تحریک انصاف کا لانگ مارچ جاری ہے ۔اس موقع پر صورت حال کو دیکھنے کے دو مروجہ طریق کار ہیں۔ پہلا یہ کہ معاملات کو تحریک انصاف کی آنکھ سے دیکھا جائے اور دوسرا یہ ہے کہ اسے پی ڈی ایم کی نظر سے دیکھا جائے۔ لیکن ایک تیسرا زاویہ بھی ہے اور وہ یہ کہ معاملات کو اس سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر ایک پاکستانی کے طور پر دیکھا جائے۔
ہمارے ہاں تقسیم اور نفرت سے لوگوں کے کاروبار وابستہ ہیں۔ چنانچہ پوری منصوبہ بندی سے ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ معقول بات نہ کی جا سکے۔ ایک گروہ کی کسی غلطی پر بات کی جائے تو آپ پر دوسرے گروہ میں شمار کر دیا جائے گا۔ کسی ایک سیاسی جماعت کی پالیسی پر انگلی اٹھائے جائے گی تو جواب آئے گا دوسرا بھی تو ایسا ہی ہے۔ یعنی لاشعوری طور پر یہ سمجھ لیا گیا کہ دنیا یا ایک گروہ کے حصے کے بے وقوفوں پر مشتمل ہے یا پھر دوسرے گروہ کے حصے کے بے وقوفوں پر۔ اس بات کا کوئی امکان تسلیم نہیں کیا جاتا کہ کوئی شخص اس سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر بھی بات کہہ سکتا ہے۔ یہ ملک صرف دو چار سیاسی جماعتوں پر مشتمل نہیں۔ انتخابات کا ٹرن آئوٹ بتاتا ہے کہ ملک میں ایسے لوگ اکثریت میں ہیں جو کسی سیاسی عصبیت کا حصہ نہیں۔
ضرورت اب اس بات کی ہے کہ اس رویے کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ایک شہری کے طور پر سوالات اٹھائے جائیں۔ پہلا سوال پولیس اصلاحات سے متعلق ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں جب حزب اختلاف میں ہوتی ہیں تو پولیس کے رویے کی شکایت کرتی ہیں لیکن جب اقتدار میں آتی ہیں تو پولیس سے وہی کام لینا شروع کر دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے دور اقتدار میں یہ پولیس کے نظام میں اصلاح کیوں نہیں کرتیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاس آج بھی وہی پولیس ہے جو 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برطانیہ نے رعایا کو دبا کر رکھنے کے لیے بنائی تھی ؟ کیا راز ہے کہ 1860 کے فوجداری قانون کو ہم ’’ تعزیرات پاکستان ‘‘ کہتے ہیں؟ دوسرا سوال مسلم لیگ ن کی پولیس کے بارے میںہے۔ پولیس ہر دور میں تشددا ور وحشت سے کام لیتی ہے لیکن ن لیگ کے دور میں تو یہ حد ہی کر دیتی ہے۔
گلو بٹ کے مناظر تو ہم نے دیکھ لیے ، اب ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کی گاڑی پر جس طرح پولیس اور اسکے ساتھ نجی جتھوں نے مل کر حملہ کیا وہ شرمناک ہے۔ اس سے پولیس کلچر کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ کیا ن لیگ کے دور میں پولیس کے ساتھ کوئی پرائیویٹ ملیشیا بھی بروئے کار آتی ہے اور کیا پولیس عملا اسی پرائیویٹ ملیشیا کے ماتحت کام کرتی ہے؟ آخر یہ کون لوگ ہوتے ہیں جو سادہ کپڑوں میں پولیس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ، لوگوں کی املاک تباہ کر رہے ہوتے ہیں اور پولیس کے ساتھ مل کر کر رہے ہوتے ہیں؟ ایسا کیا راز ہے کہ یہ نجی جتھے صرف ن لیگ کے دور میں سامنے آتے ہیں؟
