جماعت اسلامی کہاں ہے ؟ ظاہر ہے کہ فی الوقت تو کہیں نہیں ہے. انتخابی طور پہ نہ ہی سیاسی محاذ پہ ، موجودہ صورتحال سے قبل اپوزیشن نے رابطہ کرکے ووٹ مانگا مگر جماعت اسلامی نے اس عمل کو اراکین کی خریداری سے جوڑ کر شمولیت سے انکار کیا. خیبر اسمبلی کے لیے بھی اپوزیشن نے اچھی آفر کے ساتھ رابطہ کیا مگر انکار ہی رہا. رہی تحریک انصاف تو انھوں نے ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ جماعت اسلامی سے رابطہ کیا جائے. جماعت اسلامی کا موقف کیا ہے ؟ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی خود مختاری کے بعد فوری الیکشن اور سفارتی مراسلے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کمیشن تشکیل دے. یہ تو ہوگیا موجودہ صورتحال پہ جماعت کا سرکاری مؤقف. اب بڑھتے ہیں اگلی بات پہ.
تحریک انصاف کے چکاچوند والے جلسے ، کم و بیش جماعت اسلامی کے اختیار کردہ نعرے اور سیاسی/ انتخابی طور پہ جماعت اسلامی کی ناکامی نے اس کے ووٹرز اور کارکنوں کے ایک حصے کو پی ٹی آئی کی طرف متوجہ کیا ہے. اسے پس منظر کےساتھ سمجھنا بھی ضروری ہے . اس کہانی کا آغاز نوے کی دہائی میں اس وقت ہوا جب آئی جے آئی حکومت کے وزیر اعظم نواز شریف سے جماعت اسلامی کے اختلافات کا آغاز ہوا اور جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ کو بھی اپنا ہدف بنالیا اور جماعت خود کو متبادل قوت کے طور پہ پیش کرنے لگی. قاضی حسین احمد فرماتے تھے کہ نواز شریف نے شرعی نظام کے نفاذ سمیت بعض دیگر وعدوں کی پاسداری سے انحراف کیا ہے جو اتحادی کے طور پہ کیے. اس دوران جماعت اسلامی کو شدید نقصان پہنچانے والوں میں مدیر تکبیر صلاح الدین شہید سرفہرست تھے. ان صاحب کو دماغی علاج کی ضرورت تھی، جبکہ وہ دانشور بن کر قوم بالخصوص جماعت اسلامی کے کارکنوں کے اذہان پراگندہ کرتے رہے. انھیں پیپلز پارٹی سے شدید نفرت اور نواز شریف سے اتنی ہی محبت تھی. تکبیر اس زمانے کا جیو ، اے آر وائی اور سما سمجھ لیں.
جب قاضی صاحب نے نواز شریف کیخلاف مہم شروع کی تو ان کی توپوں کا رخ جماعت اسلامی کی طرف ہوگیا. موصوف کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی کی شوریٰ ان کے اداریوں کی بنیاد پہ فیصلے کرے. صلاح الدین دائیں بازو کے انھی مفکرین میں سے تھے جو اپنے لوگوں سے فکری بدیانتی کے مرتکب ہوئے. بدقسمتی سے دائیں بازو کے دانشوروں کی اکثریت کم و بیش اب بھی ویسی ہی ہے. جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو مسلم لیگ کی طرف موڑنے میں تکبیر کی نفرت انگیز صحافت کا اہم ترین کردار تھا. بعد کے عرصے میں صحافتی حلقوں میں یہ باتیں عام ہوئیں کہ انھیں پریس نواز شریف نے لگوا کر دیا تھا. مرحوم نے جماعت اسلامی کے نوجوانوں کو پرو اسٹیبلشمنٹ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. بہرحال جماعت اسلامی نے اپنی غیر معمولی مہم کے ذریعے اگلے چند برس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں کے احتساب کا نعرہ لگایا (نوے کی ہی دہائی میں جماعت اسلامی نے بے نظیر حکومت کیخلاف دھرنے دیکر سیاسی نظام کو کمزور کیا ، جبھی خاکسار کا خیال ہے کہ حکومتوں کی مدت پوری ہونی چاہیے، آئینی عمل ہونے کے باوجود سیاسی استحکام تک اس سے گریز بہتر ہے) مگر تب تک تاخیر ہوچکی تھی، جماعت اسلامی پنجاب کے ووٹرز نواز شریف کے ساتھ جڑ چکے تھے. اس اتحادی سیاست نے جماعت اسلامی کو آگے چل کر مزید نقصان پہنچایا. یہاں تک کہ کبھی سائیکل، کبھی کار، کبھی کتاب کے نشانات پہ الیکشن لڑنے والی جماعت اسلامی کا اپنا نشان " ترازو" یوں غائب ہوا کہ خود مجھے 2013ء میں پتہ چلا کہ بھئی جماعت کا انتخابی نشان تو ترازو ہے.
90 کی دہائی میں جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد نے پوری جماعت کو پڑوس کی جدوجہد میں جھونک دیا ، حالانکہ اسے جماعت کے ایک شعبے کے طور پہ ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوسکا اور یوں جماعت اسلامی سیاسی فیصلوں اور زمینی حقائق کے بجائے جذباتی فیصلوں کے تابع ہوگئی. بنیادی طور پہ جماعت اسلامی کی سیاست کے دو ادوار ہیں. ایک مولانا مودودی کی امارت دوسرا ان کے بعد۔ میاں طفیل محمد مرحوم سے لیکر قاضی حسین احمد صاحب تک کا ابتدائی دور جماعت اسلامی کی اسٹیبلشمنٹ سے محبت و عقیدت کا دور تھا. اس زمانے میں قاضی صاحب کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں میں یہ بات عام تھی کہ پاکستانی فوج اگر نوجوانوں کی کسی تنظیم پہ سب سے زیادہ بھروسہ کرتی ہے تو وہ جمعیت ہے، البتہ مولانا مودودی کا دور اور ان کی سیاست اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہی. جنرل ایوب کے مقابل وہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے. ذوالفقار علی بھٹو سول آمر تھے، ان کے اپوزیشن سے بدترین طرز عمل نے اپوزیشن کو یکجا ہونے اور تحریک چلانے پہ مجبور کیا. اپوزیشن میں صرف جماعت اسلامی ہی نہیں بلکہ جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، تحریک استقلال اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر بھی اس کا حصہ تھے. اس تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا. پیش نظر رہے کہ جماعت اسلامی کے وزراء جلد ہی ضیاء کابینہ سے نکل آئے اور اسلامی جمعیت طلبہ جنرل ضیاء کے خلاف طلبہ تحریک کی سرخیل تھی. جمعیت کے ناظم اعلی سمیت کئی کارکن جیلوں میں گئے، کوڑے بھی کھائے. اس دوران قاضی صاحب امیر بنے. میری ناقص رائے کے مطابق اگر یہ منصب پروفیسر غفوراحمد کو ملتا تو جماعت اسلامی بہتر سیاسی فیصلے کرتی نہ کہ جذباتی، خیر جو ہونا تھا وہ ہوچکا ۔
نواز شریف کے ابتدائی ادوار کیطرف پھر چلتے ہیں. 1990 میں قاضی صاحب نے پاسبان اور اسلامی فرنٹ کی صورت میں بہترین تجربہ کیا. بدقسمتی سے وقت سے پہلے اچانک انتخابات اور جماعت اسلامی کی شوری کی شدید ترین مخالفت سے یہ دونوں پراجیکٹ دم توڑ گئے، مگر جب تک پاسبان موجود رہی وہ کم گو اور شرمیلے عمران خان کی شوکت خانم کی فنڈنگ اور بڑے اجتماعات میں معاون بنی اور انھیں متعارف کراتی رہی. { اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا فنڈ پاسبان وغیرہ نے کرا کے دیا. خان کی اپنی شخصیت اور کرزمہ تو ابھی تک برقرار ہے، جس پہ فنڈ بھی ملتا ہے، لوگ بھی آتے ہیں، صرف یہ بتانا ہے کہ پاسبان منظم تھی تو نوجوانوں کو جمع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھی } اس کے کچھ عرصے بعد قاضی حسین احمد عمران خان کو ہر جگہ ساتھ لیے پھرتے رھے یہاں تک کہ پنجاب یونیورسٹی کا حادثہ ہوا جس میں جمعیت نے عمران خان پہ تشدد کرکے پولیس کے حوالے کیا، اس کے باوجود عمران خان قاضی حسین احمد کو اپنا دوست قرار دیتے تھے. بعد میں سید منور حسن بھی عمران خان کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھتے تھے. یہی وجہ تھی کہ جماعت اسلامی کے نوجوانوں میں عمران خان کو اپنا فطری اتحادی سمجھا جاتا تھا جو احتساب کے نعرے لگاتا، قبائلی علاقوں میں آپریشن اور پڑوس میں دہشت گردی کے نام پہ جنگ کا بہت بڑا مخالف تھا. عمران خان نے حالیہ پچیس برس میں جماعت اسلامی کے تین بنیادی نعرے اٹھا کر عوام میں پھیلا دیے، پہلا احتساب کا دوسرا ریاست مدینہ اور اب تیسرا امریکی مخالفت کا ، جماعت کی تیس برس کی سیاست انھی تین نعروں کے گرد ہے مگر اسے کامیابی نہ مل سکی اور عمران خان ان نعروں کو پاکستان کے ہر طبقے اور نسل کے لوگوں تک کامیابی سے پہنچا گئے اور اسی سبب جماعت اسلامی کے ہمدردوں نے خان میں کشش محسوس کی .
