ہوم << بلوچستان ۔ واہ سے آہ تک- عبداللہ طارق سہیل

بلوچستان ۔ واہ سے آہ تک- عبداللہ طارق سہیل

سیاسی جنگ و جدل کی خبروں میں غیر سیاسی خبروں پر توجہ کم ہی جاتی ہے۔ چند دن پہلے بلوچستان سے یہ خبر آئی کہ ایف سی سائوتھ کے سربراہ میجر جنرل کمال انور نے پنجگور میں خطاب کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو ایف سی میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ کمال الدین انور نے ’’پیرکوہ‘‘ کا ادادی دورہ بھی کیا جہاں ہیضے کی آفت نے قیامت ڈھا رکھی ہے۔

بلوچستان پاکستان کا سب سے غریب ، سب سے پسماندہ صوبہ ہے یہاں تک کہ اتنے بڑے اور وسیع و عریض صوبے میں ریلیں سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اوپر سے یہ صوبہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور غیر ملکی سازشیوں کی آماجگاہ بھی۔ اس کی محرومیوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور دیتا ہے تو کچھ کر نہیں پاتا۔ آئی جی ایف سی نے ایک بہت اچھا اعلان کیا ہے لیکن محض اعلان کافی نہیں۔ بلوچ نوجوانوں کو افواج میں شامل کرنے کیلئے ترغیبی اقدامات کرنا بھی ضروری ہے۔ بلوچ بہت اچھی جنگی صلاحیتیں رکھنے والی قوم ہے، اس کے جوان ماضی میں بھی افواج کا اثاثہ رہے ہیں۔ فوج میں ان کی نمائندگی بڑھتی ہے تو ملک اور بلوچ قوم دونوں کا فائدہ ہے۔

ماضی میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچ عوام کیلئے آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا۔ بہت اچھا پیکج تھا لیکن ناقابل ادراک عوامل نے اس کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ بلوچستان ان دنوں جس آشوب کرب میں سے گزر رہا ہے، اس کی بنیاد پرویز مشرف نے رکھی۔ انہیں بلوچ عوام سے کڑ تھی یا کوئی اور بات۔ ان کے اقدامات، بالخصوص اکبر بگٹی اور ان کے ساتھیوں کی ایک بمباری میں ہلاکت کے بعد یہ صوبہ آتش فشاں بننے لگا۔ 2013ء میں نواز شریف کی حکومت آئی تو انہوں نے صوبے کی وزارت اعلیٰ ایک قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالمالک کے حوالے کی۔ ان کی حکومت اڑھائی سال رہی اور اس دوران صوبے میں حیرت انگیز حد تک امن قائم ہو گیا۔ بلوچ رہنمائوں کی تلخیاں اور تلخ کلامیاں کم ہونے لگیں لیکن بعدازاں پناما کا سکینڈل برآمد ہوا، بلوچستان پر ’’باپ ‘‘ نامی جماعت کی حکومت قائم ہو گئی جس کے سبھی رہنما ارب پتی سرمایہ دار تھے اور بلوچستان کا آتش فشاں انگڑائی لے کر جاگ اٹھا اور اب یہ مسئلہ ملکی سلامتی کیلئے ایک بہت بڑا درس سر بنا ہوا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت ا س صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیوں نہ کرے، وہ تو شروع سے ہی پاکستان کے حصے بخرے کرنے کی سوچ اور عمل کا ریکارڈ رکھتا ہے۔

بلوچوں کی کئی شکایات ہیں مثلاً صوبائی وسائل میں مقامی افراد کا حصہ کم ہے، ترقی نہیں ہونے دی جا رہی، بلوچ طالب علم لاپتہ ہو رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ناقابلِ فہم یہ بات ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس پر بات نہیں کرتی۔ دوسری طرف ہسپتال اور سکول برائے نام ہیں، جو ہیں ان کی حالت قابلِ رحم ہے۔

اپریل میں وزیراعظم کوئٹہ تشریف لے گئے۔ فرمایا لاپتہ افراد کے بارے میں ’’مجاز اتھارٹی‘‘ سے بات کروں گا۔ یعنی وزیر اعظم اس بارے میں مجاز اتھارٹی نہیں ہیں؟ وزیر اعظم کا یہ بیان نئے حیرت کدے کا عنوان تھی۔

خبر اس بحث سے ہٹ کر، وزیر اعظم نے ایک اور حیرت ناک بیان دیا۔ فرمایا کہ خدا کیلئے صوبے کو تقسیم کرنے یعنی اس میں سے نیا صوبہ بنانے کی بات نہ کی جائے۔ انداز یہ تھا کہ نیا صوبہ بنانے کی بات جیسے خلافِ آئین و قانون ہے۔

بلوچستان میں نیا صوبہ بالکل نہ بنا سکی بلکہ کسی بھی صوبے کو تقسیم نہ کریں۔ یہ حکومت کا اختیار ہے لیکن نئے صوبے کا مطالبہ کوئی کرتا ہے تو کرنے دیں، اس میں غیر آئینی کیا ہے۔ کیا پنجاب کو تقسیم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی حمایت تو کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں کر چکی ہیں، حمایت کیا، اس کا وعدہ کر چکی ہیں۔ پختونخواہ صوبے سے ہزارہ ڈویژن الگ کر کے نیا صوبہ بنانے کی تحریک بھی چل رہی ہے اور مسلم لیگ اس کی حمایت بھی کر چکی ہے۔ سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کو ملاکر الگ صوبہ بنانے کی تحریک بھی موجود ہے اگرچہ اسے قابل ذکر حمایت نہیں مل سکی۔

ایسا ہی مطالبہ بلوچستان میں بھی ہے اگرچہ فی الحال یہ کوئی زوردار مطالبہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک نہیں، دو مطالبے ہیں۔ ایک یہ کہ شمال مغربی بلوچستان کو پشتون صوبہ بنایا جائے، دوسرا یہ کہ اس علاقے کو کاٹ کر پختونخواہ صوبے میں شامل کرایا جائے۔ دونوں مطالبوں کو کچھ خاص پذیرائی نہیں مل سکی۔ بہرحال، مطالبہ کرنا جرم نہیں۔ ہمارے دونوں پڑوسی ملکوں میں زبان اور کلچر کے اختلاف کی وجہ سے کئی صوبے تقسیم ہوئے ہیں۔ بہار سے جھاڑ کھنڈ الگ ہوا حالانکہ دونوں کی زبان ہندی ہے اور کلچر بھی ایک ہے، محض قبائلی اختلاف ہے یا لہجے (مقامی بولی) کا فرق۔ یہی کچھ مدھیہ پردیش سے چھتیس گڑھ کاٹ کر کیا گیا۔

آندھرا پردیش بھی اس بنیاد پر تقسیم ہوا اور تلنگانے کا نیا صوبہ بنا۔ مشرقی پنجاب تو بہت پہلے سے تین حصوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ ایران میں صوبہ آذر بائیجان کو بھی دو کر دیا گیا۔ اس لئے صوبے کا تقسیم کا مطالبہ کوئی غلط بات نہیں، دیکھنے کی بات محض یہ ہوئی ہے کہ مطالبے کی بنیاد درست ہے یا نہیں اور قابل عمل ہے کہ نہیں۔ لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ آبادی والے بلوچستان میں 33 فیصد پٹھان، 63 فیصد بلوچ ہیں۔ باقی بروہوئی ، ہزارے ترکمان اور سندھی ہیں۔ کچھ سرائیکی اور پنجابی بھی آباد ہیں۔

بلوچستان میں حیرت انگیز جغرافیائی خطے ہیں۔ بے پناہ ارضیاتی تنوع ہے۔ یہ بہت بڑا سیاحتی مرکز بن سکتا ہے لیکن دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک یہ کہ سڑکیں شاہراہیں اور ریلیں ہی نہیں ہیں (برائے نام ہیں) دوسرے دہشت گردی کے خوف سے کوئی باہر کا آدمی بلوچستان آتا ہی نہیں۔ سی پیک کے خواب بڑے دلفریب تھے۔ گوادر سے بڑی شاہراہوں کے علاوہ ریل کی پٹڑیاں بھی بچھائی جانی تھیں۔ گوادر سے ایک ریلوے لائن وسط میں آ کر ایک طرف مرکزی روٹ سے مل جاتی تھی اور وہیں سے ایک برانچ ریلوے سندھ میں جاتی تھی۔ افسوس کہ یہ خوشی پاکستان اور صوبے کے عوام کے نصیب میں نہیں تھی۔ سیاسی بحران کا اژدھا سی پیک کو بھی نگل گیا۔

Comments

Click here to post a comment