یہ معمولی سوال نہیں ، یہ ایک سنجیدہ سوال ہے کیونکہ جعلی پولیس مقابلوں میں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے والے پولیس افسران آج بھی ن لیگ کی قیادت کے یوں سہرے کہہ رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی مجنوں اپنی لیلی پر صدقے واری جا رہا ہو۔ تیسرے سوال کا تعلق عمران خان کے ہیلی کاپٹر سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ہیلی کاپٹر پر وہ پشاور سے صوابی پہنچے ، کیا وہ کے پی حکومت کی ملکیت تھا؟ عمران خان اس سے قبل سیاسی جلسوں میں بھی اس ہیلی کاپٹر کا استعمال کر چکے ہیں۔ کیا ایک سیاسی جماعت کو قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف اپنے لانگ مارچ میں صوبائی حکومت کے وسائل استعمال کرے؟ حکومتوں کے وسائل عوام کی امانت ہوتے ہیں یا انہیں سیاسی جماعتوں کا مال غنیمت سمجھا جائے؟ چوتھا سوال پاکستان کی سیاسی اخلاقیات کے بارے میں ہے۔
سوال یہ ہے کیا اہل سیاست کسی اصول اور ضابطے پر متفق ہو سکتے ہیں یا آخری تجزیے میں یہ تخریب کی قوت ہیں ؟ جو انتخابات میں شکست کھاتا ہے وہ دھاندلی کا الزام لگاتا ہے لیکن با معنی انتخابی اصلاحات کی کوشش ان میں سے کوئی بھی نہیں کرتا۔ گویا جھگڑا اس بات کا نہیں کہ انتخابی عمل شفاف نہیں ہے بلکہ لڑائی اس بات کی ہے کہ اس دھاندلی سے فائدہ اٹھانے کا حق میرا ہے تیرا نہیں۔ پانچواں سوال یہ ہے کہ عمران خان جو لانگ مارچ لے کر نکلے ہیں اس کا جواز کیا ہے؟ انہیں اقتدار سے نکالا گیا تو آئینی تقاضے پورے کر کے عدم اعتماد کے ذریعے نکالا گیا۔ اگر ان کے حلیف اس لیے الگ ہو گئے کہ یہ سازش تھی تو پھر یہ سو ال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ جماعتیں ان کی حلیف بنیں ، کیا اس وقت بھی کوئی سازش بروئے کار آ رہی تھی؟
ایم کیو ایم عمران خان کا ساتھ دے تو وہ نیک پاک ہو جاتی ہے اور اس کے وزرا نفیس کہلاتے ہیں اور وہ الگ ہو جائے تو پھر سے اس کی برائیاں یاد آنے لگتی ہیں۔ تو کیا اصول صرف یہ ہے کہ جو ہمارے مفاد میں ہے صرف وہی حق ہے؟ چھٹا سوال لانگ مارچوں اور دھرنوں سے نبٹنے میں پولیس کی اہلیت کے بارے میں ہے۔ سوال یہ ہے کیا ہماری پولیس کی کبھی کسی نے جدید خطوط پر تربیت کی کہ ایسے مواقع پر ہجوم سے کیسے نبٹا جاتا ہے؟ کیا ہمارے پاس احتجاجی مظاہرین سے نبٹنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے کہ رات کو لوگوں کے گھروں میں گھس کر انہیں گرفتار کر لیا جائے اور صبح کوئی خاتون رہنما اپنی گاڑی لے کر نکلے تو ڈنڈے لے کر پولیس اس پر پل پڑے؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پولیس کے کتنے سالوں میں کتنے تربیتی کورسز کروائے جاتے ہیں؟ ساتویں سوال کا تعلق ملکی معیشت سے ہے۔
اگر ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو معاشی استحکام کیسے آئے گا۔ یہ کیسا رویہ ہے کہ ہمارے ہاں ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کی سی کیفیت رہتی ہے؟جس ملک میں کسی کو معلوم نہیںکہ حکومت کب ختم ہو جائے ، جہاں حکومت بنتی بعد میں ہو اس کے جانے کی تاریخیں دینے والے نیم خواندہ دانشور ٹی وی سکرینوں پر پہلے قبضے کر لیتے ہوں وہاں کی غیر یقینی میں کون سرمایہ کاری کرے گا؟ آٹھویں سوال کا تعلق ایک عام آدمی کے شہری حقوق سے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام کی کوئی حیثیت ہے یا یہاں جب کوئی گروہ اور جتھہ چاہے اٹھ کر نظام زندگی معطل کر سکتا ہے؟کنٹینر جو معاشی سرگرمی کی علامت ہوتے ہیں ، ہمارے ہاں خوف اور وحشت کی علامت بن چکے ہیں۔
اسلام آباد کا ریڈ زون ہمیشہ ان کنٹینرز سے سجا ہوتا ہے۔ ڈپلومیٹک انکلیو کے سامنے سالوں سے کنٹینر رکھے ہیں۔دنیا بھر کے سفارت کار یہاں سے گزرتے ہیں ۔کیا کبھی کسی نے سوچا ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ یہ صرف نمونے کے طور پر پیش کیے چند سوالات ہیں۔ہم اگر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سوچ سکیں تو سوالات کی فہرست بہت طویل ہے۔
تبصرہ لکھیے