صبح گھر سے دفتر کے لیے نکلنے لگا تو بائیک کو پنکچر پایا، گاڑی لی اور کام پہ پہنچ گیا. شام میں واپسی ہوئی تو یاد آیا کہ اسے ٹھیک کرانا ہے. موبائل چارجنگ پہ جمایا اور بائیک لے کر متعلقہ دکان کا رخ کیا. کراچی کے حالات بہتر ضرور ہیں لیکن اب ایسے بھی نہیں کہ اچھا موبائل و پیسے لے کر آپ سنسان جگہ پہ کھڑے رہیں. بر سبیل تذکرہ عرض ہے کہ آج ہی جمال عبداللہ بھائی نے یاد دلایا کہ گزشتہ برس اسی تاریخ کو میری بائیک موبائل ہیلمٹ پیسے اور پارسل شدہ کھانا ڈاکو برادران نے چھین لیے تھے جس کی برادر عبداللہ نے تعزیت بذریعہ پوسٹ کی، خیر میں بائیک لیے منتظر تھا کہ کب میری باری آتی ہے. ایسے میں ایک لمبا رکشہ آکر رکا، ویسے کراچی کی مسافر بسیں کب کیسے لمبے لمبے رکشوں میں تبدیل ہوئیں، یہ الگ کہانی ہے، ٹرام تا چنگچی کا یہ عبرت ناک سفر کسی دوسری نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں.
ہاں تو رکشہ اسٹارٹ ہی رہا اور اس سے مضبوط جسامت والا ڈرائیور ہاتھ میں سستا سا فون لیے برآمد ہوا اور پنکچر والے سے عاجزانہ انداز میں گویا ہوا کہ ایک ایمرجنسی پڑ گئی ہے، کال کرا دو، میرے فون کی بیٹری ختم ہوچکی ہے.
پنکچر والے اور اس کے شاگرد نے سچا جھوٹا قصہ کرا کے فارغ کردیا ، اتنے میں وہیں ایک اور ٹھیلے والا آیا، رکشہ بردار نے اس سے بھی درخواست کی لیکن بات بنی نہیں، رکشہ چالو تھا، وہ پریشانی کی حالت میں قریبی دکان چلاگیا، دور سے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ عرضی وہاں سے بھی مسترد ہوگئی تھی، شاید مختلف وارداتوں میں موبائل فون کے استعمال نے ہر ایک کو اس حوالے سے خاصا حساس بنادیا ہے
مایوسی کی حالت میں رکشے والا واپس پلٹا اور جھجکتے ہوئے مجھ سے کہا صاب گھر بہت ضروری فون کرنا ہے ذرا مہربانی کرو
میں نے کہا کہ پچھلی گلی تک لے چلو، فون گھر پہ ہے، اس نے مجھے لیا، گھر پہنچے، اس کی بات کرائی. پنکچر کی شاپ تک پہنچتے پہنچتے وہ چھتیس بار میرا شکریہ ادا کرچکا تھا. میں نے کہا کہ بھائی مجھے پہلے کیوں نہیں کہا. جواب ملا کہ صاف ستھرے دھلے دھلائے صاب لوگوں کا دل بڑا نہیں ہوتا، پھر مجھ سے پسینے کی بدبو بھی بہت زیادہ آرہی تھی. میں نے بے ساختہ قہقہہ لگایا اور کہا کہ ایسا نہیں کہ صاب لوگ دل کے اچھے ہوتے ہیں بس ذرا سا گھبراتے ہیں.
الیاس نامی رکشے والا گویا ہوا ، صاب ہر دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی بابو ٹائپ بغیر کرائے کے سفر کرتا ہے اور میں یوں درگزر کرتا ہوں، کیونکہ پتہ ہے نوکری کی تلاش میں نکلا ہوگا ، مگر ایسی کسی صورتحال میں ہمت نہیں پڑتی کہ ان سے کچھ کہہ سکوں. اسی لیے اپنے جیسوں سے رابطہ کرتا ہوں لیکن آج تو یہ سارے بھی صاب بن گئے.
بہرحال اسے جاتے جاتے یہ سمجھانے کی کوشش ضرور کی کہ یہ انکار مستقل نہیں بلکہ صرف حالات کا جبر ہے ورنہ جس طرح تم بغیر کرائے والے کا خیال کرتے ہو، صاب لوگ اس بھی زیادہ مستحق افراد کا درد بانٹتے ہیں، بس ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہے.
تبصرہ لکھیے