اسلام آباد: وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہم سے خوش نہیں ہے، حکومت کو مزید مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔
اسلام آباد میں وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا اور چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اقتصادی ٹیم کا بجٹ سازی میں بھرپور محنت اور کردار پر شکر گزار ہوں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی کارکردگی کی وجہ سے ان کی تنخواہوں میں 15 فی صد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ پاکستان اس وقت مشکل وقت میں کھڑا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے مشکل وقت میں بجٹ دیا ہے۔ 500ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ دیا ۔ 1100ارب روپے بجلی کی مد میں سبسڈی دی، یعنی 16 روپے فی یونٹ بجلی پر سبسڈی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اتنا معاشی مشکل وقت نہیں دیکھا جتنا آج دیکھ رہاہوں۔
وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ گیس اور پاور سیکٹر کی سبسڈی ختم کی ہے۔ وفاقی بجٹ میں 459 ارب روپے خسارے کا سامناہے۔ بجلی کی قیمتوں کو متعین کرنے کا نظام خراب ہے، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوش میں نقائص ہیں، اگر انہیں درست نہ کیا تو ملک کو لے ڈوبے گا۔ ملکی معیشت اتنا بڑا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ گیس میں 1400 ارب روپے کا سرکلر ڈیبٹ کردیا۔ 20 ڈالر کی ایل این جی منگوا کر 2 ڈالر میں فروخت کرکے نقصان کیا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کسی کی فیکٹری کو بند نہیں کریں گے۔ اگر پچھلی حکومت نے کسی کے ساتھ سستی گیس فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے تو ہم انہیں گیس دیں گے۔ ایس ایس جی میں یو ایف جی 20 فیصد ہے، اسکا ہمیں یہ بھی نہیں معلوم نہیں کہ یہ گیس چوری ہورہی ہے یا ہوا میں اڑ رہی ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ ملک کو انتظامی لحاظ سے ٹھیک کرنا پڑے گا۔ ہم 90 میں بنگلا دیش سے آگے تھے، کیا وجہ ہے کہ ہم اس نہج پر آگئے ہیں۔ اگر سری لنکا جیسی حالت ہوئی تو لوگ معاف نہیں کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ عوام کا ساتھ چاہتا ہوں، پٹرول مہنگا کر کے گھر پیسے نہیں لے جارہے۔ گیس اور پاور سیکٹر کی سبسڈی ختم کی ہے، اخراجات صرف 3 فیصد بڑھ رہے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان نے پورے ملک کے ساتھ ٹوپی گھمائی ہے۔ عمران خان کے دور میں تاریخی معاشی خسارہ ہوا۔ آئی ایم ایف خوش نہیں ہے، لیکن ہم ان سے بات کریں گے۔ اس وقت حکومت کے پاس مشکل فیصلوں کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ اسی لیے حکومت نے مشکل فیصلے لیے اور مزید بھی ضروری ہوئے تو مشکل فیصلے لیں گے۔ بجٹ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مالیاتی پالیسی میں کچھ سختی آئے گی۔ ہم ملکی وسائل کا پانچ فیصد بھی استعمال نہیں کرپارہے ہیں۔ تاجروں کیلئے فکسڈ ٹیکس اسکیم لائے ہیں۔ پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین ایف بی آر عاصم احمد نے کہا کہ 25 لاکھ تاجروں کو اس اسکیم میں لائیں گے۔
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ مشکل فیصلوں کا مقصد ملک کو بحران سے نکالنا ہے۔ کوشش ہے کہ عوام پر کم سےکم اثر پڑے۔ پسماندہ طبقے کی سوشل سیفی نیٹ پروگرام کے لیے فنڈز بڑھائے ہیں۔ زرعی شعبے کو مراعات دی ہیں، اس کا بھی بنیادی مقصد مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ مقامی سطح پر اشیا پیدا کی جاسکیں۔
وزیر خزانہ نے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 25ہزار دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کریں گے۔ دکانداروں پر معمولی ٹیکس عائد کررہے ہیں۔ جو چیزیں رہ گئی ہیں وہ بجٹ میں شامل کریں گے۔ بجٹ میں آئندہ 15دن میں کچھ چھوٹی تبدیلیاں ہوں گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ نہیں لگتا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوں گی۔ پی ڈی ایل کا ٹیکس لگے گا تو مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ پٹرول مہنگا ہوگا تو پیسے قوم پر ہی خرچ ہوں گے۔ فوج کا بجٹ بھی تحریری طور پر موجود ہے، کوئی چیز چھپا نہیں رہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ امیر لوگوں کا حصہ ملک کو مشکل سے نکالنے میں استعمال کریں۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ کمپنیوں کو نجکاری کی طرف لے جانا وزیراعظم کا عز م ہے۔ نجکاری کمیشن کی جانب سے جن کمپنیوں کو ریڈی فار سیل رکھا گیا وہ کام مکمل ہوگا۔ ای او بی آئی کے معاملے کو ابھی دیکھا نہیں بعد میں دیکھیں گے۔
تبصرہ لکھیے