ہوم << جِنایاتِ حج کے کفارات - پروفیسر مفتی منیب الرحمن

جِنایاتِ حج کے کفارات - پروفیسر مفتی منیب الرحمن

حالتِ احرام میں مُحرم کے لیے جو افعال منع ہیں اور جن کے ارتکاب پر ان کی تلافی (Compensation) کے لیے کوئی کفارہ (Penance) لازم آتا ہے، اُسے ''جنایۃ‘‘کہتے ہیں اور اس کی جمع جنایات ہے۔ کفار ات کی چار قسمیںہیں: (الف) بُدنہ: یعنی اونٹ یا گائے کی قربانی(ب)دَم: یعنی بکری یا دنبے کی قربانی(ج)مالی صدقہ(د)روزے۔ حالتِ احرام میں مُحرِم کے لیے جو امور ممنوع ہیں، اُن میں سے بعض کا تعلق لباس کے ساتھ، بعض کا خوشبو استعمال کرنے اور میل کچیل دور کرنے سے ہے، بعض کا تعلق عملِ زوجیت سے اور بعض کا شکار سے ہے۔

حالتِ احرام میں مُحرِم کے لیے خوشبو استعمال کرنا ممنوع ہے۔ نبی کریمﷺکی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اس کے بدن پر خلوق نامی خوشبو میں لتھڑی ہوئی دو چادریں تھیں۔ آپﷺ نے کچھ لمحے کے لیے خاموشی اختیار فرمائی اور اسی دوران آپ پر وحی نازل ہوئی، پھر جب آپ سے نزولِ وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: احرام کی خوشبو تین مرتبہ دھو ڈالو۔ (صحیح بخاری: 1536)۔

حج یا عمرے کے دوران اگرمُحرِم جسم کے کسی بڑے عضو مثلاً: پنڈلی، ران، داڑھی اور سینہ وغیرہ یا اُس کے چوتھائی حصے پر خوشبو لگائے تو اُس پر دم واجب ہوگا، کسی بڑے عضو کے چوتھے حصے سے کم کو یا چھوٹے عضو جیسے کان، ناک وغیرہ کوکثیر خوشبو یا بیک وقت تین یا تین سے زیادہ مرتبہ خوشبو لگائے، تو دم واجب ہوگا۔ یہ خوشبو چاہے پرفیوم کی صورت میں ہو یا خوشبودار تیل ہو، ہرقسم کی خوشبویات پر اس کا اطلاق ہوگا۔ بے پکی خوشبودار چیزجیسے الائچی اتنی مقدار میں کھانا کہ پورے منہ یا اس کے اکثر حصے میںپھیل جائے، اس سے دم واجب ہوجاتا ہے، خوشبو سے مرادوہ خوشبو ہے جو لگائی جاتی ہے یا چپکائی جاتی ہے، صرف سونگھنے سے دم واجب نہیں ہوتا۔

مردوں کے لیے سلا ہوالباس (قمیص، جیکٹ، بنیان، شلوار، انڈرویئر، نِکر، عمامہ، ٹوپی، دستانے، جرابیں، موزے، ایسے جوتے جن سے قدم کی پشت کی ہڈی چھپ جائے، وغیرہ )پہننا منع ہے۔ اگر ان ساری ممنوع چیزوں میں سے کوئی ایک استعمال کرے اور اس کو ایک دن یا کئی دن مسلسل بلا عذرپہنے رہے تو اُس کی جنایت کے طورپر ایک دم واجب ہو گااوراگر یہ اشیا عذر کے بغیر بارہ گھنٹے سے کم اور ایک گھنٹے سے زیادہ پہنے رہا، تو صدقہ واجب ہے۔

مرد نے سر یا چہرے یا دونوں یا چہرے اور سرکے چوتھے حصے یااُس سے زیادہ یا عورت نے پورے چہرے یا چوتھے حصے یا اُس سے زیادہ کوعذر کے سبب بارہ گھنٹے یااُس سے زائد وقت کے لیے سلے یا بغیر سلے کپڑے( جیسے اسکارف یا پٹی وغیرہ )کے ساتھ ڈھانپے رکھا تو دم یا چھ صدقہ یا تین روزوں میں سے کسی ایک کفارے کا اختیار ہے اوراگر بارہ گھنٹے سے کم کیلئے ایسا کیا تو صدقہ یا ایک دن کا روزہ واجب ہوگا۔

