انسان جہاں پیدا ہوتا ہے ، جس ماحول میں پرورش پاتا ہے اور جس تہذیب و ثقافت کے درمیان اس کی زندگی گزرتی ہے ، اس دائرہ زندگی سے اس کا مثاثر ہونا ایک قدرتی فعل ہے۔ آج کی جدید سائنسی اور مخلوط تہذیبی زندگی میں بھی یہی معاملہ ہر ایک کے ساتھ اجتماعی اور انفرادی سطح پر پیش آتا ہے۔ خود سائنس جو عالم ِکبیر (macro world) س ے ہوتے ہوئے عالم ِصغیر (micro world) کی پوشیدہ راز اور حکمتوں کو تلاش کرنے میں سرگرداں ہے اور ظاہر ہے اس نے پوری دنیا کی جامعات اور درسگاہوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، فکر و سوچ اور استدلال کے طریقوں میں جدت لائی ہے۔ یہاں تک کہ آج کی سائنسی ٹکنالوجی انساں کے لیے اپنی سانس سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔پھر ایک جانب دنیا میں پیش آنے والی سیاسی سرگرمیاں اور ہنگامے ہیں ، کہیں ملکی مفادات کی بنیاد پر جنگیں ہو رہی ہیں تو کہیں طاقت کے حصول کے لیے اور سپر پاور بننے کے لیے اخلاقی قوانین اور بین الاقوامی قوانین کو پَس ِ پُشت ڈالا جا رہا ہے، تو کہیں معاشی بوجھ تلے تیسری دنیا کی دَم گُھٹ رہی ہے ۔ایک اور جہت دنیا میں لوگوں کی مذہبی زندگیوں میں ہونے والی تبدلیاں ہیں، اور یہ تبدلیاں بھی ماحول اور تہذیب ہی کے زیر ِاثر رونما ہوئی ہیں ۔
ماحول اور تہذیب و ثقافت سے متاثر ہونے میں بذات ِ خود کوئی قباحت اور بُرائی نہیں ۔ اگر متاثر کرنے والا فکر و عمل علمی ، تحقیقاتی اور مثبت بنیادوں پر کھڑے ہوں او ر ایسا اثر انساں کی قدرت اور فطرت میں تبدیلی کا باعث نہ بنتی ہوں بلکہ اگر ایسا کوئی ماحول اور تہذیبی و سائنسی فکر جو انسان کی سوچ و فکر اور عقلی ، روحانی اور قلبی وسعت میں اضافہ کرنے والی ہوں تو اس سے ہر انسان کو پہلے پہل استفادہ کرنا چاہیے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک مومن و مسلمان کو اس طرح نئی علمی فکر و سوچ اور تہذیبی و سائنسی دریافت کو اپنی ایمانی غذا میں ایڈیشن (addition) کا ذریعہ بنانا چاہیے ۔ اس کے برعکس اس طرح کا منفی رویہ اختیار نہیں کرے کہ یہ دریافت کسی غیر مسلم کی ہے، یہ علمی اور روحانی بات کسی دوسری مذہبی گروہ کا ہے اور یہ کہ یہ قرآنی ، ادبی اور فقہی حکمت و نکتہ کسی اور فرقہ کا ہے۔ بلکہ ہر ایک پر، چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم اس طرح کےقرآنی ، تہذیبی اور سائنسی معرفت سے استفادہ کرنا امر ِمحتوم اور لازم کا درجہ رکھتی ہے۔ مسلمانوں کو اس معاملہ میں ایک قدم دوسری ملل اور اقوام آنے ہونے چاہیے کیونکہ علم و حکمت مومن کی متاعِ گم گشتہ ہے جہاں ملے وہ دوسروں کے مقابلے میں اسے لینے کا زیادہ حق دار ہے : کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن اینما وجد ھا فھوا حق بھا ( سنن ابن ماجہ ، کتاب الزھد ،حدیث نمبر 4169 ۔ضعیف حدیث، تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: غازی عزیز، ماہنامہ الشریعہ،ص 25 اپریل 1990 ، ش 4 )۔ اس سے بڑھ کو خود قرآن اس معاملے میں آگاہی اور رہنمائی دیتا ہے اور ایمان والوں کو بھی ایمان لانے کا کہتا ہے ۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۔۔۔۔۔۔۔۔ (النساء 136) اے ایمان والو، ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے نازل کی۔ اور جو شخص انکار کرے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا تو وہ بہک کر دور جا پڑا (تذکیر القرآن، ص 232)۔ مولانا وحید الدین خان نے تذکیر القرآن میں اس آیت کی تفسیر یوں کی ہے: "ایمان والو ایمان لاؤ " ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ مسلمانوں مسلمان بنو ۔ اپنے کو مسلمان کہنا یا مسلمان سمجھنا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ آدمی اللہ کے یہاں بھی مسلمان قرار پائے ۔ اللہ کے یہاں صرف وہ شخص مسلمان قرار پائے گا جو اللہ کو اس طرح پائے کہ وہی اس کے یقین و اعتماد کا مرکز بن جائے ۔ جو رسول کو اس طرح مانے کہ ہر دوسری رہنمائی اس کے لیے بے حقیقت ہو جائے۔ جو آسمانی کتاب کو اس طرح اپنائے کہ اس کی سوچ اور جذبات بالکل اس کے تابع ہو جائیں۔ جو فرشتوں کے عقیدہ کو اس طرح دل میں بٹھائے کہ اس کو محسوس ہونے لگے کہ اس کے دائیں بائیں ہر وقت خدا کے چوکیدار کھڑے ہوئے ہیں۔ جو آخرت کا اس طرح اقرار کرے کہ وہ اپنے ہر قول و فعل کو آخرت کی میزان پر جانچنے لگے۔ جو شخص اس طرح مومن بنے وہی اللہ کے نزدیک اس راستہ پر ہے جو ہدایت اور کامیابی کا راستہ ہے۔اور جو شخص اس طرح مومن نہ بنے وہ ایک بھٹکا ہوا انسان ہے، خواہ وہ اپنے نزدیک خود کو کتنا ہی مومن و مسلمان سمجھتا ہو( تذکیر القرآن ، ص 233)۔ اگر کوئی تہذیبی عمل ایسا ماحول مہیا کرئے جس سے دین کی ترقی اور ایمان میں اضافہ کے اسباب میسر ہوں تو ان پر اسلامی نقطہ نگاہ سے غور کرنا چاہیے نہ کہ کلیۃ ایسی تہذیب و ثقافت کا رد کرئے کہ یہ کسی غیرِ اسلامی ماحول اور تحقیق کی پیدوار ہے۔
موجودہ زمانے کا ماحول اور تہذیب و ثقافت اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود اپنے اندر اعلیٰ علمی، سائنسی اور تحقیقاتی مواد کا خزنیہ اپنے اندر سموئے رکھتا ہے۔ یہ دیکھنے والے اور تلاش کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس خزانے سے کیا لیتا ہے اور کیا کچھ اپنے اور اوروں کے لیے جمع و تقسیم کرتا ہے۔ مثلا قرآن کی ایک آیت جس پر اگر ہم غور کریں تو معرفت الٰہی کے سمندر سے ایک قطرہ ہمارے دامن میں آ گرے اور ہمارا ایمان بھی اضافہ پائے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: اُنْظُرُوْۤا اِلٰى ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ یَنْعِهٖؕ(الانعام 99) یعنی کہ تم درخت کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل لائے اور اس کے پکنے کو (بھی دیکھو)، بیشک ان میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں (عرفان القرآن )۔ اب ایک دیکھنا ظاہر کی آنکھ سے ہے کہ ایک وقت میں بیج اپنا کونپل یا انکھوا (sprout) نکالتا ہے پھر وہ ایک درخت کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ اس کی شاخوں پر پہلے پھول لگتے ہیں ، پھر اس پر آہستہ آہستہ پھل پھلتا ہے ۔لیکن ایک نظر اس کی اندرونی ساخت کی ہے جو ہماری آنکھوں سے مخفی و ماورا ہے ۔ صرف ایک درخت کا پلانٹ سیل (plant cell) جو کہ پودے کی زندگی کا بنیادی متحرک یونٹ اور اینٹ ہے ، اپنے اندر ایک کائنات کو سرگرم رکھتا ہے۔مگر اس کے دیکھنے کے لیے وہ آنکھ چاہیے جو انسانوں کے پاس نہیں ۔
