ہوم << امریکی سازش والی سرکار ! محمد عرفان ندیم

امریکی سازش والی سرکار ! محمد عرفان ندیم

28جون1914 کو سربیا کے ایک نوجوان نے آسٹریا کے ولی عہد فرانسس فرڈیننڈ کو قتل کر دیا اور یہ شاہی قتل پہلی جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔اس قتل نے 6کروڑپچاس لاکھ اڑتیس ہزارآٹھ سو دس فوجیوں کو میدان میں کھڑا کر دیا، 88لاکھ56ہزار315افراد جاں بحق ہوئے،2کروڑ12لاکھ انیس ہزار چار سو باون افراد زخمی ہوئے اور 77لاکھ50ہزار952افراد کو قیدی بنا لیا گیا ۔ولی عہد کے قتل کے بعدآسٹریا کے بادشاہ فرانسس جوزف نے سربیا کے خلا ف اعلان جنگ کر دیا اور دکھتے ہی دیکھتے اتحادی ممالک بھی جنگ میں کود پڑے ۔ایک طرف آسٹریا ،اٹلی اور جرمنی کا اتحاد تھا اور دوسری روس ،برطانیہ اور فرانس ملے ہوئے تھے۔امریکہ بھی زیادہ دیرتک غیر جانبدارنہ رہ سکا اور روس، برطانیہ اور فرانس کے اتحاد میں شامل ہو گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے جنگ شدت اختیار کر گئی اور جنگ کے میدان زخمیوں سے بھر گئے ۔ ’’کاربالک ایسڈ ‘‘ ایک کیمیائی مادہ تھا جو جراثیم کش ادویات اور زخمیوں کے علاج کے لئے استعمال ہوتا تھا ۔ امریکہ کو اس کی اشد ضرورت تھی ،یہ کیمیائی مادہ ایک خاص قسم کے کوئلے سے تیا رہوتاتھا اور یہ کوئلہ صرف جرمنی میں پایا جاتا تھا، جنگ چھڑنے کے بعد جرمنی نے اس پر پابندی لگا دی اور اتحادی افواج کے زخمیوں میں اضافہ ہو نے لگا ۔ جنگ کے شعلے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے اور لاکھوں کروڑوں زخمی تڑپ رہے تھے۔

اتحادی ممالک کے پاس کاربالک ایسڈ کاکوئی نعم البدل نہیں تھا، امریکہ کی اعلیٰ قیادت جمع ہو ئی ،ملک بھر کے سائنسدانوں کو جمع کیا گیا اور تھامس ایلوا ایڈیسن کو ان کی سربراہی سونپ کرمتبادل طریقے سے کا ربالک ایسڈ کی تیاری کا ٹاسک دے دیا گیا۔ ایڈیسن کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا،اس نے اگلے ہی روز سائنسدانوں کی میٹنگ بلا ئی اور ان کے سامنے یہ نکتہ رکھا: ’’اگر ہم کوئلے سے کاربالک ایسڈ تیار نہیں کرسکتے تو ہمیں کسی اور چیز پر غور کرنا چاہیے ‘‘۔پورے ہال میں شو ر بلند ہوا :’’یہ ناممکن ہے سر‘‘۔ایڈیسن نے تھوڑی دیر کے لئے سر جھکایا اوربھرپور اعتماد اور سنجیدگی سے جواب دیا :’’ہم جب تک پوری طرح کوشش نہیں کرلیتے ہم کسی چیز کی نفی نہیں کرسکتے۔‘‘ اس نے ہنگامی طور پر ایک تجربہ گا ہ بنائی ،سائنسدانوں کو گروپوں میں تقسیم کیا اور اور چوبیس گھنٹے کا م شروع کر دیا ،کچھ دنوں بعد ایڈیسن نے تجربہ گاہ کے ایک سینئر سائنسدان سے پوچھا: ’’کار بالک ایسڈ کی تیاری میں کتنا وقت لگے گا ‘‘۔اس نے جواب دیا:’’سر ابھی تو ہمیں یہ بھی نہیں پتا یہ کا م ہو گا کیسے۔ ‘‘ایڈیسن نے اسے تسلی دی: ’’نوجوان گھبراؤ مت میں تمہیں سب بتاؤں گا یہ کا م کیسے ہو گا‘‘۔ ’’تو پھر سر ہم یہ کام نو ماہ میں مکمل کر لیں گے۔ ‘‘سینئر سائنسدان کا یہ جواب سن کر ایڈیسن بولا: ’’ہرگز نہیں ، ہمارے زخمی نو ماہ تک میدان جنگ میں زندہ نہیں رہ سکتے ،ہمیں ابھی اور اسی وقت کار بالک ایسڈ کی اشد ضرورت ہے‘‘۔’’لیکن سر یہ سب کیسے ہو گا ‘‘۔ایڈیسن نے سنجیدگی سے جواب دیا:’’میں یہ کام خود کروں گا‘‘۔اورپھر دنیا نے دیکھا ایڈیسن کی محنت اور اس کا عزم واستقلال رنگ لایا اوراس نے نو ماہ کی بجائے صرف سترہ دنوں میں کار بالک ایسڈ تیا ر کر کے امریکی صدر کو پیش کر دیا ۔اٹھارویں دن تجربہ گاہ میں سات سو پونڈ کا ر بالک ایسڈ تیا رہوچکا تھا اور صرف ایک مہینے بعد ایک ٹن روزانہ کے حساب سے یہ مادہ تیار ہو نے لگا۔ ایڈیسن مسلسل تین سال تک اس پروجیکٹ پر کام کرتا رہا ، جیسے ہی11نومبر1918ء کو اتحادیوں کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوا ایڈیسن نے سائنسدانوں کی صدارت سے استعفیٰ دیا ،فوجی خدمات سے سبکدوش ہوا اور واپس اپنی پرانی تجربہ گاہ میں آکر ڈیرے ڈال دیے ۔

