ہوم << سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف کب ملے گا - حسان بن ساجد

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف کب ملے گا - حسان بن ساجد

یوں تو ملکی تاریخ میں بہت سے سانحات ہوے مگر سر زمین لاہور میں ریاستی ظلم پر مبنی ایک ایسا سانحہ ہوا جس کو قومی میڈیا سمیت چند عالمی میڈیا نے بھی دکھایا۔ در حقیقت اس کے پس پردہ پہلوں کو بہت سے کالم نگار بیان نہیں کر پاتے۔

اس سانحہ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان گراؤنڈ میں ایک آواز گونجتی ہے نظام بدلو ۔۔۔ سیاست نہیں ۔۔۔ ریاست بچاؤ پھر 13 جنوری 2013 کو اسلام آباد لانگ مارچ ہوتا جو آرٹیکل 62،63 کے نفاذ اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو اور دیگر مطالبات پر ختم ہو جاتا ہے، وہ رہبر اور لیڈر ڈاکٹر طاہر القادری ہوتے ہیں۔ علامہ صاحب 2004 کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہو کر سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے۔ پھر اچانک 8 سال بعد سیاست میں اچانک واپسی نے ہر طبقہ کو حیران کر دیا اور تنقید کا نشانہ بنایا۔

اسلام آباد معاہدے پر عمل نہ ہوسکا اور ڈاکٹر طاہر القادری نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ 2013 کے انتخابات کے بعد ہر جماعت خواہ وہ حکمران جماعت تھی یا اپوزیشن سب نے دھاندلی کا رونا رویا۔ سب نے یہاں تک کہ عمران خان نے بھی کہا کہ طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے اصلاحات کے بغیر انتخابات شفاف نہیں ہوسکتے۔ ایک مرتبہ پھر صف بندی شروع ہوئی پاکستان عوامی تحریک، پاکستان تحریک انصافمسلم لیگ (ق)، مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل، عوامی مسلم لیگ و دیگر چھوٹی جماعتوں کے روابط ہوے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے نظام بدلنے اور انقلاب مارچ کے لیے تیاری پکڑی تو دوسری طرف عمران خان نے آزادی مارچ کی تیاری پکڑ لی۔ علامہ کی ملک واپسی سے قبل عمران خان نے 14 اگست 2014 کو آزادی مارچ کی تاریخ دے دی۔

16 جون 2014 کی شب مرکز منہاج القرآن لاہور پر پولیس بیرئر ہٹانے آئی تو اس وقت کے ناظم اعلیٰ۔منہاج القرآن شیخ زاہد فیاض حسین، جنرل سیکرٹری۔عوامی تحریک خرم نواز گنڈاپور اور چیف سیکورٹی افیسر الطاف حسین شاہ نے عدالت کا وہ حکم دیکھایا جس کے تحت وہ بیرئیر لگاۓ گئے تھے۔ رات بھر پولیس عوامی تحریک کے کارکنان پر شیلنگ کرتی رہی۔ صبح 17 جون 2014 کو کم و بیش 11 بجے پولیس نے کارکنان پر گولیاں برسا دیں جسے میڈیا براہ راست دیکھاتا رہا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر کے باہر 2 خواتین کو شہید کیا گیا جس میں سے ایک خاتون حاملہ تھی۔ اس قدر سفاکیت پر ملک بھر میں احتجاج ہوے مختلف رہنما ماڈل ٹاؤن پہنچے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عوامی تحریک نے اسلام آباد لانگ مارچ کیا اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر FIR کٹوائی گئی۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان اکثر اکٹھے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے انصاف کے لیے آواز اٹھاتے رہے۔

2018 کے انتخابات میں عمران خان وزیراعظم منتخب ہوے۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے بچی تنزیلا کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ انصاف دینا ہمارا کام ہے اور ایک نئی JIT بنانے کا حکم دیا۔ نئی JIT تشکیل پائی اور نواز شریف سمیت تمام فریقین کے بیانات قلمبند کرلیے اور 90 فیصد کام مکمل ہوگیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کے بعد JIT کو کام سے روک دیا گیا۔ عوامی تحریک کے وکلا سپریم کورٹ گئے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے JIT سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کو ھدایت کی کہ وہ تین ماہ میں فیصلہ کریں جو 3 سال سے نہ ہو سکا۔ اسی طرح بقول ڈاکٹر طاہر القادری انکی بہت سی درخواستوں پر 3،4 سالوں سے تاریخ ہی نہیں ملی۔