جدید تہذیب نے اس کا حل نکالا ، جب مسلماناں عالَم سیاسی اور جنگی خلفشار میں اپنی توانائیاں بے مقصد صرف کر رہے تھے ، اور آپس میں اپنے مسلماں بھائیوں کی حکومتوں کو تہہ تیغ کرنے میں مشغول تھے ۔ ڈچ سائنسداں گلیلیو نے 1609 ء میں مائیکروسکوپ (microscope) ڈزائن کیا۔ آج کل الیکٹروں مائیکروسکوپ (electron microscope)س ے ہر (مثقالُ حَبَّۃِ مِنْ خَرْدَلِ) رائی کے دانہ کے برابر کو اس سے کئی گنا بڑا کر کے دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی نعمت عقل کا کمال ہے جس سے انسان چھپی ہوئی چیز کو بھی دیکھنے کے قابل ہوا۔
چنانچہ مائیکروسکوپ کے ذریعہ یہ دیکھا گیا کہ ایک پلانٹ سیل کے اندر کی تمام سرگرمیوں کو نیوکلس (nucleus) کنڑول کرتی ہے ، اور اس کے بڑے سائز کے ویکیول (vacuole) میں خوراک ، پانی اور سامان ِفضلہ محفوظ رہتا ہے وغیرہ ۔ یہ ایک الگ دنیا ہے اور اسے ہی عالم ِ صغیر (micro world) کہا جاتا ہے۔ اس دنیا تک انسان کو رسائی سائنسی تہذیب ہی نے دی ۔یوں ہمیں پتہ چلا کہ اللہ ہی وہ واحد ہستی ہے جس نے پودوں کو بھی ایک نظام میں پرُویا ہے اور ان کی ایک الگ کائنات بنائی ہے، اور اللہ ہی ہے جو ان پودوں کو خوراک و پانی اور روشنی مہیا کرتا ہے یعنی اللہ ہی رب العالمین (سورۃ الفاتحہ:1)۔ اب ایک مومن کا اس انداز سے پودے کو دیکھنے اور ظاہر کی آنکھ سے مشاہدہ کرنے میں فرق ضرور ہے اور یہ علی وجہ البصیرۃ ایمان میں اضافہ اور معرفت الہی کا ذریعہ بن سکتا ہے، اگر ہم غور کرنے والے بنیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ہمیں اللہ کی قدرت اور حاکمیت کا نظارہ بھی کراتی ہے کہ کہ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( البقرۃ :20) ۔
اس طرح کی علمی ، سائنسی ، روحانی تہذیب جو انسان کو اللہ کے قریب کرے تو اس سے جتنا ہو سکے فیض یاب ہونا چاہیے ۔ البتہ ایسا ماحول یا ایسی تہذیب و ثقافت جس سے فقظ مادیت اور ہوا پرستی کو فوقیت ملتی ہو یا جہاں تنگ نظری ، علمی پستی اور جہالت کا ماحول قائم ہو اور نظریہ یا فکر کو دلائل و مکالمہ کے بجائے سر پھٹول اور جھگڑے سے حل کرنے چاہتے ہوں ا نہیں خیرخواہانہ نصیحت ہی کی جا سکتی ہے۔ البتہ انسان اپنے آپ کو اس ماحول سے بچائے ۔ اور ایسے لمحات میں قرآن اور سنت رسول ﷺ کی روشنی میں اپنے لیے راہ ہدایت تلاش کرے۔
انسان جہاں رہتا ہے اس علاقے کی اور عالمی سیاسی ماحول سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا لیکن ہمارے یہاں لوگ ایسی سطحی سیاسی ماحول سے ہمیشہ متاثر رہتے ہیں، جنھیں خود سیاست کے ابجد کا بھی علم نہیں۔ سطحی سیا سی شہرت کے لیے بےجا احتجاج ، حقو ق سے محرومی کا غیر معقولانہ نعرے اور سیاسی رہنماؤں کی کردار کُشی ہی سیاست کا مرکز ہوتی ہیں ۔ ایسی سیا سی ماحول کے برعکس اگر سیاسی فہم و فراست کے لیے علم و لٹریچر اور مکالمہ جات کے ذرائع کو اپنایا جائے تو یہ زیادہ پا ئدار اور فائدہ مند ہو گا ۔ اگر سیاسی فہم و بصیرت حاصل کرنی ہی ہے تو سب سے پہلے قرآنی اور اسلامی سیاسیات سے آشنائی لازمی ہے بالخصوص رسول اللہ کی مکی سیاست و حکمت اور مدنی سیاست کا مطالعہ لازمی ہے، پھر دنیا کی دیگر سیاسی نظریات کی رد و قدح پر بھی عالمانہ گفتگو ہونی چاہیے ۔ اس طرح کی سیاسی شعور بھی انسان اور معاشرے کو دین سے قریب رکھتا ہے ۔ اور اگر اس طرح کی تہذیب و ثقافت کہیں نظر آئے تو اس کے اخذ کرنے میں اور اس سے استفادہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ، بلکہ ایسے ماحول کے قیام سے معاشرہ اجتماعی طور پر اپنی شعوری آنکھ کھولے گی ، اور جہاں دلائل اور شعور کو فوقیت حاصل ہو ، وہاں لازما دین ِاسلام ہی کی برتری ثابت ہو کے رہے گی ۔
