جب 1990ء میں کویت پر حملہ ہوا تو اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے جو پہلا بیان دیا، اس کا آغاز یوں ہوا تھا کہ ”صدام حسین کا کویت پر حملہ ہماری اقدار اور طرزِ زندگی کے لیے سنگین خطرہ ہے.“ حیرت ہوئی کہ دنیا کی سب سے بڑی، اکلوتی اور جغرافیاتی طور پر محفوظ ترین فوجی قوت اس حملے کو اپنے وجود کے لیے کیونکر ایک سنگین خطرہ قرار دیتی ہے؟ اور پھر ایک ایسے علاقائی واقعے کو جو اس کی سرحدوں سے ہزاروں ہزار میل دور سامنے آتا ہے؟ ایک سیاسی واقعے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر نے جن اقدار کا حوالہ دیا، وہ کیا ہیں اور اس موقع پر ان کا ذکر کیوں ضروری تھا؟ کیا تاریخی واقعات اقدار کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں؟ وہ طرز زندگی کیا ہے جس کے دفاع کے لیے استعمار پوری دنیا کو آگ میں جھونک سکتا ہے؟ ہمارے نزدیک اس بیان سے بھی زیادہ اہم اس میں ظاہر ہونے والا سیاسی ادراک اور اس کی تہہ میں کارفرما تہذیبی فکر ہے۔ یہی سیاسی ادراک اور فکر امریکہ کی پالیسیوں کی نہ صرف بنیاد ہے بلکہ ہر جگہ کارفرما نظر آتی ہے۔
ہمیں اس بیان میں ظاہر ہونے والے سیاسی اور تاریخی ادراک کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سادہ بیان کے پیچھے ایک پوری سیاسی اور تہذیبی فکر کام کر رہی ہے. کویت پر حملہ دراصل امریکہ کے عالمگیر معاشی اور سیاسی غلبے کے لیے کوئی چیلنج بھی نہیں تھا، لیکن ایک عام، خودسر حکمران کی من مرضی اور بے ادبی کا پہلو ضرور لیے ہوئے تھا. اگر یہ کوئی چیلنج ہوتا تو شاید زمین ہی بھسم ہو جاتی، لیکن زور آور کو محض بے ادبی بھی قابل قبول نہیں ہوتی. کویت پر عراقی حملے کا جو فوجی رد عمل سامنے آیا، وہ معاشی مفادات اور سیاسی غلبے کو امکانی خطرے کا جواب تھا. اگر امریکی بقا کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا تو پھر ردعمل کی کیا نوعیت ہوتی، اسے جاننے کے لیے کوئی ذہانت درکار نہیں. لیکن اقدار، غلبہ اور بقا جڑے ہوئے سوال ہیں، اور دنیا کا طاقتور ترین ملک بھی اپنی قومی بقا کے سوالات اور ان پر امکانی اثرات سے یک لحظہ غافل نہیں رہ سکتا.
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اقدار اور قومی سلامتی کو دیکھنے کا بھی کوئی سیاسی اور تہذیبی تناظر رکھتے ہیں یا نہیں؟ اپنے ملک کے اندر اور اردگرد ہونے والے واقعات کو ہم کس تاریخی ادراک کے تحت دیکھتے ہیں؟ ہم صبح سے شام تک اپنی جن اقدار کا ذکر و وعظ کرتے ہیں، کیا ہم نے کبھی ان اقدار کو تاریخی اور سماجی حالات میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش بھی کی ہے؟ کیا ہماری دم توڑتی تاریخ کے ملبے میں یہ اقدار صحیح سلامت رہ گئی ہیں؟ کیا ہماری اقدار کی ثمرآوری پر تاریخ اثر انداز نہیں ہوتی؟ ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنے ملی مفادات، اقدار اور قومی بقا کو دیکھنے کا ہمارا مستقل فکری تناظر یعنی بیانیہ کیا ہے؟ کیا ہمارے پاس ایسی کوئی تہذیبی فکر موجود ہے جو ہمارے قومی عمل میں ایک مستقل انداز سے ظاہر ہو رہی ہو؟ افسوس کہ اس پہلو سے ہماری قومی صورت حال نہایت مایوس کن ہے.
مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ عالمی حالات میں قومی اور ملکی سلامتی ہمارا بنیادی ترین مسئلہ ہے. یہ مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں ہے، بلکہ ہر جدید ریاست کا وجودی مسئلہ ہے. ہر جدید ریاست ایک ایسا ہمالیہ ہے جس کے وجود میں زلزلے بھرے ہوں. جدید ریاست کے بارے میں آپ جو بھی نقطۂ نظر رکھتے ہوں، اسے مذہبی یا غیر مذہبی سمجھتے ہوں، لیکن ریاست آج کے دور میں معاشرے کے سائبان کے طور پر ناگزیر ہے اور انسانی معاشروں کی بقا بھی اب انہی سے مشروط ہے. ریاست اجتماعی قومی ارادے اور عمل سے پیدا ہوتی ہے جو کئی گیندوں کو بیک وقت اور مستقل فضا میں معلق رکھنے سے مماثل ہے. جیسا کہ خطرہ ہوتا ہے کہ گیند نیچے نہ گر جائے، اسی طرح ریاست کی سلامتی کے خدشات بھی حقیقی نوعیت کے ہوتے ہیں، اور کم یا زیادہ ہر ریاست ان کا سامنا کرتی ہے.
طاقت کے عالمی نظام اور اس میں وقوع پذیر تبدیلیوں کے فوری اثرات بھی ریاست پر ہی مرتب اور ظاہر ہوتے ہیں. اکیسویں صدی کے آغاز ہی سے طاقت کا عالمی نظام ایک بڑی کروٹ لے رہا ہے. اس کے براہ راست اثرات پاکستانی ریاست اور معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں. دہشت گردی کے خلاف استعماری جنگ کی ایک بڑی قیمت بھی پاکستان ہی کو دینا پڑی ہے. اہل نظر خوب واقف ہیں کہ افغانستان میں استعماری حملے کے کیا مقاصد تھے، اور پاکستان کے لیے ان کی کیا معنویت تھی. اپنی بقا کے لیے پاکستان نے ایک غیرمعمولی جنگ لڑی ہے اور خارج سے نمودار ہونے والے عسکری اور سیاسی خطرات کا جواب دینے میں کامیاب رہا ہے. استعمار چونکہ زیردست عسکری اور سیاسی حکمت عملی سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے، اس لیے اب زبردستی کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے.
تاریخ کے اس فیصلہ کن دور میں پاکستان کو ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو ہماری تہذیبی اقدار اور اجتماعی عمل کی یک سمتی کا اظہار ہو. لیکن صورت حال اس کے برعکس سامنے آ رہی ہے. ایک طرف تحریک طالبان پاکستان کی صورت میں پاکستان دشمن ”اسلام“ کا ظہور ہوا ہے جس نے باقاعدہ وطن دشمن مذہبی بیانیے کی شکل اختیار کر لی ہے. یہ بیانیہ صرف اظہار تک محدود نہیں رہا بلکہ آہستہ آہستہ جنگی اقدام اور دہشت گردی میں ظاہر ہونے لگا. اس بیانیے میں ایک خاص قسم کے ”اسلام“ کو پاکستان دشمن فکر کی بنیاد بنا کر پاکستانی ریاست اور معاشرے کو دہشت گردی اور جنگی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا. دوسری طرف ایک سیکولر بیانیہ بھی ابھر کر سامنے آیا جس میں مرکزی اہمیت ”سیکولر جمہوریت اور لبرلزم“ کو حاصل ہے. اس بیانیے میں ملک کی اسلامی شناخت اور ”جمہوریت دشمن“ قوتوں کے خلاف مربوط فکر کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی. اس میں ”انسان دشمن“ بندشوں اور قوانین سے نجات کے لیے سیکولرزم کی بات شروع کی گئی اور جمہوریت کی ”بالا دستی“ کے لیے سیکیورٹی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ثقافتی اور سیاسی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے وسائل بروئے کار لائے گئے.