کورونا کی وبا کے سبب سعودی حکومت نے زائرین کے لیے ماسک پہننے کو لازم قرار دیا ہے، کیونکہ اس سے چہرے کا چوتھائی حصہ چھپ جاتا ہے، لہٰذا بارہ گھنٹے یا اس سے زائد پہننے میں دم لازم آئے گا اور اس سے کم اور ایک گھنٹہ سے زائد پہننے پر صدقہ دینا ہوگا، یہ پہننا کیونکہ عذر کے سبب ہے، لہٰذا اس صورت میں دم، صدقہ اور روزے میں اختیار ہونا چاہیے۔

مونچھ کے بال کاٹنے پر صدقہ ہے۔ سر، داڑھی، بغل، زیر ناف بالوںکے علاوہ باقی جسم کے اعضا کے بال‘ کل یا بعض‘ ہٹانے میں صدقہ واجب ہے۔ بیماری سے خود بخودبال گریں تو کوئی دم یا صدقہ نہیںہے، لیکن اگر کھجانے یا وضو کرنے سے بال گریں تو تین بال تک ہر بال کے عوض مٹھی بھر گندم یاآٹا یاکھجور کا ایک دانہ صدقہ کرنا واجب ہے۔ اگر مُحرِم کسی دوسرے مُحرم کا وقت سے پہلے حلق کرلے تو حلق کرنے والے پر صدقہ ہے۔ اگر ایک ہاتھ یا پیر یا ہر پیر اور ہاتھ سے چار چار انگلیوں کے یا اس سے کم انگلیوں کے ناخن کاٹے، تو ہرناخن کے بدلے ایک صدقہ واجب ہے، ناخن خود کٹ جانے یا نکل جانے کی صورت میں کوئی کفارہ نہیں ہے، مُحرم پرکسی اور مُحرم کے ناخن کاٹنے کی صورت میں صدقہ واجب ہے۔

طواف قدوم میں کل یا اکثر چکر جنابت کے ساتھ ادا کرنے کی صورت میں صدقہ ہے اور بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ طواف قدوم سنت ہے، اس لیے اس میں کچھ بھی جزا نہیں ہے۔ جمرات کوکنکریاں مارنے میں کسی ایک دن یا ہر دن کی نصف سے کم کنکریاں دوسرے دن تک مؤخر کرنے میں ایک صدقہ واجب ہے، لیکن اگر یہ کسی آسمانی عذر کی بنا پر ہو تو نہ دم واجب ہے اور نہ صدقہ۔

طوافِ زیارت فرض عین ہے اور خود کرنا ہوتا ہے، اس کا افضل وقت یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ ہے، رمی، قربانی اور حلق سے فارغ ہوکر اسی دن طوافِ زیارت کیا جائے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے اسی دن طوافِ زیارت کیا تھا اور اس کا واجب وقت دس ذوالحجہ کی صبح سے لے کر12کی غروبِ آفتاب تک ہے۔ اگرکسی معقول شرعی عذر کی وجہ سے اس عرصے میں طواف کا اکثر حصہ ادانہ کیا تو دم واجب ہے۔ اگر کسی حاجی نے طوافِ زیارت بے وضو کیا تو اس پر بکری کی قربانی لازم ہے اور حالتِ جنابت میں کیا تو بدنہ (گائے یا اونٹ) کی قربانی لازم ہے۔ اسی طرح اگر اس نے طواف کے اکثر چکر جنابت یا بے وضو ہونے کی حالت میں لگائے تو یہی حکم ہوگا۔ اس مذکورہ صورت میں افضل یہ ہے کہ جب تک مکۂ مکرمہ میں ہے تو اس طواف کا اعادہ کرلے، ایامِ نحر میں پاک ہوکر اعادے کی صورت میں دَم لازم نہیں ہوگا اور ایامِ نحر کے بعد اعادہ کیا تو دَم لازم آئے گا۔ اگرکوئی عورت تین دن حیض کی وجہ سے طواف زیارت نہ کرسکی، تو اس پر کوئی دم نہیں، کیونکہ تاخیر کا یہ سبب اللہ کی جانب سے ہے، لیکن اگر تیسرے دن آخری وقت میں پاک ہوگئی اوروقت میں اتنی گنجائش ہے کہ غسل وغیرہ کے بعد طوافِ زیارت کے کل یااکثر چکر ادا کرسکتی ہے، لیکن اس کے باوجود طواف نہیں کیا، تو اس عورت پر تاخیر کی وجہ سے دم واجب ہے۔

طوافِ وداع ایام نحر میں حالتِ طہارت میں کرلیا لیکن طوافِ زیارت حالتِ جنابت میں کیا تھا اور اس کے بعد کوئی طواف نہیں کیا، تو اس کا طوافِ وداع طوافِ زیارت کی طرف منتقل ہوجائے گا، مگر طوافِ وداع کے ترک کی وجہ سے اس پر دم واجب ہوگا اور اگر ایام نحر کے بعد طوافِ وداع کیا تو یہ طوافِ زیارت بن جائے گا، مگر حاجی پر دو دم واجب ہوں گے، ایک طواف وداع کے ترک کا اور دوسرا طوافِ زیارت کو ایام نحر سے موخر کرنے کا۔ اگر اس شخص نے دوبارہ طوافِ وداع کرلیا یا نفلی طواف کرلیا تو طوافِ وداع کے ترک والا دم ساقط ہوجائے گا۔ بے وضو طواف زیارت کرنے والے شخص نے طوافِ وداع ایام نحر میں باوضو کرلیا تو طوافِ وداع طوافِ زیارت کی طرف منتقل ہوجائے گا اور اگر دوبارہ طوافِ وداع یا نفلی طواف کیا تو کوئی دم نہیں ہے اور دوبارہ طوافِ وداع یا نفلی طواف نہ کیا تو دم واجب ہوگا۔

طوافِ زیارت کے اکثر چکر چھوڑ دیے اور بعض ادا کیے گئے اور ایام نحر کے بعد طوافِ وداع کرلیا تو طوافِ وداع کے چکروں سے طوافِ زیارت کے چکروں کو مکمل کیا جائے گا اور دو دم واجب ہوں گے، ایک طواف زیارت کے اکثر چکر ایام نحر سے موخر کرنے کا دم اور دوسرا طوافِ وداع کے اکثر چکر کے ترک کا۔ اگر طوافِ زیارت کے اکثر یا کل چکر بے وضو ادا کیے تو دم واجب ہے اوراگر اعادہ کرلیا، اگرچہ ایام نحر کے بعد کیا ہو، تو دم ساقط ہے، کیونکہ بغیر وضو والا پہلا طواف بھی معتبر ہے۔

اگر کسی عورت کو طوافِ زیارت ادا کرنے سے پہلے حیض آگیا، پس اگر وہ حیض سے پاک ہونے تک رک سکتی ہے تو اس وقت تک رکنا اور پاک ہونے کے بعد طواف کرنا واجب ہے؛ تاہم اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے اس کے لیے ٹھہرنا ممکن نہ ہو تو ایسی عورت امام ابوحنیفہ کے مذہب اور امام احمد کی ایک روایت کے مطابق حیض کی حالت ہی میں طواف کرلے اور کفارے میں بدنہ ادا کرے۔

طوافِ زیارت کے چار یا زائد یا کل چکر جنابت کی حالت میں لگائے اور پاک ہوکراعادہ نہ کیا، توکفارے کے طور پر بُدنہ (اونٹ یا گائے)کی قربانی واجب ہے؛ تاہم ناپاکی کی حالت میں کیے گئے طوافِ زیارت سے فریضہ ساقط ہوجائے گا، لیکن اگرپاک ہوکرایامِ نحر میں اعادہ کرلیا تو کفارہ ساقط ہوجائے گااورایامِ نحر کے بعد اعادہ کیا تودَم لازم آئے گا۔ اسی طرح اگر عورت نے حیض یانفاس کی حالت میں طوافِ زیارت کیا تو وہ سخت گناہگار ہوگی اور اس کے ذمے لازم ہے کہ وہ طہارت کی حالت میں طواف کا اعادہ کرے۔ اگر اس نے طواف کا اعادہ نہیں کیا توکفارے کے طور پر بُدنہ دے گی اوروہ اپنے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

طوافِ زیارت کے تین یا اِس سے کم چکر چھوٹ جانے کی صورت میں دم واجب ہے، اِسی طرح ننگے بدن کے ساتھ یا الٹے پائوں یا کسی کے کندھے پربلا عذرسوار ہوکر طوافِ زیارت ادا کرنے کی صورت میں بھی دم واجب ہے۔ اعادہ کی صورت میں دم ساقط ہوجائے گا۔ اگر کسی شخص کا طواف زیارت یا اس کا اکثر حصہ ادا نہیں ہوسکا اور اس کے بعد اس نے کوئی اور طواف بھی نہیں کیا تو جب تک وہ طواف زیارت ادا نہیں کرے گا، میاں بیوی کی حیثیت سے ایک دوسرے سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے؛ خواہ ساری زندگی گزر جائے۔ وہ زندگی میں جب بھی ادا کرے گا، اسے قضا نہیں کہا جائے گا۔ اگر طوافِ زیارت ادا کرنے سے پہلے میاں بیوی آپس میں مباشرت کریں تو زوجین میں سے جو بھی طواف کا تارک ہوگا، اس پر جماع کی تعداد کے لحاظ سے دم واجب ہوں گے اور یہ دم بکری یا دنبے کی صورت میں ہوگا۔

