سیاست کا ناپ تول کے اعشاری نظام کے تحت جائز ہ لیا جائے تو عمران خان صاحب کے لئے بہترین راستہ یہی نظر آتا ہے کہ اپنی جماعت کے 123اراکین کو جو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کرچکے ہیں ایوان میں لوٹ جانے کی ہدایت دیں۔
قومی اسمبلی میں لوٹ کر یہ اراکین ’’بھان متی کا کنبہ‘‘دکھنے والی گیارہ جماعتوں پر مشتمل حکومت کی جانب سے پیش کردہ بجٹ کی منظوری کو تقریباََ ناممکن بناسکتے ہیں۔ویسے بھی جو بجٹ رونما ہونا ہے وہ ہر اعتبار سے محدود آمدنی والے بے پناہ پاکستانیوں کے لئے ہر حوالے سے ناقابل برداشت ہوگا۔ پٹرول اور ڈیزل کے ایک لیٹر کی قیمت میں چند ہی دن قبل یکمشت 30روپے اضافے کا اعلان ہوا ہے۔عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ مگر اس سے مطمئن نہیں۔مصر ہے کہ مزید اضافہ ہو۔بجلی کے نرخ بھی موجودہ سطح پر برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔اس کے ایک یونٹ کی قیمت میں کم از کم پانچ سے سات روپے بڑھانا ہوں گے۔ مذکورہ اقدامات سے گریز آئی ایم ایف کو چراغ پا بنادے گا۔وہ ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ اس نے لاتعلقی اختیار کرلی تو ہمارے دیرینہ ترین دوست ممالک بھی پرخلوص خواہش کے باوجود ہماری مدد نہیں کر پائیں گے۔
ایسے عالم میں اپوزیشن کی نشستوں پر 123افراد کی واپسی شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی حکومت کو حواس باختہ بنادے گی۔متوقع بجٹ کے خلاف عوامی غصے کی جو لہر ابھرے گی اس کا قومی اسمبلی میں بھرپور اظہار موجودہ حکومت کی چند ’’اتحادی‘‘ جماعتوں کو اپنی رائے بدلنے کو بھی اُکسا سکتا ہے۔مسلم لیگ (قاف) اور ایم کیو ایم یکجا ہوکر آئند ہ بجٹ کے خلاف ڈٹ گئی تو حکومت کا پیش کردہ بجٹ نامنظور بھی ہوسکتا ہے۔اس کے بعد موجودہ حکومت برقرار کھنے کا جواز ختم ہوجائے گا۔قومی اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے نئے انتخابات کی تاریخ دینا پڑے گی۔اس کے بعد ٹیکنوکریٹس پر مشتمل عبوری حکومت کو نیا بجٹ تیار کرنا پڑے گا۔ ٹیکنوکریٹس عوام کے ووٹوں کے محتاج نہیں ہوتے۔معاشی مسائل کو فقط نصابی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔وہ آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ہر حکم کی آنکھ بند کرتے ہوئے تعمیل کو ’’معقول‘‘ رویہ تصور کرتے ہیں۔
عمران خان صاحب مگر ایسی ’’باریکیوں‘‘ پر غور کے عادی نہیں۔ضدی آدمی ہیں۔ ’’ککھ نئی ریا ساڈا تے تیلانئی رہن دیناکسے دا‘‘والے پنجابی محاورے پر کامل عمل کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ وہ یہ طے کرچکے ہیں کہ امریکہ نے ’’سازش‘‘ کے ذریعے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹایا ہے۔مبینہ طورپر سیاست دانوں کا روپ دھارے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے وہ کئی برسوں سے اُکتائے ہوئے ہیں۔ اپنے دور اقتدا میں انہیں احتسابی شکنجے میں جکڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔مطلوبہ اہداف مگر حاصل نہ کرپائے۔بالآخر ضمانتوں پر رہا ہوئے کئی سیاستدانوں نے انہیں تحریک عدم اعتماد کا پتہ کھیل کر وزارت عظمیٰ ہی سے فارغ کردیا۔ اپنی فراغت کا ذمہ دار تاہم وہ فقط اپنے مخالف سیاستدانوں ہی کو نہیں ٹھہراتے۔ ریاستی اداروں سے منسلک ’’میرجعفر‘‘ ان کے غضب کا اصل نشانہ ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ جلد ازجلد نئے انتخاب ہوں۔انہیں کامل یقین ہے کہ فوری انتخاب انہیں دوتہائی اکثریت کیساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بحال کردیں گے۔
