ہوم << افغان باقی، کُہسار باقی – فہد کیہر

افغان باقی، کُہسار باقی – فہد کیہر

وسطِ ایشیا کی تاریخ کے سلسلے میں ہم نے اب تک جن علاقوں کا ذکر کیا ہے، انہیں وسطِ ایشیا کا مرکزی علاقہ کہہ سکتے ہیں، وہ خطہ جو کبھی سوویت یونین کے شکنجے میں رہا اور اپنے مرکز سے کہیں دُور نکل گیا۔ لیکن عالمی سطح پر وسطِ ایشیا کی جو اصطلاح رائج ہے اس میں افغانستان بھی شامل ہے۔ آسان الفاظ میں سمجھیں تو ایشیا کے مرکز میں واقع وہ تمام ممالک جو landlocked ہیں، یعنی ان کی سرحد کسی سمندر سے نہیں ملتی، وہ وسطِ ایشیا ہیں۔ جغرافیائی تناظر سے ہٹ کر دیکھیں تو تاریخی لحاظ سے اِس میں چینی ترکستان (موجودہ سنکیانگ) اور روس کے وہ علاقے بھی شامل ہوں گے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہ تاریخی بلکہ ثقافتی لحاظ سے بھی وسطِ ایشیا سے جڑے ہوئے ہیں، مثلاً روس کا علاقہ تاتارستان۔

اب تک ہم ازبکستان، ترکمنستان، قزاقستان، قرغزستان اور تاجکستان کے حوالے سے بات کر چکے ہیں اور اب رخ کرتے ہیں اس علاقے کا جو تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک کئی عظیم تہذیبوں کے درمیان واقع ایک ایسا ملک ہے جسے کسی کروٹ چَین نصیب نہیں ہوا۔ اس سرزمین پر کوروشِ اعظم (خسرو یا سائرس) نے قدم رکھے، دارا و سکندر آئے، کچھ فاتح ٹھیرے، کچھ بے مراد لوٹے، لیکن اِس خطے نے کبھی قرار نہیں پایا اور نہ یہاں کے باسیوں نے کبھی سکھ کا سانس لیا۔ ہم بات کر رہے ہیں افغانستان کی۔

آج دنیا بھر میں افغانستان کی شہرت ایک سخت گیر مسلم ملک کی حیثیت سے ہے، لیکن حیران کُن طور پر افغانوں نے اسلام کو بہت دیر سے قبول کیا۔ حالانکہ اسلام ساتویں صدی کے وسط میں ہی ہرات تک پہنچ گیا تھا اور پھر قتیبہ بن مسلم کی فتوحات کے ساتھ آٹھویں صدی کے آغاز میں بلخ بھی فتح ہو گیا تھا۔ وہ شہر جسے عرب "ام البلاد" یعنی شہروں کی ماں کہتے تھے لیکن ملک کا مشرقی حصہ اپنے دشوار گزار پہاڑی علاقوں اور ہندوستان سے اپنی روایتی قربت کی وجہ سے اتنی آسانی سے مسلم اقتدار کا حصہ نہیں بنا، یہاں تک کہ صدیاں گزر گئیں۔

لیکن اس تذکرے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ افغانستان کیا ہے؟ اور افغان کون ہیں؟

افغانستان کو ہم چار اہم شہروں کے درمیان ایک مستطیل میں واقع علاقہ قرار دے سکتے ہیں۔ مغرب میں ایک ہرات، ایک زرخیز وادی میں واقع شہر جو ایران کی سرحد کے بہت قریب ہے۔ پھر جنوب میں قندھار ہے، پاکستان کے شہر کوئٹہ سے قربت رکھنے والا یہ شہر موجودہ حکمران طالبان کا گڑھ ہے۔ مشرق میں کابل ہے، دارالحکومت اور بذریعہ جلال آباد پاکستان کے شہر پشاور سے ملا ہوا وہ شہر افغانستان کا مرکز و محور ہے۔ اس شہر کے بغیر افغانستان پر اقتدار پانا محض خام خیالی ہے۔

پھر شمال میں مزارِ شریف کا شہر ہے، جو ہندو کش کے پہاڑی درّوں کے پار واقع ہے۔ اس کے مغرب میں بلخ واقع ہے۔ وہ شہر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زرتشت یہاں پیدا ہوئے، یہ بھی کہ سکندر اعظم کی رخسانہ کے ساتھ مشہورِ زمانہ شادی اسی شہر میں ہوئی تھی، لیکن یہی وہ شہر بھی تھا جسے چنگیز خان نے نیست و نابود کیا۔ آج کا بلخ ماضی کے عظیم شہر کی محض ایک پرچھائیں ہے۔

