ہوم << وسطِ ایشیا، قتیبہ کے بعد - فہد کیہر

وسطِ ایشیا، قتیبہ کے بعد - فہد کیہر

قتیبہ بن مسلم کی المناک موت نے جہاں وسطِ ایشیا میں اسلام کے بڑھتے قدموں کو روکا، وہیں خطے میں مسلمانوں کا رعب و دبدبہ بھی ختم کر دیا۔ ایک واقعے سے اندازہ لگائیں جو 739ء میں، یعنی قتیبہ کی موت کے 24 سال بعد پیش آیا۔ خراسان کا نیا والی نصر ابن سیّار شاش اور فرغانہ کی مہم میں ایک قلعہ سر کرنے کی کوشش میں تھا۔ معاملات صلح تک پہنچے تو قلعے کے نوجوان سردار کے ساتھ اُس کی ماں بھی مذاکرات کی میز پر آئی۔ اس جہاندیدہ عورت نے جب مسلم وفد میں قتیبہ کے بیٹے کو دیکھا تو خاموش نہ رہ سکی، بول اُٹھی

"اِس خطے میں تمہاری حکومت قتیبہ نے مضبوط کی، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، لیکن آج تم نے اُس کے بیٹے کو خود سے نیچے بٹھایا ہوا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اِسے تمہاری جگہ پر اور تمہیں اس کی جگہ پر ہونا چاہیے تھا۔"

یہ وہ تاثر تھا جو قتیبہ کی موت کے دہائیوں بعد بھی خطے میں موجود تھا اور یہی وجہ ہے کہ اُس کی موت کے بعد یہاں کے حالات کبھی پہلے جیسے نہ رہ سکے۔ البتہ گھٹاٹوپ اندھیروں میں ایک روشن دَور حضرت عمر بن عبد العزیز کا ضرور آیا۔ وہ ‏717ء میں خلیفہ بنے، لیکن جس طرح برصغیر میں اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغل اقتدار ڈولنے لگا تھا، بالکل اسی طرح عمر بن عبد العزیز کی اچانک وفات کے بعد ہر گزرتا سال بنو امیہ کے زوال کی نئی داستان رقم کرتا گیا۔

شرمناک فیصلے، بھیانک انجام

حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور کا سونے کا دینار

حضرت عمر بن عبد العزیز کی آمد سے قبل حال یہ تھا کہ اموی حکومت نو مسلموں سے بھی جزیہ لیتی تھی۔ جزیہ ایک ایسا ٹیکس تھا جو اسلامی حکومت صرف غیر مسلموں سے لینے کی مجاز تھی، جس کے بدلے میں انہیں فوجی خدمات سے استثنا مل جاتا تھا۔ بنو امیہ کے دور میں جزیہ حکومت کی آمدنی کا اہم ذریعہ بن چکا تھا، خاص طور پر وسطِ ایشیا میں کہ جہاں غیر مسلم اکثریت میں تھے۔ یہاں حکومت محض اپنا خزانہ بھرنے کے لیے تبدیلی مذہب کی حوصلہ شکنی کرتی تھی۔ حضرت عمرِ ثانی نے آتے ہی اِس کریہہ عمل کا خاتمہ کیا لیکن اُن کے جاتے ہی ایک مرتبہ پھر نو مسلموں پر جزیہ لگا دیا گیا۔

اس فیصلے سے پوری اسلامی دنیا میں بے چینی تو پیدا ہوئی، لیکن سخت ترین ردِ عمل آیا وسطِ ایشیا میں۔ ایک وجہ تو مسلمانوں کا یہاں اقلیت میں ہونا تھا، دوسری وجہ یہ کہ یہ علاقے بنو امیہ کے مرکز شام سے کہیں دُور تھے۔ اس لیے جب سمرقند و بخارا کے عوام بھڑکے تو بڑی بغاوتوں نے جنم لیا۔

ویسے ایک دَور وہ بھی تھا کہ بخارا کی جامع مسجد میں نماز پڑھنے والوں کو قتیبہ بن مسلم کی جانب سے دو درہم ملتے تھے اور کہاں یہ حال ہو گیا کہ جزیے جیسا ٹیکس مسلمانوں سے لیا جا رہا تھا۔

بہرحال، جب حالات قابو سے باہر ہو گئے تو عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے والی خراسان اشرس بن عبد اللہ السلمی نے 728ء میں نو مسلموں پر جزیے کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد تو اتنے لوگ مسلمان ہوئے کہ جزیہ دینے والا کوئی نہ بچا تھا۔ صورت حال دیکھ کر حکومت کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ اب وہ حیلے بہانوں سے جزیہ لینے کی کوشش کرنے لگی، مثلاً پہلے کہا گیا کہ جزیہ تب معاف ہوگا، جب نو مسلم ختنہ بھی کروائے گا ۔ پھر یہ حکم دیا گیا کہ جسے قرآن مجید کا ایک خاص حصہ یاد نہیں ہوگا، اُس سے بھی جزیہ لیا جائے گا۔

ایک طرف بنو امیہ کے مقرر کیے گئے والیوں، سرداروں اور حاکموں کی باہمی چپقلش ، پھر ایسے بھیانک فیصلے اور چند دیگر واقعات جنہوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا، یہاں تک کہ کئی شہر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئے۔