نئے انتخاب کے لئے قومی اسمبلی میں واپسی کے ذریعے راہ ہموار کرنے کے بجائے عمران خان صاحب احتجاجی سیاست کی طاقت سے موجودہ حکومت کو فارغ کرنا چاہ رہے ہیں۔مذکورہ ہدف کے حصول کے لئے وہ 25مئی کے دن اسلام آباد بھی وارد ہوئے تھے۔ان کے وفاداروں کو کامل یقین تھا کہ اسلام آباد میں داخل ہوجانے کے بعد وہ نئے انتخابات کی تاریخ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ 26مئی کی صبح ریڈزون کے انتہائی قریب پہنچ کر مگر انہوں نے جذباتی تقریر کے بعد لانگ مارچ کے اختتام کا اعلان کردیا۔چند ہی دن بعد وہ دوبارہ اسلام آباد آنے کا قصد دہرارہے ہیں۔لانگ مارچ کے لئے روانہ ہونے سے قبل مگر یہ بھی اصرار کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ اس امر کو یقینی بنائے کہ اب کی بار ان کے لانگ مارچ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جائیں گی۔ پنجاب اور اسلام آباد کی پولیس ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھے گی۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ سپریم کورٹ ’’کیا لکھے گا جواب میں‘‘۔
سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے مگر یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ حکومت چاہے کتنی بھی کمزور کیوں نہ ہو ’’جتھوں‘‘ کے روبرو ڈھیر ہوجانے کے تاثر سے گھبراتی ہے۔عمران حکومت نے تحریک لبیک کی بابت اسی باعث متعدد بار انتہائی سخت گیر رویہ اختیار کیاتھا۔شہباز شریف اور ان کے فرزندکی حکومتیں بھی تاریخ ہی دہرانا چاہیں گی۔
ہر سیاست دان کو تاہم یہ حق حاصل ہے کہ و ہ احتجاجی سیاست کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرے۔عمران خان صاحب کو بھی مذکورہ حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔اسلام آباد پر ایک بار پھر دھاوا بولنے کی تیاری مگر وہ خیبرپختونخواہ ہی میں مقیم ہوئے کررہے ہیں۔آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے اور اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پنجاب کے لوگوں سے براہِ راست رابطے استوار نہیں کررہے ۔25مئی کو ان کی جماعت کے ساتھ جو ہوا اسے ذہن میں رکھتے ہوئے عمران خان صاحب کو فی الفور پنجاب منتقل ہوجانا چاہیے تھا۔ ملتان ان کا پہلا پڑائو ہوتا ۔وہاں سے وہ ڈیرہ غازی اور مظفر گڑھ جیسے شہروں میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے۔بعدازاں لاہور کے زمان پارک میں اپنے آبائی گھر منتقل ہوکر وسطی پنجاب کے باسیوں کو لانگ مارچ کیلئے متحرک کرنے کی کاوشوں میں جت جاتے۔
ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ ’’گرفتاری کے خوف‘‘ سے عمران خان صاحب پنجاب منتقل نہیں ہورہے۔یہ جواز احتجاجی تحریک کو کمزور بناتا ہے۔عمران خان صاحب کے خلاف اپنے دور حکومت میں کرپشن کے مبینہ الزامات کے تحت اب تک کوئی مقدمہ نہیں بنایا گیا ہے۔فی الوقت پنجاب حکومت انہیں فقط اندیشہ نقص امن والے قانون کے تحت گرفتار یا نظر بند ہی کرسکتی ہے۔ اسے مگر عدالتوں کے ر وبرو ’’واجب‘‘ ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا۔عمران خان صاحب کو لہٰذا دلیرانہ پیش قدمی دکھانا ہوگی وگرنہ آئندہ لانگ مارچ کے نتائج بھی 25مئی والے مارچ سے مختلف نہیں ہوں گے۔
دریں اثنایہ تاثر بھی تیزی سے فروغ پارہا ہے کہ سابق وزیر اعظم خیبرپختونخواہ کے سرکاری وسائل اور وہاں پھیلی اپنی مقبولیت پر ہی تکیہ کئے ہوئے ہیں۔اس تاثر کے ہوتے ہوئے وہ ایک بار پھر پشاور سے اسلام آبا د کی جانب ’’حملہ آور‘‘ ہوتے نظر آئے تو ہماری ’’وفاقی سا لمیت‘‘ کے بارے میں بھی خدشات ابھرنا شروع ہوجائیں گے۔خوف فساد خلق کی وجہ سے میں اس ضمن میں مزید تفصیلات کی جانب اشاروں کنایوں میں بھی ذکر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں اقتصادی ہی نہیں سیاسی بحران بھی سنگین سے سنگین تر ہورہا ہے۔ریٹنگز کی ہوس میں میڈیا بحرانوں کی آگ بھڑکائے چلاجارہا ہے۔ریاست کے طاقت ور اداروں سے ایسے ’’ثالث‘‘ بھی رونما نہیں ہورہے جو ماضی میں ہوئے ’’کاکڑ فارمولوں‘‘ جیسی تدبیریں سوچتے ہوئے فریقین کے مابین معقول سمجھوتوں کی راہ بناسکیں۔
تبصرہ لکھیے