سکندر اور رخسانہ کی شادی جو بلخ میں ہوئی

تو ہرات، قندھار، کابل اور مزارِ شریف کو لکیر سے ملائیں تو افغانستان کا قلب بنتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ جدید افغانستان کا قیام صرف ایک صدی پہلے ہی ہوا ہے۔ اس سے پہلے تاریخ میں نام افغانستان یا افغان کا ذکر شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔ تیسری صدی کی فارسی تحاریر میں لفظ افغان ضرور پایا جاتا ہے، لیکن یہ ذکر اچھے معنوں میں نہیں ہے۔ قدیم فارسی میں افغان کا سادہ مطلب تھا فسادی اور سرکش۔ یہی وجہ ہے کہ ماؤنٹ اسٹورٹ الفنسٹن نے 1809ء میں اپنے سفرِ افغانستان کے بارے میں لکھا تھا کہ یہاں کے لوگ اپنی سرزمین کو افغانستان نہیں کہتے، البتہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں ان کے وطن کو افغانستان کہا جاتا ہے۔

افغانستان بنا کیسے؟

دوسرے کئی ملکوں کی طرح افغانستان کی موجودہ شکل و صورت بھی دراصل یورپ کی قابض طاقتوں نے بنائی، اس لیے تاکہ ہندوستان وسطِ ایشیا میں روس کے بڑھتے ہوئے قدموں سے محفوظ رہے، وہی ہندوستان جو اُس وقت برطانیہ کے قبضے میں تھا بلکہ تاجِ برطانیہ کا نگینہ تھا۔ یعنی وہ روس کے خلاف ایک 'بفر اسٹیٹ' بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے شمال میں آمو دریا کو افغانستان کی سرحد قرار دیا گیا اور مغرب میں ہری رُود کو۔

جنوب میں تو سرحد کا کوئی چکر ہی نہیں تھا، کیونکہ موجودہ پاکستانی بلوچستان کے ساتھ واقع پورا علاقہ انتہائی خطرناک صحرا پر مشتمل ہے۔ یہاں سے کسی فوج کا گزر ممکن ہی نہیں، اس لیے یہاں سے روس کی آمد کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔

ڈیورنڈ لائن

باقی رہ گیا مشرقی علاقہ، جہاں بنائی گئی سرحد آج بھی پاکستان کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔ سرحد کھینچنے کا کام برطانیہ نے سر مورٹیمر ڈیورنڈ کو دیا تھا، جنہوں نے پشتون آبادی کے درمیان سے ایک سرحد بنا ڈالی کیونکہ ان کا مقصد صرف ایک تھا: برطانیہ کے مقبوضات کو دفاعی لحاظ سے مضبوط تر کرنا۔ اسی سرحد کو آج پاک-افغان بارڈر یا دوسرے الفاظ میں ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں۔ دنیا کی خطرناک ترین سرحد، دنیا کا کوئی ملک نہیں چاہے گا کہ وہ اپنے کسی پڑوسی کے ساتھ ایسی سرحد رکھتا ہو۔

یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ یہ سرحد تب بنائی گئی تھی جب نہ مورٹیمر ڈیورنڈ کے ذہن میں تھا اور نہ کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب برطانیہ کو ہندوستان چھوڑنا پڑے گا۔ ریاستِ پاکستان کا تو ابھی تصوّر تک موجود نہیں تھا۔

بہرحال، جو افغانستان بنا وہ کئی قوموں کا مسکن تھا۔ ہندوکش کے شمال میں ازبک، تاجک اور ترکمن تھے تو جنوب میں ہزارہ اور پشتون۔ پشتون ملک کا سب سے بڑا لسانی گروہ ہے، جو آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہے۔

پشتون، بنی اسرائیل کی اولاد؟

ایک غلط فہمی جو عام پائی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ پشتون بنی اسرائیل کے 10 گمشدہ قبائل میں سے ایک کی نسل سے ہیں۔ لیکن یہ بات کبھی ثابت نہیں ہو سکی۔ تو افغان ہیں کون؟ اس حوالے سے دورِ جدید کے مورخین کے دو نظریات ہیں، تو انہیں وسط ایشیا کی ساکا قوم (Scythians) کی نسل کہتے ہیں۔ جب ساکا قوم کو وسطِ ایشیا سے نکالا گیا تو انہوں نے جنوب میں ہندوکش کے مختلف علاقوں میں پناہ لے لی تھی اور بعد میں اُن تمام علاقوں تک پھیل گئے، جو آج 'پشتون بیلٹ' کہلاتے ہیں۔

لسانی ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ پشتو بالکل ویسی ہی زبان ہے جو قدیم فارسی اور ہندوستانی بولیوں کے اثر و رسوخ سے بننی چاہیے۔ پھر پشتونوں میں جو زبردست جنگجویانہ کلچر پایا جاتا ہے، وہ بھی بنی اسرائیل کے بجائے ساکا قوم سے تعلق بتاتا ہے۔ یہ ساکام قوم ہی تھی جس نے فارس کے عظیم بادشاہ کوروشِ اعظم کو سیر دریا کے کنارے شکست دی تھی اور انہیں  قتل کر دیا تھا۔ تو کئی ماہرین کے خیال میں انہی کی اولادیں بعد میں افغان کہلائیں۔