اگر طوافِ زیارت یا وداع کرنے والے کا ستر اتنا کھلا ہوا ہے جس کے ساتھ نماز نہیں ہوتی، تو طواف تو ادا ہوجائے گا، لیکن دم لازم ہے۔ اگر چوتھائی حصے سے کم برہنہ ہے تو دم واجب نہیں اور نفلی طواف میں کشف ستر پرکچھ نہیں ہے۔

وقوفِ عرفہ سے پہلے عملِ زوجیت کرنے سے حج فاسد ہوجاتا ہے ،تاہم ایسا شخص حج کے تمام ارکان ادا کرے اور حج پورا کرکے دَم دے اور آئندہ سال اِس حج کی قضا کرے۔وقوف کے بعد اور حلق وطواف سے پہلے جماع کیا تو بُدنہ(اونٹ قربان کرنا) واجب ہوجاتا ہے۔

اگر کسی شخص نے سعی کے چار یا زیادہ چکر چھوڑ دیے تو اس پر دم واجب ہے،اگر سعی کے چار یا زیادہ چکر ویِل چیئر پر بلا عذرادا کیے تو دم لازم ہے اوراگربیمار یا معذور یا ضعیف ہے تو کوئی دم نہیں۔ طواف زیارت کے بعد سعی کرنے میں احرام شرط نہیں ہے، البتہ عمرے میں حلق سے پہلے سعی کرنے میں احرام واجب ہے اوراگراحرام کے بغیر سعی کی تو عمرہ ادا ہوجائے گا، مگر دم واجب ہوگا۔ طواف زیارت کی سعی نہیں کرسکا اوردوسرے سال قضا کی، تو دم ساقط ہوجائے گا، لیکن حلق کے بعد ہونے کی وجہ سے دم واجب ہوگا، سعی کی تاخیر سے ادائیگی پر کوئی دم نہیں ہے۔

دس ذو الحجہ کی صبح صادق سے طلوعِ آفتاب کے درمیان کچھ دیر تک مزدلفہ میں وقوف واجب ہے ،اگر بلا عذر مزدلفہ کا وقوف چھوڑ دیا ، تو دم واجب ہے ،مِنْ جَانِب اللّٰہ عذر کی صورت میں کوئی دم نہیںہے،البتہ اگر دشمن کے خوف سے مزدلفہ کا وقوف نہ ہو تو دم واجب ہے ۔اسی طرح دشمن کے خوف کے سبب وقوف عرفہ کے بعدرکاوٹ پیدا ہوجائے یہاں تک کہ ایام نحر گزر جائیں ،تو مُحرِم پروقوفِ مزدلفہ کے ترک ،رمی کے ترک اور طواف زیارت کے ایام نحر سے تاخیر پرتین دم واجب ہوں گے۔

حجِ قِران اور حجِ تمتُّع میں مُحرِم پر شکرانے کا جو دَم واجب ہے اور کفارے کے سبب جو قربانی واجب ہوتی ہے ،اُن کا حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہے ، یہ دَم جب تک حدودِ حرم میں ذبح نہیں ہوں گے ،اُس وقت تک کفارہ ادا نہیں ہوگا۔حجِ تمتُّع اور حجِ قِران کا دمِ تشکُّر ایامِ نحر میں کرنا ضروری ہے ،اگر ایامِ نحر سے تاخیر کی تو اِس پر دوسرا دَم بھی واجب ہوجائے گا۔

اِحصار کی صورت میں بھی محرم قربانی بھیجے گا اور اُس کے بعد احرام کے احکام سے باہر ہوگا۔اگر مُحرِم کے لیے حج میں وقوفِ عرفہ اور طوافِ زیارت سے اور عمرے میں طواف سے خطرات مانع ہوں ،تو اِسے اِحْصَار کہتے ہیں اور ایسے شخص کو مُحْصَر کہتے ہیں،جیسے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کو کفارِ مکہ نے 6ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر روک لیا تھا اور طوافِ بیت اللہ کی اجازت نہیں دی تھی، لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام سے فرمایا: تم اپنے ساتھ لائے ہوئے جانور یہیں ذبح کردو، الغرض صلح کے بعد مسلمان اُس سال واپس چلے گئے تھے اور اگلے سال اُس عمرے کی قضا کی گئی۔

حج افراد میں جمرہ عقبہ کی رمی اور حلق میں ترتیب واجب ہے ،اگر کسی شخص نے رمی سے پہلے حلق یاقصر کرلیا تو دم واجب ہے ۔ حج تمتع اور قران میں دس ذی الحج کے دن پہلے جمرہ عقبہ کی رمی ،پھر قربانی اور پھر حلق یا قصر ہے ،یہ ترتیب امام اعظم کے نزدیک واجب ہے اور خلاف ترتیب عمل کرنے پر دم واجب ہے ،جب کہ صاحبین کے نزدیک مذکورہ امور میں ترتیب سنت ہے اور خلاف کرنے پر کوئی کفارہ نہیں ۔امام ابن ہمام کی تحقیق کے مطابق ترتیب میں تقدیم و تاخیر کی متعدد صورتوں میں ایک ہی دم واجب ہوگا۔

احرام میں پوری داڑھی یا چوتھائی یا اُس سے زیادہ حصے کوعذر کے بغیر منڈانے،کتروانے یا جلانے پر دم واجب ہے اور اگر عذر کے سبب ہوتو دم یاصدقہ یا روزے میں اختیار ہے، چاہے تو دم دے یا تین روزے رکھے یا چھ صدقاتِ فطر کی مقدار صدقہ دے۔بغل کے بال یا زیر ناف بال ہٹانے پر دم واجب ہے۔

مُحرِم نے دوسرے مُحرم کا سر مونڈا، اس پر بھی صدقہ ہے، خواہ اُس نے اسے حکم دیا ہو یا نہیں، خوشی سے مونڈا یا ہو یا مجبور ہوکر اور غیر محرم کا مونڈا تو کچھ خیرات کردے۔غیر مُحرِم نے مُحرِم کا سر مونڈا ،اس کے حکم سے یا بلا حکم تو مُحرِم پر کفارہ ہے اور مونڈنے والے پر صدقہ اور وہ مُحرِم اس مونڈنے والے سے اپنے کفارے کا تاوان نہیں لے سکتا اور اگر مُحرِم نے غیر کی مونچھیں لیں یا ناخن تراشے تو مساکین کو کچھ صدقہ کھلادے۔ دونوں ہاتھوں، دونوں پیروں یا ایک ہاتھ یا ایک پیرکے تمام ناخن حالتِ احرام میں ایک مجلس میں کاٹے جائیں تو ایک دم واجب ہے۔

تین دنوں کی رمی کے ترک پر یا ایک دن کی پوری رمی کے ترک پر اور کل دنوں کی اکثر رمی کے ترک پر بھی دم واجب ہے۔ امام اعظم کے نزدیک کسی ایک دن کی کل کنکریاں یا اکثر کو ترک کر کے دوسرے دن تک موخر کرنے کی صورت میں ایک دم واجب ہے اور اگر یہ کسی آسمانی عذر کی وجہ سے ہو تو پھر نہ دم واجب ہے اور نہ صدقہ ۔امام اعظم کے نزدیک ایک دن کی کل کنکریاں دوسرے دن زوال سے پہلے قضا کرنا لازم ہے اور تاخیر پر دم واجب ہے ،مگر امام ابویوسف اور امام محمد کے نزدیک صرف قضا واجب ہے۔

طوافِ زیارت یا عمرہ کے سوا دوسرے طواف کے تین یاتین سے کم چکر چھوٹ جائیں توہرچکر کے بدلے ایک صدقہ واجب ہے ۔سعی کے تین یا کم چکرچھوڑدیے تو ہر چکر کے بدلہ میں صدقہ ہے اور اگر عذر کی وجہ سے سعی ترک کردی تودم یا صدقہ واجب نہیں ہے ،اگر کسی نے عذر کے بغیر سعی کے تین یا کم چکر سواری یا چارپائی یا وِیل چیر پر ادا کیے تو اس پر صدقہ ہے۔ مُحرم کو ایک جوں مارنے یا پھینکنے میں روٹی کا ٹکڑا صدقہ کرنا واجب ہے ،دو میں مٹھی بھر گندم اور تین میں ایک صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا واجب ہے ۔

خوشبو سونگھنے پر کوئی کفارہ نہیں ہے،البتہ مکروہ ہے۔کپڑوں پر نجاست کی صورت میں طواف مکروہ ہے ،لیکن اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔طواف میں نقصان پائے جانے کی صورت میں اگر اُس کا اعادہ صحیح طریقے پر کیا جائے تو پھر کوئی کفارہ نہیں۔نفلی طواف میں اگر کشفِ ستر ہوجائے تو کوئی کفارہ نہیں،معذور کے لیے سعی ترک کرنے اور غیر معذور کے لیے سعی میں تاخیر پر کوئی کفارہ نہیںہے۔سر اور چہرے کے علاوہ بدن کے دوسرے حصے پر پٹی باندھنے یا چھتری سے سایا کرنے یاناخن خود کٹ جانے کی صورت میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔

کسی موذی جانور نے مُحرم پر حملہ کیا اور اُس نے اُسے مارڈالا تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔اسی طرح بھیڑیا، کٹکھناکتے ، کوے ، سانپ ،بچھو، چوہا،کاٹنے والی چیونٹی ،مچھر ،مکھی ،بھِڑ وغیرہ کے قتل پر کوئی کفارہ نہیںہے۔ حدودِ حرم میں جوخودرو (یعنی بویا نہیں گیا،نہ اس قسم سے ہے جسے لوگ بوتے ہیں )تر گھاس ، پودے اور درختوں (جیسے ببول وغیرہ )کے کاٹنے پر کفارہ ہے یعنی اُس کی قیمت کے برابر مساکین پر صدقہ کرے اور خشک ہوجانے والے پودوں، درختوں ، کاشت کردہ گھاس ،درختوں اور اِذخَرگھاس کاٹنے پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔

عام طور پر پوچھا جاتا ہے : جو شخص کسی بھی سبب سے حج کے موسم (شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ) میں حرم میں پہنچ گیا تو کیااس پر حج فرض ہو جائے گا اور حج فرض ادا نہ کیا تو گنہگار ہو گا ۔ اب پاکستان سے لوگ رمضان المبارک میں عمرے کے لیے جاتے ہیں اوربعض اوقات فلائٹ میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے انہیں شوال کے ابتدائی دنوں تک مجبوراً رکنا پڑ تا ہے،بلکہ اب خود سعودی حکومت شوال کے مہینے میں عمرے کے ویزے جاری کرتی ہے۔ پس کیااس صورت میں ان پر حج فرض ہو جائے گا اور نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے ، حالانکہ اُن کے پاس حج تک قیام وطعام کے لیے پیسے نہیں ہوتے ، مزید یہ کہ سعودی حکومت کے نزدیک ان کا قیام غیر قانونی ہوتا ہے اور قانون کی گرفت میں آنے کی صورت میں انہیں سزا ہو سکتی ہے یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں لوگ غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ وہ واپس اپنے وطن چلے آئیں ، اُن پر حج فرض نہیں ہوا اور حج اد اکیے بغیر واپس آنے کی صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوں گے،کیونکہ حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے اور ایامِ حج تک رکنے اور مصارفِ حج ادا کرنے کی ان کے پاس استطاعت ہی نہیں ہے اور اگر اُن کے پاس تکمیلِ حج تک سعودی عرب میں قیام اور دیگر مصارفِ حج کی استطاعت تو ہے، لیکن سعودی حکومت ان دنوں میں وہاں قیام کی اجازت نہیں دیتی، تو غیر قانونی طور رکنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ جب ہم کسی ملک کا ویزا لے کر جاتے ہیں تو اس کے ضمن میں اُس ملک کے قوانین کی پابندی کا عہد بھی شامل ہوتاہے اور قانون شکنی کی صورت میں سزا یابے توقیری کے ساتھ ملک بدری کی نوبت بھی آسکتی ہے ،لہٰذایہ شرعاً ناجائز ہے ، رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے : ’’مومن کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے ، صحابہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) کوئی شخص اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرتاہے، آپ ﷺنے فرمایا : وہ اپنے آپ کو ایسی صورتِ حال سے دوچارکرے کہ جس سے عہدہ برا ہونے کی وہ طاقت نہیں رکھتا ، (اورانجامِ کار اسے ذلت کا سامنا کرناپڑتاہے)، (سنن ترمذی : 2254)‘‘۔الغرض مومن کے لیے عزتِ نفس اور اپنے شخصی وقار کا تحفظ ضروری ہے ۔