سن 728ء تک سوائے سمرقند کے وادئ زرفشاں میں کوئی ایسا شہر نہیں بچا تھا، جو مسلمانوں کی گرفت میں ہو۔  مقامی آبادی تو ایک طرف خود عربوں میں بھی بے یقینی پائی جاتی تھی۔ حکومت کا تمام تر انحصار اشرافیہ پر تھا، اس لیے عام عرب آبادی بھی اُن سے بیزار ہو گئی۔ یہ حالات عموماً بنو امیہ کے تمام علاقوں میں تھے، لیکن خراسان اور ماورا النہر میں اس کی شدت بہت زیادہ تھی۔ یہاں نچلا طبقہ تو ایک طرف خود مقامی اشرافیہ میں آپس میں عداوتیں تھی۔

صورت حال سنگین تر

بہرحال، قتیبہ کے حریف یزید بن مہلب کو ایک مرتبہ پھر ماورا النہر بھیجا گیا، جس نے اموی اقتدار دوبارہ قائم کیا لیکن جو بیج بویا جا چکا تھا، اس نے بالآخر برگ و بار دکھانے تھے۔ خطے میں اموی حکومت کے مشکل دن شروع ہو چکے تھے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ 733ء میں آنے والے قحط سے پوری ہو گئی۔ اس قحط کی وجہ یہ تھی کہ وادئ زرفشاں عربوں کے ہاتھ سے نکل چکی تھی، وہ علاقہ جہاں خطے میں سب سے زیادہ اناج اُگتا تھا۔

یزید مشہور فاتح تھا، اس نے کئی علاقے واپس لیے لیکن اس کی فتوحات ایک بار پھر دیرپا ثابت نہیں ہوئیں۔ بگڑتے ہوئے حالات میں سن 734ء میں عرب آبادی میں ہی بغاوت پھوٹ گئی، جسے بظاہر دبا تو دیا گیا لیکن حالات کی سنگینی تو دیکھتے ہوئے نئے والی اسد بن عبد اللہ نے دارالحکومت مرو سے بلخ منتقل کر دیا تاکہ سازشوں کے گڑھ سے دُور ہو جائے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت وسطِ ایشیا میں حالات کیا تھے۔

نصر ابن سیّار کی آمد

جب حالات اس نہج تک پہنچ گئے تو خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے 738ء میں نصر ابن سیار کو خراسان کا والی بنا کر بھیجا۔ یہ ایک انوکھا فیصلہ تھا، بہت مختلف فیصلہ۔ اس سے پہلے عموماً خراسان و ماورا النہر کے لیے کوئی بھی والی عرب علاقوں سے بھیجا جاتا تھا۔ لیکن پہلی مرتبہ ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا جو وسطِ ایشیا کو بخوبی جانتا تھا اور 30 سال اس خطے میں مقیم تھا۔

نصر ابن سیار قتیبہ بن مسلم کی فتوحات میں پیش پیش تھا اور یہاں کے چپّے چپّے سے واقف تھا، یہاں کی سیاسی و ثقافتی زندگی کو بخوبی جانتا تھا۔ پھر قتیبہ کی طرح اُس کا تعلق بھی ایک چھوٹے سے قبیلے سے تھا، جس کا عرب قبائل کی باہمی کشمکش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

سونے کا نوالہ بھی، شیر کی نگاہ بھی

نصر کا انداز قتیبہ سے بالکل مختلف تھا۔ قتیبہ سخت تھا، وہ حکومت کی رِٹ قائم کرنے کے لیے کسی بھی قدم تک جا سکتا تھا۔ لیکن نصر ابن سیار نے جابرانہ طریقوں کے بجائے صلح جوئی کو اپنایا۔ محصولات یعنی ٹیکس کے نظام کو معتدل بنایا، مقامی اشرافیہ سے قریبی تعلقات رکھے یہاں تک کہ خانِ بخارا کی بیٹی سے شادی بھی کر لی۔ یوں عرب اشرافیہ اور مقامی اشرافیہ میں رشتہ داریاں تک قائم ہو گئیں۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ نصر نے محض شیر کی نگاہ کافی نہیں سمجھی، بلکہ سونے کا نوالہ بھی دیا۔ یہ پالیسی مختصر مدت میں تو کامیاب ٹھیری کیونکہ اُس زمانے کا ذکر تاریخ میں ذرا کم ملتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں امن قائم ہو چکا تھا۔ اسلام بھی خوب پھلا پھولا، کئی مقامی سرداروں نے اسلام قبول کر لیا، بخارا کے حاکم نے بھی اور بلخ کے برمکی خاندان نے بھی، جس نے بعد میں عالمگیر شہرت حاصل کی۔

لیکن یہ سب طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔ 740ء کی دہائی میں خراسان میں ایک نئی طاقت جنم لے چکی تھی۔ بنو امیہ کے خلاف بنو عباس کی جدوجہد، جو اب تک زیرِ زمین تھی، اب کھل کر سامنے آ چکی تھی۔ خراسان میں اِس تحریک کا روح رواں تھا ابو مسلم خراسانی، جس نے چند ہی سالوں میں نہ صرف خراسان بلکہ پوری عرب دنیا سے ہی بنو امیہ کا خاتمہ کر دیا۔

Comments

Avatar photo

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment