پاکستان کے پانی کی درست صورتحال کیا ہے؟ ہم من حیث القوم سنسنی کے شائق ہیں اسلئیے ہر قسم کی افواہ پر یقین کرتے ہیں۔ یہی معاملہ پاکستان کے پانی کے ساتھ بھی ہے۔ چند دن پہلے فیس بک پر ایک تحریر بہت وائرل ہوئی تھی جس کا آغاز ہی پانی کیلئے ایٹمی حملہ کے امکان سے ہوا تھا۔ ان صاحب کے مطابق پاکستان کا بہت سارا پانی انڈیا روک چکا ہے اور آنے والے دنوں میں ہم بوند بوند کے محتاج ہونے والے ہیں۔ اس جیسی بے شمار باتیں ہر طرف سے سننے کو ملتی ہیں۔ میرا پڑھائی کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تعلق بھی چونکہ واٹر ریسورسز انجینئرنگ سے ہے اسلئیے گزشتہ چند سالوں میں اس موضوع پر کافی سیکھنے اور پڑھنے کو ملا۔ اسی سلسلے میں کوشش ہے کہ احباب کو سطحی طور پر مکمل تصویر دکھانے کی کوشش کی جائے۔ یہ کام بغیر نمبرز کے ممکن نہیں ہے اسلئیے چاہیں تو آگے بڑھ جائیں۔ اس تحریر میں جذباتیت کے بجائے اعداد و شمار ملیں گے۔ اور بنیادی حساب سے ہر بندہ بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔
پانی ایک انتہائی پیچیدہ موضوع ہے۔ اس کی کمی یا زیادتی نہیں ہوتی اسلیے عموماً کمی یا زیادتی کا ذکر محض ایک تناظر میں کیا جاتا ہے۔ ایک تناظر میں نقصان دہ عمل کسی اور فریم میں فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے۔ مثلا زمین سے پانی نکالنے کو برا سمجھا جاتا ہے لیکن سندھ اور پنجاب میں زمین کے خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ زیرِ زمین پانی کی سطح کا بہت بلند ہو کر زمین کو ناقابلِ کاشت بنا دینا ہے۔ اب زمین سے پانی نکالنا کہاں فائدہ مند اور کہاں نقصان دہ ہے یہ بتانا ماہرین کا کام ہے لیکن پوری قوم زمین سے پانی نکالنے کو برا ثابت کرنے پر تل گئی ہے۔ تو دراصل پانی محض ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے اور یہ قدرتی طور پر چلتا رہتا ہے۔ اسلئیے زیادہ کوشش یہ کی جاتی ہے کہ پانی کے حساب سے ایڈجسٹ ہوا جائے اور کم کم پانی کو اپنی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کی جائے۔
پاکستان کے پانی کے بارے میں ہر تبصرے میں یہ بات ملے گی کہ پاکستان ایک “water scarce” ملک ہے اور یہاں فی کس کے حساب سے دستیاب پانی بہت کم ہے۔ بالکل یہی بات پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی ٹاسک فورس کی سربراہ شیری رحمن صاحبہ دو ہفتہ پہلے دہرا چکی ہیں کہ پاکستان دنیا کے ۳ سب سے زیادہ “water stressed” ممالک میں شامل ہے۔
پاکستان کو اللہ نے بہت پانی سے نوازا ہے۔ صرف 16 ممالک پاکستان سے زیادہ پانی رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں آبادی بہت ہے اس طرح فی کس دستیاب پانی کم ہے اور اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف 32 ممالک ہیں۔ یہاں لوگ ڈر جاتے ہیں حالانکہ اس حساب میں ایک جھول ہے جو آگے بیان ہوگا اور اس میں معاشیات کا دخل بھی ہے۔ اسی لیے پاکستان سے کم پانی فی شہری رکھنے والے 32 میں سے کم از کم 26 ممالک میں فی کس جی ڈی پی پاکستان سے کم از کم ۱۰ گنا زیادہ ہے! جو چھ ممالک اس معاملہ میں پاکستان سے بھی زیادہ برے ہیں وہ زیادہ تر افریقی ہیں، اور انکی بھی حرکتیں پاکستان والی ہیں،فرق یہ ہے کہ ان کے پاس دنیا میں سترہویں نمبر پر سب سے زیادہ پانی کے وسائل نہیں ہیں۔
گویا پانی کی کمی کے بجائے مسئلہ کہیں اور ہے۔
پہلے یہ سمجھیں کہ دراصل پانی ہے کتنا؟ پاکستان کا کل دستیاب پانی 229 بلین کیوبک میٹر(بی سی ایم) سالانہ ہے۔ یہ کتنا بڑا نمبر ہے اسکا اندازہ یوں لگائیے کہ کراچی کو اس وقت 0.9 بی سی ایم پانی دیا جاتا ہے۔ اگر آبادی کو پورا ساڑھے 3 کروڑ گنا جائے تو کراچی کا مسئلہ مزید 1.3 بی سی ایم سے حل ہو سکتا ہے۔ یعنی کراچی کو کل 2.2 بی سی ایم پانی درکار ہے۔ کے فور منصوبہ 0.35 بی سی ایم سالانہ ہے۔ جبکہ ہر سال ۳۵ بی سی ایم بغیر استعمال کیے بحیرہ عرب میں بہہ جاتا ہے! یعنی کل پاکستان کی کل آبادی کی سالانہ ضرورت کا ڈھائی گنا ہر سال سمندر میں جاتا ہے۔
205 بلین کیوبک میٹر پانی گلیشئیرز اور بارشوں سے آتا ہے۔ پاکستان کے پاس کل 15 بی سی ایم کو ڈیمز میں ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ اور سالانہ خرچ اکثر 184 بلین کیوبک میٹر رپورٹ ہوتا ہے جو دستیاب وسائل کا 78 فیصد بنتا ہے جو کہ غلط ہے۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ کافی گراؤنڈ واٹر دراصل کینال کی لیکیج اور آبپاشی سے زمین میں جاتا ہے اور پھر بعد میں زمین سے نکالا جاتا ہے۔ کچھ عقلمندوں نے اسے دو دفعہ استعمال شمار کیا اور باقی اسی لکیر کو پیٹے جا رہے ہیں۔ اصل استعمال 136 بی سی ایم ہے جو کہ وسائل کا 59 فیصد ہے۔
یہ نمبر بہت اچھا تو نہیں لیکن اتنا برا بھی نہیں ہے جتنا برا بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر آبادی پر تقسیم کر کے فی شہری کھپت نکالی جائے تو ہر پاکستانی 655 کیوبک میٹر پانی استعمال کر رہا ہے جو کہ گرؤنڈ واٹر کی دو دفعہ گنتی کی وجہ سے اکثر تقریباً 900 کیوبک میٹر فی شہری رپورٹ ہوتا ہے۔ دوسرےزیادہ آبادی والے ممالک سے تقابل کیا جائے تو انڈیا میں یہ نمبر 600، چین میں 420 اور ترکی میں 560 ہے۔ یاد رہے، پاکستانی کیلکولیشن میں صرف ایک غلطی دور ہوئی ہے مزید کا حساب ابھی تک نہیں ہوا۔
اب ملک میں پانی کے کل استعمال کا 94 فیصد الا ماشااللہ زراعت ہے اور سب سے زیادہ نقصان کا ذمہ دار بھی یہی شعبہ ہے۔ باقی 5 فیصد پانی میونسپل سیکٹر اور ایک فیصد انڈسٹری میں استعمال ہوتا ہے۔ زراعت تو بہت تفصیل کا متقاضی موضوع ہے سرِدست نمونہ بازی کا اندازہ یوں لگائیے کہ زراعت میں استعمال ہونے والے کل پانی کا اسی فیصد صرف چار فصلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چاول، گندم، گنا اور کپاس۔ اتنے غیر معمولی استعمال کے باوجود جی ڈی پی میں انکا حصہ 5 فیصد سے بھی کم ہے! جبکہ مویشیوں کا زراعت کے جی ڈی پی میں 58 حصہ ہے اور وہ زراعت کے پانی کا دو فیصد سے بھی کم استعمال کرتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ شور شرابا انڈیا کی پانی کی چوری کا ہے۔ یہ موضوع کالاباغ ڈیم کی طرح سیاسی ایجنڈے سے آلودہ ہو چکا ہے۔ اس پر تبصرہ کرنے والوں کی اکثریت واٹر ریسورسز کی سائنس سے ناآشنا ہے اور انہوں نے کبھی سندھ طاس معاہدہ بھی نہیں پڑھا۔ مختصراً یہ کہ کشن گنگا ڈیم ایک”Run-of-the-river” ہائیڈروپاور ڈیم ہے جو کہ انڈیا معاہدے کے تحت بنا سکتا ہے۔ اس کے بننے سے پاکستان کو مغربی دریاؤں سے ملنے والے تقریباً 173 بلین کیوبک میٹر پانی میں فی الحال کوئی کمی نہیں آئی۔ایسا نہیں ہے کہ انڈیا معصوم ہے لیکن مسئلہ کیا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔ پاکستان نے اعتراض کیا ہے کہ انڈیا نے کچھ خفیہ اریگیشن کینالز نکالی ہوئی ہیں۔ ورلڈ بینک نے پاکستان کے اعتراضات کو مسترد نہیں کیا بلکہ اس سال مارچ میں بھی اس پر پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ پچھلے پانچ چھ سال اس پر بات ہوتی رہی ہے پر وہ بے نتیجہ رہی۔ ایک نیوٹرل ایکسپرٹ سے تحقیق کروانے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ انڈس بیسن پر انڈیا اور پاکستان کا جوائنٹ کمیشن موجود ہے اور ہر سال ورلڈ بینک کی موجودگی میں دریائے سندھ کے نظام پر بات بھی ہوتی ہے۔ آخری بات یہ کہ معاہدہ انڈیا اور پاکستان کے والدین نے کروایا تھا، اس معاہدے کے ضامن ورلڈ بینک، اقوامِ متحدہ، امریکہ، کینیڈا، جرمنی اور شاید برطانیہ یا فرانس ہیں۔ اسلیے بے فکر رہیں آپکا پانی کہیں نہیں جا رہا۔ منگلا ڈیم کے بارے میں بھی افواہ پھیلائی گئی تھی کہ وہ پانچ سال سے خالی پڑا ہے جبکہ وہ دو سال پہلے بھی پوا بھر چکا ہے اور امید ہے اس سال بھی بھر جائے گا۔ اسکا دارومدار بارش پر ہوتا ہے۔
تیسرا موضوع گراؤنڈ واٹر ریسورسز ہیں اور اس موضوع پر بھی تحقیق کے بغیر بہت خوف پھیلایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو آج تک علم ہی نہیں ہوا کہ اسکے پاس کتنا پانی زیرِ زمین موجود ہے۔ یہ ایک بہترین قدرتی اسٹوریج ہے۔ کچھ تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے پاس 2100 سے 2700 بلین کیوبک میٹر زیرِ زمین پانی ہے جس میں 1250 بالکل فریش ہے یعنی ملک کے سارے ڈیمز کی مجموعی اسٹوریج سے 80 گنا زیادہ پانی زیرِ زمین موجود ہے۔ جبکہ ملک میں گراؤنڈ واٹر کا سالانہ استعمال 62 بی سی ایم ہے۔ اور محتاط اندازے کے مطابق نمکین گراؤنڈ واٹرملا کرکل ذخائر 10,000 بلین کیوبک میٹر سے زیادہ ہیں۔ یاد رہے دریاؤں کا سارا پانی 205 بی سی ایم اور پاکستان کا کل ملا کر سالانہ استعمال 136 بی سی ایم ہے۔
الغرض پانی بہت ہے لیکن مسائل بھی بہت سنگین ہیں۔ اس تحریر کا مقصد پاکستان کے دستیاب آبی وسائل کی ایک تصویر کھینچنا تھا۔ ان وسائل کو درپیش چیلنجز پر بھی کبھی بات ہوگی۔ ملک کو پانی سے متعلق درپیش مسائل کی بنیادی وجہ ڈیٹا کا نا ہونا ہے اور نتیجتاً واٹر ریسورسزمینیجمنٹ کی کمی ہے۔ اسی طرح پانی کی کوالٹی ایسا موضوع ہے جس پر ملک میں خاطر خواہ کام نہیں ہوتا۔ کینیڈا نے 1971 میں ملک کے تمام آبی وسائل کی کوالٹی کا نقشہ جاری کیا ہوا تھا لیکن پاکستان میں آج تک کسی جھیل کی کوالٹی کو چیک کرنے کیلئے مانیٹرنگ سسٹم موجود نہیں۔ لاہور میں ایک بھی سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ نہیں ہے نتیجتاً روز 2.4 ملین کیوبک میٹر گندہ پانی دریائے راوی میں شامل ہوتا ہے۔ پانی کے مسائل کا اسکیل بہت بڑا ہے اور یہ حکومت کی توجہ ہی سے حل ہو سکتے ہیں۔ پانی کو ضائع کرنا سخت معیوب بات ہے لیکن عام شہری ٹونٹی بند کر کے بھی کوئی فرق نہیں ڈال رہا۔
چونکہ ہمیں اسکا علم ہی نہیں ہوتا کہ کب کہاں سے کتنا پانی آرہا ہے اسلئیے تقسیم بھی صحیح نہیں ہو پاتا۔ بہرحال سنسنی پھیلانے والوں سے خبردار رہئیے اور خود تحقیق کرکے بات کو آگے بڑھانے کی عادت ڈالیے۔
تبصرہ لکھیے