چنانچہ ہر وہ ماحول اور تہذیب و ثقافت جس کی بنیاد علم و تحقیق ، روحانیت اور صوفیانہ طرز ِزندگی پر مشتمل ہو تو ایسے ماحول میں انسان غوطہ لگائے اور حق کی تلاش میں نقطہ عروج اور انتہاء تک جائے۔ البتہ ہمارے مذہبی لوگوں نے کچھ ایسا خود ساختہ ماحول قائم کیا ہوا ہے جہاں علم و تحقیق پر تحسین کے بجائے ، تحقیر اور تنقیض کا رویہ عام ہے۔ غیر علمی اور غیر دینی آباء پرستی کی مثالوں سے معاشرہ کا خزانہ بھرا ہوا ہے۔ عوام و خواص اس ماحول سے سخت کنڈیشنڈ (conditioned) اور متاثر ہیں ۔ کچھ جزئی اور فروعی مباحث میں علمی و عقلی اختلاف کی بِنا پر ، دیگر اچھائیوں اور کوششوں کو مِنْ حَیْثُ الکُلْ نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ ایسے ماحول سے بھی انسان تہی دامن رہے اور اپنا ناصحانہ اَپروچ عوام میں برقرار رکھے تاکہ اس کٹھن زدہ ماحول میں علم و فکر کی شمع روشن رہے ، اور حق کی تبیین اور تنشیر کا کام بھی جاری و ساری رہے۔ اس طرح کے ماحول اور تہذیب و ثقافت سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہاں تنگ نظری ، علمی پستی اور اندھیرا قائم رہتا ہے اور عوام و خواص قر آن مجید اور سنتِ رسول سے دور ہو کر (canonization) تقدیسیت اور عظمت پرستی کی بیماری کا شکار رہتے ہیں اور علم وعمل کے بجائے سستی نجات (salvation) کے حصول کے لیے مختلف دروازوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں ۔ اس طرح کے ماحول اور معاشرہ سے خالص دینی و اسلامی مزاج کے حامل افراد کا برآمد ہونا پَید اور نادر ہوتا ہے۔ لوگ تو خود کو لفظی (verbiagely) لحاظ سے دینی مزاج کا حامل بتاتے ہیں مگر ان کا کردار اور فعل و عمل اور عمومی مزاج دین سے کوسوں دور ہوتا ہےیعنی ظاہر میں دین کا لبادہ اوڑھا نظر آتا ہے مگر باطن اور قلب میں مرض باقی رہتا ہے ۔ اس لیے بظاہر ہمیں ہمارا ماحول دینی لگتا ہے جب کہ لوگوں کے معاملات بناتے ہیں کہ ابھی دین کی مزاج سے آشنائی کے مزید قرآنی ،علمی اور دینی شمع کو عام اور سادہ فہم بنانے کی ضرورت ہے۔
ہمارے یہاں دنیاوی اعتبار سے ترقی کے لیے ہر شخص جدید ماحول اور تہذیب و ثقافت سے استفادہ کرتا ہے اور وہ تمام علوم جس سے مالی و مادی فائدے کا ملنا ممکن ہو اپنی ساری توانائی اور جمع پونجی خرچ کرتا ہے لیکن جب بات دینی مزاجی اور دینی ذہن سازی کی ہو تو سادہ لوحی سے کام لے کر سستی نجات کے لیے کچھ عملیات کا کرنا کافی سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے قرآن و سیرت پڑھنا ، سیکھنا، سمجھنا اور اسے عمل میں لانے کے لیے اللہ سے مدد مانگتے ہوئے کوشش کرنے کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام و خواص بالخصوص نوجوانوں کا سارا زور -ظاہر میں دین داری کا لبادہ اوڑھ کر – دل و جان سے دینی اور آخرت کی فکر کی بجائے مادی ، معاشی اور دنیاوی فکر میں صرف ہو رہا ہے۔ اس حوالہ سے لوگوں کا ذہن دنیا کی مادی تہذیب کی ترقی سے سخت متاثر اور کنڈیشنڈ ہے۔ایسے میں ہمیں خلوص دل سے دوبارہ اسلام کے اصل مآخذ اور بنیادوں کی طرف رجوع کرنا ناگُزِیر ہے.
[…] ماحول اور تہذیب و ثقافت سے متاثر ذہن – نجم الدین ہمدا… […]