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ یہ دونوں بیانیے بظاہر بالکل متضاد ہیں لیکن تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اپنے مقاصد میں بالکل ایک ہیں. ان دونوں بیانیوں کا مقصد پاکستان کی اساس پر سوالات اٹھانا، اس کے قومی جواز کو ختم کرنا اور اس کی سلامتی پر ضرب لگانا ہے. شدت پسند مذہبی بیانیہ ”اسلام“ کے نام پر اور سیکولر بیانیہ ”جمہوریت“ کے نام پر پاکستان کی متفق علیہ اساس اور شناخت پر حملہ آور ہے. اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ حاضر سروس استعمار پاکستان سے شدید ناخوش ہے اور آج کل تو بہت برہم ہے. دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سیکولر اور مذہبی دونوں طرح کے نئے بیانیے کہیں اس ناخوشی اور برہمی کا اظہار ہی تو نہیں؟
ہمیں اس وقت ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو ہمارے سیاسی، قومی اور تہذیبی آدرش کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو. موجودہ عالمی حالات میں ہماری قومی شناخت کا اعلی ترین اظہار ہو. آج کی پیچیدہ اور خطرناک دنیا میں ہمارے اجتماعی عمل کا رہنما ہو. اہل علم کے ہاں بیانیہ ایک علمی بحث ہو سکتا ہے لیکن عوام کے نزدیک اس کا واحد مطلب استحصال اور جبر سے نجات اور خوشحال معاشرے کا قیام ہے. نظریۂ پاکستان ہماری تاریخ کا ایک طاقتور بیانیہ ہے، لیکن ہمارا سیاسی عمل اس بیانیے سے ہم آہنگ نہیں رہا، اور معاشی عمل پسماندگی، استحصال، میگا کرپشن اور ظلم کا خاتمہ کر کے ترقی کا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا. ہمیں اپنے بیانیے اور تاریخ کے معروضی حقائق کو ازسر نو دیکھنے اور ان میں تضادات کو دور کرنے کی ضرورت ہے.
قومی بیانیہ روز روز تبدیل نہیں ہوا کرتا، لیکن بدلتے ہوئے تاریخی حالات میں اپنی اساس کو مستقل رکھتے ہوئے اس کا ادراک اور اظہار مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے. اس تبدیلی کا مقصد اسے قومی آدرش اور تاریخ دونوں سے ہم آہنگ رکھنا ہوتا ہے. قومی بیانیہ اگر تاریخ سے متعلق نہ رہے تو غیراہم ہو جاتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے. اس وقت نظریۂ پاکستان ہمارے قومی آدرش کا اظہار تو یقیناً ہے لیکن تاریخ سے منہ موڑے ہوئے ہے. یہی وجہ ہے کہ سیکولر طبقہ اس پر دھاوے میں ہے. جواب میں ہم اپنے معتقدات اور اخلاقی مواعظ کا بیان دھڑا دھڑ سامنے لا رہے ہیں. یہ زمانے میں پنپنے کی باتیں نہیں ہیں کیونکہ ہمیں جنگ کا سامنا دو محاذوں پر ہے. جنگ میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ میں نیک آدمی ہوں اور عبادت گزار ہوں. جنگ میں لڑا جاتا ہے اور تیاری پہلے کی جاتی ہے. اس لڑائی میں ایک طرف سیکولر طبقہ ہے اور دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان اور داعش وغیرہ ہیں، ہمارے لیے یہ کوئی چوائس نہیں ہے. وعظ تو تحریک طالبان اور داعش والے ہی سننے کو تیار نہیں، سیکولر لوگ کہاں سنتے ہیں. قومی بیانیے کا فکری اظہار اس قدر طاقتور ہونا
چاہیے جو سیکولر طبقے کو جواب دے سکے اور اپنی دینی اساس میں یہ اس قدر مستحکم ہونا چاہیے کہ ٹی ٹی پی اور داعش کا مقابلہ کر سکے.
ہماری ناقص رائے میں نظریۂ پاکستان کو توسیعی فکری تشکیلات کی ضرورت ہے. نئی، پاکستان نواز اور عوام دوست فکر سے نظریۂ پاکستان کو پورے ورلڈ ویو میں وسعت دینے کی ضرورت فوری ہے. یہ فرض کرنا خام خیالی ہوگی کہ پاکستان دشمن تحریک طالبان کا ”اسلامی“ بیانیہ اور سیکولر لبرل بیانیہ غیراہم اور وقتی ہیں۔ بیانیہ جیسا بھی ہو، انسانی افعال و اعمال پر لازمی اثر انداز ہوتا ہے۔ اندیشہ ہے کہ ہمارا وجودی بیانیہ نئے اور لاولد بیانیوں کی بڑھتی ہوئی بھیڑ میں کہیں گم نہ ہو جائے.
اعلی شاندار،،، خوبصورتی اور مضبوط دلائل سے لیس اس مضمون نے دو انتہاوں پر براجمان طبقوں کو چیلنج کر دیا ہے ،،، شکریہ محمد دین جوہر صاحب