ہم گزشتہ دس سالوں سے ملکی معیشت کو تباہ کر رہے ہیں، پچھلی پوری دہائی میں ہم نے بڑی محنت اور لگن سے معیشت کو تباہ کیا، پہلی زرداری صاحب اور ان کی ٹیم نے معیشت کا جنازہ پڑھایا، 2014میں عمران خان اور اس کے دھرنوں نے معیشت کو سانس نہیں لینے دیا اور اس کے بعد سے تاحال لانگ مارچ، دھرنوں اور ہر دوسرے ہفتے ڈی چوک میں جلسوں کے شوق نے معیشت کی جڑیںہلاکر رکھ دی ہیں ۔ ہم نے پچھلے دس سال جس طرح ملکی معیشت کا بیڑا غرق کیا ہے پاکستان کیا کوئی ترقی یافتہ ملک بھی ہوتا تو دیوالیہ ہو جاتا ۔ہماری ہٹ دھرمی اور مستقل مزاجی دیکھئے کہ ہم اب بھی ان حرکتوں سے باز نہیں آ رہے ، ہم اب بھی ہر دوسرے ہفتے لانگ مارچ، ڈی چوک جلسے اور اسلام آباد پر دھاوا بولنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ۔بخدا یہ ملک اس ہٹ دھرمی کے ساتھ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے ۔یہ ملک اور اس کے بائیس کروڑ عوام اس وقت حالت جنگ میں ہیں،مہنگائی کا عفریت سب کچھ ہڑپ کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے ، بیروزگاری عام ہوچکی ہے ، عوام گرمی سے تڑپ رہے ہیں اورلوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ،دیہات میں اٹھارہ اور شہروں میں بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے ،صنعتیں بند پڑی ہیں ،انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے ،مزدور فاقوں پر مجبور ہیں ،دیہاڑی دار خود کشیاں کر رہے ہیں ،طلباء گرمی اور اندھیروں میں بیٹھ کر امتحانات کی تیاری کرنے پر مجبور ہیں ،دفتری کام متائثر ہو رہے ہیں ،لوگوں میں چڑ چڑاپن پیدا ہو گیا ہے اور عوام غصے میں بپھر رہے ہیں ۔گیس آ نہیں رہی اور لوگوں کے گھروں میںپانچ پانچ دن سے پانی غائب ہے ۔مقتدر طبقے کی بے حسی اور لاپروہی اس پر مستزاد ہے، یہ عوام سے کہتے ہیں روٹی مہنگی ہے تو نان کھا لیں ، پٹرول مہنگا ہو گیا تو سائیکل چلا لیں ، یہ عوام سے کہتے ہیں آپ ٹی وی بند کردیں آپ کو سب اچھا دکھائی دے گا اور یہ دو ہزار روپے سبسڈی دے کر عوام کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

اگرچہ ملکی حالات کو اس نہج تک پہنچانے کے سب ذمہ دار ہیں مگر سب سے زیادہ کریڈٹ ’’ امریکی سازش‘‘ والوں کو جاتا ہے، جو کہتے تھے ہم آتے ہی تین ماہ میں معیشت ٹھیک کر دیں گے وہ تین سالوں میں معیشت کا بیڑہ غرق کر گئے،جو کہتے تھے ہم آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خود کشی کرلیں گے وہ خود کشی تونہ کر سکے مگر معیشت کو ذبح کر گئے اورستم ظریفی یہ ہے کہ یہ اب بھی باز نہیں آ رہے ، یہ اب بھی ملک میں استحکام پیدا نہیں ہو نے دے رہے اور اقتدار کی ہوس نے ان کے دماغوںکو ماؤف کر دیا ہے۔ یہ ایک دفعہ اسلام آباد پر چڑھائی کر کے سیر نہیں ہوئے ، یہ چاہتے ہیں ہر ہفتے اسلام آباد پر دھاوا بولیں ، یہ بزعم خود چی گویرا کیوں نہیں سمجھ رہے کہ جب تک ملک میں استحکام پیدا نہیں ہو گا معیشت ٹھیک نہیں ہو گی، انہوں نے ملین مارچوں اور دھرنوں کا جو سلسلہ 2014میں شروع کیا تھا یہ اسی کی باقیات صالحات ہیں کہ آج معیشت دم توڑ چکی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ۔کاش کوئی خدائی طاقت اب بھی ان انقلابیوں اور انصافیوں کو روک لے، کوئی جادوئی الہام ان کے دماغ میں یہ بات ڈال دے کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لئے سب سے پہلا قدم سیاسی استحکام ہے اور کاش کوئی پیر یا پیرنی ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے لئے انہیں استحکام استحکام کا ورد بتا دے اورکا ش کوئی ’’انصافی دانشور‘‘ ان کے کان میں پھونک دے کہ جس تئیس ارب کی کرپشن کی خاطرآپ ملک اور معیشت کو تباہ کر رہے ہیں آپ کے لانگ مارچوں اور دھرنوں کی وجہ سے ایک دن میں اس سے ڈبل ٹرپل نقصان ہو جاتاہے ۔ کاش ’’امریکی سازش‘‘ والی سرکار ملک میں استحکام پیداہونے دے اور کاش پاکستان کے حصے میں بھی کوئی ایڈیسن آجائے جو سترہ مہینوں کا کام سترہ دنوں میں کر دکھائے ،جو قبر میں دفن ہوتی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر دے ۔