انٹر نیٹ نے پوری دنیا کو گلوبل ویلج بنادیا ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں مغربی تہذیب کے بڑھتے ہوئے غلبے نے ہمیں اپنی اصل تہذیب وثقافت کے ساتھ ساتھ اپنی مشرقی روایات سے بھی بہت دور کردیا ہے. ٹی وی چینلز پر اس قسم کے پروگرام دکھائے جا رہے ہیں کہ شک گزرتا ہے کہ ہم پاکستانی معاشرے میں نہیں رہ رہے۔ سوشل میڈیا نے نوجوانو ں کے ذہنو ں کو پلٹ کر رکھ دیا ہے، انہیں علم ہی نہیں کہ وہ کس دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں. ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ نوجوان نسل کیوں گمراہ ہو رہی ہے؟ اس کے ذمہ دار والدین ،حکومت یا پھر سیاسی ،سماجی اور مذہبی راہنما ہیں، نوجوانو ں کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے ؟ ہماری نو جوان نسل میڈیا یعنی ابلاغ کی یلغار کی زد میں ہے۔ یوں تو اس کا نشانہ ہر ایک ہے لیکن نوجوان خاص طور پر اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔ کبھی ایسا تھا کہ ذرائع ابلاغ زندگی کا ایک حصہ ہوتے تھے لیکن آج یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ذرائع ابلاغ کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔
ہماری نوجوان نسل کا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزارتا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرتے ہیں ،مگر ہماری نو جوان نسل تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔ پاکستان میں بناۓ گئےڈرامے جو ہماری نوجوان نسل کے اذہان پرگہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں ، کتنے ہی ڈراموں میں محرم رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہاہے۔سسر جیسا رشتہ جو باپ کے برابر ہوتا ہے، ہمارے ڈراموں میں اس رشتے کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ جہاں ان ڈراموں کو شوق سے دیکھا جاتا ہے وہیں دوسری طرف بہت سے شائقین ان ڈراموں کو تنقید کی نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں اور کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے بیہودہ ڈراموں کی وجہ سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں رشتوں کے تقدس کا خیال نہیں رکھا جاتا جس سے فحاشی اور غلاظت کے پھیلنے کا شدید اندیشہ ہے اور یہ ہمارے ملک کی نو جوان نسل کے لیے زہر قاتل کا کام رہی ہے۔
ایسے ڈرامے جن میں سوتیلی بیٹی کی عزت کے ساتھ کھیلنا دکھایا جاتا ہے۔ سوتیلے باپ کا بیٹی کی عزت کے ساتھ کھیلنا . دکھایا جاتا ہے جو ہمار ے ڈرامہ نویسوں کی بیمار ذہنی کیفیت کا غما ز ہیں۔ ڈراموں میں فضول قسم کی رسومات اور بے حیائی اپنے عروج پر دکھائی جاتی ہے۔ بے ہودہ ڈانس ، غیر مرد و عورت کا ایک ساتھ ہاتھ پکڑ کر چلنا، گلے ملنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جاتی ،آج کل نکاح کے بجائے ڈراموں میں منگنی کے رواج کو ابھارا جا رہا ہے اور مگنی کے بعد لڑکے اور لڑکی کا تنہائی میں ملنا اور انھیں ایسے گھومتا پھرتا ہوا دکھا یا جاتا ہے جیسے کہ ان کی شادی ہو گئی ہو ، بازار میں شاپنگ کرتے ہوئے اور ہوٹل پر کھانا کھاتے اور پارک میں اٹھکیلیاں کرتے، بے ہودہ قسم کے جملوں کا تبادلہ جیسے وہ واقعی میں میاں بیوی بن چکے ہیں۔ اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو آپ اس کے ساتھ ٹائم پاس کرنے کے بجائے آپس میں نکاح کریں کہ ہمارا معاشرہ اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ غیر محرم مرد اور عورت ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بے شرمی سے گھومتے پھرتے رہیں. اسی طرح پاکستانی ڈراموں میں جہیز کے بنا کوئی شادی نہیں ہوتی، جہاں بھی کوئی رشتہ مانگنے جاتا ہے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی کو امیر ہونا چاہیے جس سے جہیز کی لعنت کو فروغ مل رہا ہے جو ہمارے معاشرے کی ایک بڑی برائی ہے۔
باپ تو باپ ہی ہوتا ہے. ہر لڑکی خود کو باپ کے پاس سب سے زیادہ محفوظ تصور کرتی ہے ۔دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ باپ اور بیٹی کا ہوتا ہے مگر ہمارے ڈراموں میں باپ کے کردار کو بھی مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے، اور اس رشتے کی بھی تذلیل کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی گئی۔ اسی طرح ہمارے بہت سے ڈراموں میں جب بھی کسی لڑکی کا کردار ہوتا تو اس امیر لڑکی کی پہچان اس بات سے کرائی جاتی ہے کہ وہ ماڈرن ہے، جو بغیر دوپٹے اور چست کپڑوں میں نظر آتی ہے، جو ہمارے معاشرے کے لوگوں کے لیے باعث شرم ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ والدین سمیت معاشرے کے ہر فرد کو اس کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اور نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا ضروری ہے تا کہ ہماری اقدار، تہذیب اور اخلاقیات کی حفاظت ہوسکے۔ انٹر نیٹ کا درست استعمال نوجوانو ں کو ترقی کی بلندیو ں تک لے جا سکتا ہے لیکن غلط استعمال پستی اور رسوائی کی پاتال میں دھکیل سکتا ہے. میڈیا کو اگر قوم کی درست سمت میں رہنمائی کے لئے استعمال کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی بہت ساری برائیا ں ختم ہو سکتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے