میں اس وقت کراچی میں تھا اور اخبار کے لیے سوات آپریشن کی کوریج کرنے جاتا۔ وہاں جاکر اپنے عزیز اور رشتہ داروں سے بھی ملاقات ہوجاتی اور دوستوں سے بھی گپ شپ ہوجاتی۔ یہ ٹی ٹی پی کے عروج کا دور تھا۔ ایسے ہی ایک عزیز کے ساتھ بحث چھڑگئی۔
میں نے کہا: حضور! یہ کون سا اسلام ہے جس میں لوگوں کی گردنیں اُتاری جائیں؟ سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلا جائے اور اسے اسلام کی عظیم خدمت کہا جائے؟
مجھے اچھی طرح یاد ہے اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔ کہنے لگا اب اگر تم نے اگلی بات کی تو میں خنجر سے تمھارا سر اُتاردوں گا۔
مجھے خوف لاحق ہوا۔ بعید نہیں کہ یہ ایسا کر بھی گزریں۔ لیکن پھر بھی ہمت کرکے اسے کہا: یار! میں تمھارا قریبی عزیز ہوں۔ یہ تم کیسی بات کررہے ہو؟
کہنے لگا: میں اسلام اور دین کی خاطر کسی رشتہ داری کو خاطر میں نہیں لاتا۔ تمھیں پتا ہے کہ ابوبکر صدیقؓ سے ایک دفعہ ان کے والد نے قبولِ اسلام کے بعد کہا تھا کہ غزوہ بدر میں ایک بار تم میری تلوار کی زد میں آئے، لیکن مجھ پر باپ کی محبت غالب آگئی اور تمھیں چھوڑدیا۔ جواب میں ابوبکر صدیقؓ نے کہا اگر آپ اس دن میری تلوار کی زد میں آتے تو کبھی آپ کو نہ چھوڑتا۔
میں ان کی یہ دلیل سن کر دہل گیا۔ مزید کوئی بحث نہیں کی۔ دلیل کی گنجائش ہی نہیں رہی تھی۔
تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کا موازنہ کریں تو آپ کو ان کے ”دلائل“ ایک جیسے نظر آئیں گے۔ پی ٹی آئی ذمہ داران سے لے کر کارکنان تک ہر ایک قرآن کی آیات اور احادیثِ نبویہ کا انطباق اسی طرح کرتے دکھائیں دیں گے جیسے تکفیری یا یہ ٹی ٹی پی والے کرتے تھے۔
مجھے تو اب یہ خوف لگنے لگا ہے کہ یہی حالات رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ پی ٹی آئی کے اندر بھی ”فدائین“ کا ایک ونگ قائم ہوجائے۔ جو اِن کے سیاسی نظریات سے اختلاف کرے، انہیں پہلے دائرہِ اسلام سے خارج اور بعد میں ان پر پھٹ جانا بھی عین جنت کی ضمانت سمجھا جائے۔ خدا اس انجام سے اس ملک، قوم اور اس جماعت کو محفوظ رکھے۔
تبصرہ لکھیے