیں رکھتے، مجبوراً ریاست کو یہ قرضے معاف کرنا پڑ جاتے ہیں۔

ایک بات کا چرچا ہر طرف ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں بھی اور اخبارات میں بھی کہ حکومت کو مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ مشکل فیصلے یعنی یہی کہ بجلی تیل مہنگا کر دیا، ٹیکس بڑھا دئیے وغیرہ۔ ان فیصلوں کو مشکل کہنے والی بات ویسا ہی ماجرا ہے جیسے ماجروں پر کبیرا رو پڑتا تھا۔ یعنی چلتی کا نام گاڑی اور رنگی کا نام نارنگی رکھ دینے والے ماجرے۔ غور فرمائیے، ان فیصلوں میں مشکل کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ بس ایک آرڈر نکالنا پڑتا ہے کہ فلاں شے اتنی مہنگی کر دو اور وہ ہو جانی ہے۔ فلاں شے پر ٹیکس بڑھا دو اور وہ بڑھ جانا ہے۔

پھر مشکل فیصلے کیا ہوتے ہیں؟ یہ کہ وہ سینکڑوں افسر جن کی رہائش گاہیں سو سو کنال میں پھیلی ہوئی ہیں، انہیں دو دو کنال کے گھروں میں رہنے کا حکم دے دیا جائے۔ باقی 98 کنال فی افسر لے کر فروخت کر دیا جائے۔ کروڑوں نہیں، اربوں کی یافت ہو گی لیکن کیا کیا جائے، بہت مشکل فیصلہ ہے، کرنے کی ہمت نہیں پڑتی، پڑ ہی نہیں سکتی۔

ایسا ہی مشکل فیصلہ یہ بھی ہے کہ ہزارہا اسامیوں پر ملازمت کی مدّت پوری کرنے والے افسروں کی پھر سے تقرری کرنے کی پالیسی ختم کی جائے۔ ایسا کرنے سے کیا ہو گا؟ یہ کہ ہزاروں بے روزگار کام پر لگ جائیں گے اور وہ کام بھی کریں گے جس سے ریاست کو بھی فائدہ ہو گا۔ مدّت ملازمت پوری کرنے والا جب پھر سے افسر لگتا ہے تو وہ کچھ کام نہیں کرتا، صرف فون کرتا ہے، چائے کافی پیتا ہے، بسکٹ سموسے اور پیزا کھاتا ہے، ریاست کا بھاری نقصان کرتا ہے۔ ہر روز روز عید اور ہر شب شب برات مناتا ہے، کام کرنے کی بیٹری اس کی ختم ہوئی ہوتی ہے، اس لئے کام تو کر ہی نہیں سکتا۔ یہ مشکل فیصلہ کر لیا جائے تو دہرا فائدہ ہو گا۔ بے روزگاری میں کمی ہو گی، محکموں کی کارکردگی بڑھے گی، مثبت نتائج برآمد ہوں گے لیکن مجبوری ہے، کوئی حکومت اتنا مشکل فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے نہ حوصلہ۔ ناچار آسان فیصلوں کو مشکل قرار دے کر بنا شہید ہوئے شہادت کا ثواب چاہتی ہے۔

کراچی سے خبر ہے کہ وہاں پولیس نے جعلی عاملوں کیخلاف کریک ڈائون کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف جعلی عاملوں کیخلاف! اصلی عالموں کے خلاف کیوں نہیں؟ جعلی عامل صرف جیبوں کا صفایا کرتے ہیں جبکہ اصلی عامل جان لے لیتے ہیں۔ جعلی عامل صرف شعبدے بازی سے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اصلی والے گھر برباد کر دیتے ہیں۔

جعلی عامل ہاتھ کی صفائی دکھاتے ہیں۔ پانی سے بھرے گلاس سے شعلہ بلند کر دیتے ہیں، انڈوں سے سوئیاں نکال لیتے ہیں، دہلیز کے نیچے سے وہ تعویز برآمد کر دیتے ہیں جو انہوں نے خود ہی آنکھ بچا کر دبا دئیے ہوتے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں بہت پہنچا ہوا بزرگ ہے، ہمارا کام کر د ے گا۔ وہ کام نہیں کرتا، پیسے کھرے کر کے راہ لیتا ہے۔

