يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ(الْبَقَرَة : 254)
"اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور منکر ہی ظالم ہیں۔"
مال کی محبت انسان کے اندر فطری طور پر موجود ہے۔ اس لئے بالکل شروع میں ہی اللہ تعالٰی یہ بات واضح کر رہے ہیں کہ "ہم نے عطا کیا" یعنی جو ہے، اسی کا عطا کردہ ہے، اسلئے اسی کی پسند کے مطابق لگنا چاہیے۔ ساتھ ہی ڈیڈ لائن بھی دے دی کہ مہلت ختم ہونے سے پہلے پہلے خرچ کر لو۔
ڈیڈ لائن کی اہمیت سٹوڈنٹس بھی سمجھ سکتے ہیں جنہیں ایک مقررہ تاریخ پر اسائنمنٹ جمع کروانی ہوتی ہے، آفس میں کام کرنے والے بھی کہ پراجیکٹ جمع کروانے کی ڈیڈ لائن پاس ہو تو کیا حالت ہوتی ہے، اور ایک عام عورت بھی کہ ٹھیک ۸ بج کر ۱۷ منٹ پر افطاری کا وقت ہے اور ہر کام اس سے پہلے کر کے رکھنا ہے۔ لیکن ایک فرق ہے۔ ان تمام کیسز میں ہمیں پتہ ہے کہ ڈیڈ لائن کب ہے۔ جبکہ مال خرچ کرنے کی کتنی مہلت ہمارے پاس ہے، ہم نہیں جانتے۔ آج ہیں، کل گزر چکے۔ تو جو محدود وقت موجود ہے، اسی میں کرنا ہے جو بھی توفیق ہو سکے۔
نبیادی طور پر مال تین جگہ خرچ ہو رہا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو اپنی ذات پر۔ کھانا پینا، پہننا اوڑھنا، گھومنا پھرنا۔ اس کے بعد اضافی جمع پونجی "پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے" کے مصداق مزید پیسہ کمانے میں استعمال ہوتی ہے۔ مال زیادہ ہونا شروع ہوتا ہے تو اپنی ذات پر خرچ کرنے اور نمود و نمائش کے بعد ہم دوستوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ لین دین ہوتا ہے۔ آپ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے وصولی کی توقع رکھتے ہیں۔ جو آپ کو نہیں بلاتا، آپ اس سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ یعنی دوستوں پر اسی خیال کے تحت لگایا جاتا ہے کہ آج میں لگا رہا ہوں، کل کہیں نہ کہیں یہ واپسی بھی کریگا۔ تیسری چیز جس پر پیسے لگتے ہیں، وہ ہے با رسوخ لوگوں سے تعلقات بنا کر رکھنے میں۔
غریب بندے کی شادی میں جائیں تو پانچ سو دیں گے، امیر آدمی کے بچے کی سالگرہ پر بھی پانچ ہزار سے کم کا نوٹ نہیں دیا جاتا۔ ان پر مال لگانے کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ کل کہیں جاب چاہیے، بچے کا داخلہ کروانا ہے، پروموشن چاہیے تو یہ لوگ کام آئیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ تینوں ہی طریقے جو دنیا میں کام آتے ہیں، آخرت میں کام نہیں آئیں گے۔ نہ مال، نہ دوست، نہ ہی کسی کی سفارش کام آ سکے گی جب تک اللہ نہ چاہے۔ یعنی یہ مال ہمیں اسی قلیل مدت میں expiration date سے پہلے پہلے خرچ کرنا ہے، اور صحیح جگہ پر کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں کہاں خرچ کریں کہ اللہ کو پسند آئے۔
ایک: اللہ کے بندوں پر؛
دوم: اللہ کے دین کو سیکھنے، سکھانے، فروغ دینے پر۔ غریب، یتیم، مسکین پر اس لیے کہ قیامت کے دن جب ہم خالی ہاتھ ہوں گے تو اللہ ہمیں بھی محروم نہ کریں۔
سوم: دین پر اس لئے کہ یہ اللہ کے مشن میں شمولیت کا طریقہ ہے۔ ہم اپنی جان، صلاحیت، صحت، مال اللہ کی راہ میں لگائیں اور اللہ اسے اپنے ذمے قرضِ حسنہ سمجھتا ہے اور کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے، دنیا ہو یا آخرت۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ ( الْبَقَرَة : 267)
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بیشک اﷲ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہے۔
کوئی ہمیں گھٹیا تحفہ دے تو ہم اس بات کو بہت نا پسند کرتے ہیں۔ حتی کہ اچھا تحفہ بھی اگر crumpled ریپنگ پیپر میں دے تو برا محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کسی غریب کو دینے کے لئے کپڑے نہ خوبصورتی سے تہہ کریں گے، نہ خوشبو آتی ہو، نہ اچھی طرح wrap کرینگے، بلکہ بس جیسے ہوئے گول مول کر کے منہ پر مارنے والا کام ہوتا ہے۔ پھٹا ہے، ادھڑا ہے، گندا ہے، بٹن ٹوٹا ہے، جیسا بھی ہے بس دو اور جان چھڑواؤ۔ جوڑا دو تو مہنگی لیس اتار لو، جوتے ہیں تو بھی یونہی گندے سے شاپر میں ڈال کر حوالے کرتے ہیں۔
عائشہ رضی اللہ عنہا تو صدقے کے پیسوں پر خوشبو لگا کر دیا کرتی تھیں کہ یہ میں اللہ کی راہ میں دے رہی ہوں۔ یہاں بتا دیا گیا کہ حلال کمائی سے دیں۔ اچھی چیز دیں چاہے پھل ہے، کھانا ہے، کپڑا جوتا ہے۔ جو خود لینا پسند نہیں کرتے، اور جس طریقے سے لینا پسند نہیں کرتے، اس طریقے سے دو بھی نہیں۔ اور دینے کے بعد من و اذی یعنی احسان جتانے اور اذیت دینے والا رویہ نہ ہو۔ جب مال عطا ہی اللہ نے کیا ہے، تو تعریف بھی اسی کے لائق ہے، غَنِيٌّ حَمِيدٌ اسی لئے آ رہا ہے ۔
آن لائن شاپنگ کریں تو پیسے کہیں بیٹھ کر ادا کرتے ہیں اور ڈیلیوری اپنی پسند کی جگہ پر کرواتے ہیں، اسی طرح یہ مال ہم خرچ تو دنیا میں کر رہے ہیں لیکن اس کا اجر آخرت اکاؤنٹ میں اکٹھا ہو رہا ہے۔ حلال مال ہو، جس طریقے سے دیا ہو، جس کو دیا ہو، جتنے کھلے دل سے دیا ہو، دینے کے بعد جو رویہ رکھا ہو، ہر چیز کے اپنے الگ پوائینٹس ہیں۔
تبصرہ لکھیے