پھر ایک نظریہ یہ ہے کہ پشتون دراصل سفید ہُنوں یعنی Hephthalites کی اولاد ہیں۔ بہرحال، آج اِس جدید دور میں افغان کا مطلب ہے وہ جو شخص افغانستان میں رہتا ہے، اب چاہے وہ پشتون ہو، ترک بھی چاہے ازبک، تاجک، یا ترکمن ہوں یا ان کے علاوہ ہزارہ، نورستانی، براہوی و دیگر۔

افغانستان میں اسلام کی آمد

پچھلی قسطوں میں ہم جن اقوام کا ذکر ہم کر چکے ہیں، اُن کے بعد بالآخر مسلمانوں کے قدم بھی اِن علاقوں تک پہنچے جو آج افغانستان کا حصہ ہیں۔ مسلمانوں سے سب سے پہلے ہرات، بلخ اور قندھار میں قدم جمائے۔ ویسے قندھار سے ایک لشکر نے کابل کا بھی رخ کیا تھا، جہاں اُس وقت ہندو شاہی خاندان حکمران تھا لیکن ان کی حکومت برقرار رہی اور عربوں نے صرف خراج پر ہی اکتفا کیا۔

افغانوں کے بارے میں ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ وہ اسلام کے معاملے میں بہت سخت گیر ہیں اور اسی لیے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ انہوں تو اسلام کی آمد پر سب سے پہلے لبیک کہا ہوگا، لیکن اس کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ افغانستان کے علاقوں میں عربوں کا اثر زیادہ تر میدانی علاقوں اور بڑے شہروں تک ہی رہا۔ پہاڑی علاقوں میں تب بھی زرتشت، بدھ اور شامانی مذاہب عام تھے۔

سامانی سلطنت

وقت بدلتا رہا، حالات کروٹ لیتے رہے، یہاں تک کہ خاندانِ بنو امیہ کو زوال آ گیا اور ان کی جگہ بنو عباس نے اقتدار سنبھالا۔ ایک طویل دور گزرنے کے بعد بالآخر وسطِ ایشیا پر اَن کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ تب ایک نیا ترک خاندان ابھرا، جسے سامانی خاندان کہتے ہیں۔ انہوں نے بخارا کو اپنا دارالحکومت بنایا اور وہاں سے ان کی سلطنت پھیلتی ہی چلی گئی۔

سامانیوں کی حکومت میں ماورا النہر کے علاوہ موجود افغانستان اور خراسان کا بڑا علاقہ بھی شامل تھا اور انہی کی حکومت میں علاقے میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا۔ یہ علم و ادب کے بھی بڑے سرپرست تھے۔ مشہور فلسفی بو علی سینا بھی سامانی دربار سے منسلک رہے۔ اسی دور سے وسطِ ایشیا علم و ادب کا مرکز بننا شروع ہو گیا اور پھر منگولوں کے حملوں تک اسے پوری اسلامی دنیا میں سب سے نمایاں اور امتیازی حیثیت حاصل رہی۔

بہرحال، سامانیوں کے بارے میں تو بعد میں بات کریں گے، فی الحال اس سوال پر نظر رکھتے ہیں کہ افغانستان کے علاقوں میں اسلام کیسے پہنچا؟ دراصل سامانیوں کے خلاف 977ء میں ایک بغاوت نے جنم لیا جو نیشاپور سے اٹھی لیکن کچل دی گئی۔ اس بغاوت میں پیش پیش ایک ترک غلام الپ تگین تھے، جو ناکامی کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہندوکش کے جنوب میں واقع علاقوں کی طرف نکل گئے اور پھر غزنی کو اپنا مرکز بنا لیا۔

دولتِ غزنویہ

پھر انہی علاقوں میں ایک عظیم سلطنت نے جنم لیا، جسے دنیا دولتِ غزنویہ کے نام سے جانتی ہے۔ ابتدائی عربوں اور سامانیوں کے مقابلے میں یہ غزنوی اسلام کے زبردست پیروکار تھے اور جلد ہی انہوں نے اپنے اقتدار کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی پورے افغانستان میں پھیلا دیا۔ سامانیوں کا دورِ زوال آیا تو غزنویوں کے بڑھتے قدم آمو دریا تک جا پہنچے اور جلد ہی خراسان کے پار بحیرۂ ارال کے دامن سے مکران کے ساحلوں اور اصفہان تک غزنوی حکومت کا بول بالا تھا۔

پھر سن 998ء میں غزنی سلطنت کی حکمرانی محمود کے پاس آئی، وہ محمود جو 'بُت فروش' نہیں بلکہ 'بُت شکن' بنا، جس کے ہندوستان پر 17 حملوں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

Comments

فہد کیہر

فہد کیہر تاریخ کے ایک طالب علم ہیں۔ اردو ویکی پیڈیا پر منتظم کی حیثیت سے تاریخ کے موضوع پر سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں۔ ترک تاریخ میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ ٹوئٹر: @fkehar

Click here to post a comment