اصلی عامل دو طرح کے ہیں۔ ایک جو قرآنی آیات سے دم درود کرتے ہیں۔ وہ پھر بھی غنیمت ہیں۔ دوسرے وہ جو کالا جادو کرتے ہیں اور خود کو روحانی عامل بتاتے ہیں۔ ان کے پاس جانے والے بھی عجیب عجیب فرمائشیں لے کر جاتے ہیں۔ کسی عورت کو اپنی سوتن کی ٹانگ تڑوانی ہے، کسی بہو کو اپنی ساس مروانی ہے، کسی نے دوسری شادی کرنی ہے، کسی نے شریکے کی جان لینی ہے کسی حریف کا کاروبار برباد کرانا ہے اور کالے علم والے بھاری رقم لے کر یہ کام کرتے ہیں گھروں کے گھر اس کالے جادو سے اجڑ رہے ہیں۔ بہت سے پڑھے لکھے حضرات جادو کے منکر ہیں لیکن جادو ہے، اثر بھی کرتا ہے لیکن اس کے سارے اثر بربادی والے ہوتے ہیں۔ اچھا کام جادو سے ممکن ہی نہیں ہے۔

اب تک تو سارے کالی ودّیا والے دیسی جادو کرتے تھے لیکن اب ولایت پلٹ جادوگر بھی آ گئے ہیں اور اپنے ساتھ ووڈو Voodoo کی مہارت لائے ہیں۔ یہ افریقی جادو ہے جو کیرے بین جزیروں کے راستے امریکہ پہنچا اور خوب زوروں پر ہے۔ کچھ تو KABBALAH کے بھی ماہر ہیں جو اسرائیل سے امریکہ پہنچا۔ یہ جادو امریکی اشرافیہ کا پسندیدہ جادو ہے۔ امریکی اشرافیہ کا شیطانی گڑھ بھوہیمین گروو BOHEMIAN GROVEہے۔ ہزارو ںایکڑ پر پھیلے ہوئے اس کلب میں اسی قبالہ جادو کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ جادو میں استعمال ہونے والے موکل، بیر یا منحّر روحیں Spiritual Entities ایک ہی ہوتی ہیں لیکن منتر الگ الگ جیسے کہ جڑی بوٹیاں یکساں ہوتی ہیں لیکن ہر میڈیکل سائنس انہیںالگ الگ فارمولوں سے جداگانہ بناتی ہے۔

پولیس اصلی عاملوں پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ بہت سال پہلے پنجاب کی حکومت نے بھی ایسا فیصلہ کیا تھا۔ پولیس افسر بعض ایسے ٹھکانوں پر گئے جہاں عاملوں نے انہیں اور ان کے بچوں کو دردناک موت کی دھمکی دی۔ پولیس افسر بھی انساں ہوتے ہیں، ڈر گئے۔ تب سے اب تک گوجرانوالہ اور لاہور خاص طور سے ان کالے عاملوں کی یلغار میں ہیں۔ ان کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

چنانچہ صرف جعلی عاملوں کے خلاف کارروائی کرنا پولیس کی مجبوری ہے۔ انہیں ان کی مجبوری نبھانے دو بھائی۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے سندھ اسمبلی میں کہا کہ بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کو واپس لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انہیں پاکستانی مانتے ہیں۔ آپ انہیں پاکستانی مانتی ہیں، اچھی بات ہے۔ بنگلہ دیش بھی انہیں پاکستانی مانتا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ان بہاریوں کو پاکستانی مانتا ہے یا نہیں؟ اصل سوال یہ ہے ۔

بنگلہ دیش کا حافظہ اچھا ہے۔ اسے یاد ہے کہ 72 سال پہلے ان بہاریوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا، اس کے لیے جان قربان کی تھی۔ پاکستان کا حافظہ ذرا کمزور ہے۔ اسے کچھ یاد نہیں۔ یادداشت بحال ہو تبھی ان کی واپسی کا امکان پیدا ہو گا۔

Comments

Click here to post a comment