گویا آج بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا اور انکے وارثان کو انصاف نہ مل سکا۔ کیا وہ شہدا پاکستانی نہیں تھے؟ کیا ان کو انصاف دینا ریاست کی ذمہ داری نہیں؟ آج عمران خان کو جو سانحہ ماڈل ٹاؤن اور طاہر القادری بار بار یاد آ رہا ہے۔ 4 سال یہی عمران خان کیوں خاموش تھے؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث کتنے پولیس افسران کو عمران خان نے اپنے دور حکومت میں فارغ کیا؟ کتنی ایف۔آئ۔آر ایگزیکٹو پاور استعمال کرتے ہوے ختم کیں؟ عمران خان صاحب کو کھل کر بولنا چاہئیے اور جا کر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے وارثان سے معافی کا طالب ہونا چاہئیے اور پھر انکے ساتھ کھڑا ہونا چاہئیے۔ وہاں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے وارثان کو ابھی انصاف ہی نہیں ملا تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے 14 ستمبر 2019 کو سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ پھر عوامی تحریک کا کوئی بڑا احتجاج اور جلسہ منظر عام پر نہیں آیا۔

اب جب عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی تو سانحہ ماڈل ٹاؤن شہدا کی برسی پر پریس کلب احتجاج کی کال دی گئی ہے۔ کیا صرف ایک دن یا چند گھنٹے احتجاج سے شہدا کو انصاف مل جاۓ گا؟ کیا سیاست سے دوری سے عوامی تحریک کی وہ کوریج ہوگی؟ کیا کوئی جماعت بغیر رہبر کے موثر ہوتی ہے؟ کیا عوامی تحریک 2012 میں 8 سال کی خاموشی کے بعد سیاست میں اس لیے آئ تھی کہ سیاست ہی چھوڑنی ہے؟ جس مقصد کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا نے قربانی دی آج وہی عوامی تحریک اس مقصد سے دور اور لا تعلق کیوں ہے؟ ڈاکٹر طاہر القادری کو کم از کم اپنے شہدا اور ملک کی پسی ہوئی عوام کے لیے تو آواز اٹھانی چاہئیے۔ کم از کم ان شہدا کی موثر آواز کے لیے علامہ کو ملک آکر جدوجہد کرنی چاہئیے۔

اگر سیاست سے دور رہ کر انصاف ملنا ممکن ہوتا تو اب تک انصاف مل چکا ہوتا۔ ملک کے اہم اداروں اور معزز عدلیہ کو چاہئیے کہ ان 8 سال سے سسکتے ہوے بچوں اور وارثان شہدا کو انصاف دلوا دیں آج 17 جون 2022 تک انصاف کو ترس رہے ہیں۔ معزز عدلیہ کو چاہئیے کہ بروقت انصاف کرے تاکہ ملک میں عدل و انصاف کو بول بالا ہو سکے۔ ملک کو مزید انتشار اور تقسیم کرنے سے روکنے کے لیے ہر ادارے کو اپنی ذمہ داری مکمل طور پر ادا کرنی ہوگی۔ میں ہمیشہ ایک جملہ لکھا کرتا ہوں سیاسی قائدین کو برداشت نہیں ہوتییں کہ کارکن کا کام صرف نعروں میں مدہوش ہونا، گاڑی کے آگے ناچنا اور گولی کھانا ہے۔ سیاسی رہنما کبھی ان کے لیے ڈٹ کر میدان میں نہیں رهتے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک خوبی ہے کہ انہوں نے آج تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کو زندہ رکھا ہوا ہے، مگر دوسری طرف انکے سیاست سے دوری کے فیصلے کی میں بہت کچھ الٹا ہوگیا اور آئندہ ہوتا نظر آے گا۔ علامہ طاہر القادری اور انکے مشیران کو ایک مرتبہ پھر مشاورت کر لینی چاہئیے کہیں سب کچھ ختم ہونے کے بعد واپسی نہ کرنی پڑ جاے۔ اللّه کے حضور دعا گو ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کو جلد انصاف میسر ہو۔آمین