سابق وزیر اعظم عمران نے خود کو ایک سیاسی قوت بنانے کے بعد اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا بٹن دبادیا۔عاشقین بھی اس صورتحال پر دلگرفتہ نظر آرہے ہیں لیکن محبوب کی ہلکی سے مسکراہٹ پر پھر فدا ہونے کو بھی تیار۔
حماقتوں کی فہرست تو لاتعداد ہے لیکن یہ فضول دھرنا جس میں کارکنان نے بے جگری سے قربانیاں بھی دی لیکن جب دوچار ہاتھ لب بام (ڈی چوک) رہ گئے تو فوج کو طلب کرنے کا حُکم آتے ہی دونوں ٹانگوں کے درمیان دُم دبا کر پسپائی اختیار کی، جس سے کارکنان میں مایوسی پیدا ہوئی تو ان زخموں پر مرہم لگانے کے لیے مبینہ خفیہ معاہدے کی افواہ ۔ کل اس ہمارے ہینڈسم لیڈر نے اس افواہ کی بھی بہ دہن خود تردید کر کے رہی سہی اُمیدیں بھی توڑ دیں۔
خان بہت بہادر ہے پر تپتی زمین پر قدم نہیں رکھتا، 2016 ءکے دھرنے میں جب پرویز خٹک کی قیادت میں پشاور آنے والا قافلہ پولیس کی شیلنگ میں ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہا تھا، اس وقت ہمارے بہادر لیڈر بنی گالہ کے قلعے کی فیصل سے وقت فوقتا درشن کراکر بہادری دکھاتے رہے۔ اسی طرح مارکھانے کے لیے تو پنجاب و سندھ کارکنان اور خیبر پختونخوا سے پیشگی بھیجی ہوئی “اسٹرائک فورس” جنھوں نے ڈی چوک کے قلعے پر نقب لگانے کا کارنامہ انجام دیا ۔ لیڈر تو خیبر پختون خواہ کے محفوظ قلعے جہاں پولیس بھی اپنی اورحکومت بھی اپنی پھر ہیلی کاپڑ سے ائرکنڈیشن کنٹینر تک۔ اس سے پہلے سُپریم کورٹ نے بھی ان کے لئے اسلام آباد میں متبادل مقام پر پُرامن دھرنے کے لئے سہولت فراہم کرنے کا حُکم دیا تھا۔ لیکن اس حُکم کی سیاہی خشک بھی نہ ہو پائی انہوں نے اپنی “اسٹرائک فورس” (ان کے اپنے الفاظ ہیں) کو ڈی چوک پر یلغار کرنے کا حُکم دے دیا۔ اب فرماتے ہیں کہ خون خرابے سے بچنے کے لئے دھرنا موقوف کیا ہے، تو پورے دن کراچی اور پنجاب کی سڑکوں پر کون سا امن تھا جس میں کم از کم دو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؟
بات صرف اتنی سی ہےکہ پولیس مقابلے سے ڈر نہیں لگتا پر نیوٹرل سے لگتا ہے، انہوں نے پہلے ہی “نیوٹرل” کو متنبہ کیا تھا کہ نیوٹرل ہی رہیں اور واقعی یہ اسٹرائک فورس پولیس کے بس کی بات نہیں تھی، انہوں نے ڈی چوک کے علاقے میں جھاڑیوں پر آگ لگا کر اپنے ارادے بھی ظاہر کردیے لیکن جب حکومت نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا اور غالبا فوج نے بھی اس پُکار کو لبیک کہنے کی تیاری کی تو اچانک ہی بھائی کو “امن کی آشا” ستانے لگی۔
چلیں یہ تو ایک چھوٹا سا معاملہ ہے، عاشقین سلامت رہیں، تھوڑی سے مایوسی کے بعد وہ دوبارہ اسی در پر آہی جائیں گے۔ لیکن سب سے بڑا بلنڈر جو کہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہو سکتی ہے۔ باجماعت اسمبلیوں سے استعفی دینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جلد یا بدیر انتخابات ہونے ہی ہیں، لیکن اسمبلیوں سے استعفی کے بعد وہ اپنے اپوزیشن لیڈر کے حق سے دستبردار ہو گئے۔ اب سارا کھیل شھباز شریف حکومت کے ہاتھ میں آگیا جب وہ اپنی مرضی کے (بلکہ اپنے ہی ہمنوا) کو اسمبلی میں قاید حزب اختلاف بنا کر تقریباً آئینی عہدوں پر (جہاں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت لازم ہے) اپنی پسند کے لوگوں کو تعینات کرکے اگلے انتخابات کی طرف سے جارہے ہیں۔ اس ملک میں لنگڑی لولی جمہوریت نے پچاس سال میں اکثریت کی ڈکیٹرشپ کو رد کر کے بمشکل یہاں تک پہنچی تھی جب اکثریتی وزیراعظم اپوزیشن سے ملنے و مشاورت کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ اس بیلینس آف پاور کی تباہی کی ذمہ داری سابق وزیراعظم کی ناعاقبت اندیشانہ فیصلے پر عائد ہوتی ہے۔
اپنی متلون افتاد طبع کے باوجود عمران خان و تحریک انصاف کے روپ میں مضبوط پارلیمانی اپوزیشن کا وجود پاکستان و جمہوریت کے لئے ازحد ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے 2013 سے اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ انہیں سڑکوں پر اپوزیشن میں ملکہ حاصل ہے پر پارلیمان سے صرف مراعات وصول کرنے کے علاوہ بطور جاندار اپوزیشن اپنا آئینی کردار ادا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس وقت ایوان میں اصلی اپوزیشن (ویسے اصلی اپوزیشن پر مجھے ایوب خان کے دور میں ان کے بھائی سردار بہادر خان کا لیڈر اپوزیشن بننا یاد آگیا، اب وہ کتنے اصلی تھی شاید اتنے ہی جتنے آج راجہ ریاض ہیں ) کی غیر موجودگی سے خلا تو پیدا ہوا ہے لیکن دنیا میں خلا کبھی باقی نہیں رہتا، کوئی نہ کوئی اس خلا کو پُر کرے گا “مائی گارڈ یا مائی لارڈ”۔
تبصرہ لکھیے