اب مسئلہ جماعت اسلامی کا ہے. آیا اسی نام سے اور نشان سے بغیر کسی اتحاد میں جائے الیکشن لڑنا ہے جیسا کہ اب فیصلہ ہوا ہے، یا پھر نیا نام، نئی جماعت اور مختلف پلیٹ فارم سے اترنا ہے. جماعت اسلامی الیکشن کو جیتنے کے لیے نہیں بلکہ انتخاب برائے انتخاب لڑتی ہے. پھر پے درپے بائیکاٹ کی سیاست نے الگ سے نقصان پہنچایا. جماعت اسلامی رائج انتخابی سیاست اور اپنے نظریات یا دستور کے بیچ پھنس کر رہ گئی ہے. اپنے کڑے معیار کے سبب اس کے پاس وہ نمائندے نہیں جو اپنے بل پہ جیت سکیں، الیکشن میں بہایا جانے والا بے تحاشہ پیسہ جماعت اسلامی کی قیادت کے پاس نہیں، اس وجہ سے دیانت داری، اہلیت اور شرافت کے باوجود وہ اس میدان میں مسلسل مار کھا رہے ہیں. پھر میڈیا بلیک آوٹ الگ سے پہلو ہے ، اس کے باوجود میری نظر میں جماعت اسلامی کی ناکامی میں اپنی نااہلی کا بھرپور کردار ہے. دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں جماعت اسلامی کے اجتماعات دعوتی، رفاہی، اور سیاسی سرگرمیوں پہ کوئی پابندی نہیں رہی { کچھ مخصوص عرصے اور مشکلات کے سوا } ایسے میں مذکورہ بالا عوامل کے ساتھ اپنی خامیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے.
آخری بات آپ کا وہ نظریہ ہے جس کے ساتھ جماعت اسلامی کا کارکن جڑا ہوا ہے، دیکھیں آپ اپنی بہترین کوشش، حکمت عملی، غلطیوں کو نہ دہرانے، جذباتی فیصلوں سے گریز کرتے ہوئے انتخابی عمل میں اتریں، اس کے بعد ایک سیٹ ملے یا سو ، گھبرانا نہیں ہے، کیونکہ آپ کی سیاست کسی دنیاوی مفاد سے نہیں جڑی، بلکہ اس کا مقصد خدا کی حاکمیت کے قیام کا ارفع ترین کام ہے، اپنے نظریہ کی موجودگی میں کسی دوسری تنظیم ، شخصیت یا نظریہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے. اپنے ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، جو کم ہیں، جو بلاشبہ خطاؤں سے پاک نہیں، جنھوں نے بڑی سیاسی غلطیاں بھی کیں، مگر یقین مانیے، یہ لوگ اب بھی میسر کھیپ میں بہرحال سب سے بہتر ہیں۔
سراج الحق پہ تنقید ایک فیشن ہے { دوسری مدت کے لیے بھی سید منور حسن کو ہی امیر ہونا چاہیے تھا مگر شاید اراکین جماعت ان کا بوجھ نہیں سہار سکتے تھے } مگر سچی بات تو یہ ہے کہ اپنی کمی کوتاہی کے ساتھ سراج الحق تو درحقیقت چالیس برس کے غلط فیصلوں کے سبب سیاسی عمل سے غیر متعلق ہونے والی جماعت اسلامی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں. ان کا ویژن ممکن ہے کہ بہت انقلابی نہ ہو، ان کی سادہ زندگی کو نمایاں کرنا مجھے بھی ذاتی طور پہ پسند نہیں اور خاص کر 2018 ءکے الیکشن میں ناکامی کے بعد وہ کوئی بہت بڑ انقلابی منصوبہ نہ پیش کرسکے، مگر یہ حقیقت ہے کہ گزرے برسوں میں جماعت اسلامی نے نہ صرف فوجی عدالتوں کی مخالفت کی بلکہ جنرل باجوہ کے ایکسٹینشن سے بھی دور رہی، { حالانکہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ و تحریک انصاف اس عمل میں " تاریخ کی درست سمت " ہی کھڑے تھے } اسی طرح سراج الحق کا ایک کریڈٹ جماعت اسلامی کو " مقامی مسلمانوں" کے مسائل پہ بھی بات کرنے پہ آمادہ کرنا اور قیادت کو حوصلہ دینا شامل ہے. حافظ نعیم الرحمن ''حق دو کراچی کو'' مہم منظم انداز سے تسلسل کے ساتھ کئی برس سے چلا رہے ہیں ، مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کی بلوچستان میں تحریک و تحرک اس کا ایک اور واضح ثبوت ہے، اور پھر سینٹ میں مشتاق احمد خان کی کارکردگی، مسائل پہ گفتگو اور انھیں دستاویز کی صورت میں نمایاں کرنا سبھی کے سامنے ہے ، یہ اور ان جیسے تمام جماعت اسلامی کے ارکان اسمبلی کرپٹ ہیں نہ اخلاقی طور پہ مجرم، یہ سب عام افراد کی طرح میری آپ کی پہنچ میں ہیں. کراچی تین بار جماعت کو ملا تو اہلیت و شفافیت ثابت بھی ہوئی.
جماعت اسلامی کو چاہیے کہ اپنی دعوت پہ ڈٹ کر بغیر کسی شرمندگی کے کھڑے ہوجائیں، جو سیاسی ذھن رکھتے ہیں انھیں بھرپور موقع دیں، آگے بڑھائیں تاکہ وہ دائیں بائیں دیکھنے کے بجائے آپ کے ساتھ جڑے رہیں، اور جو احباب عمران خان یا نواز شریف کی محبت میں گرفتار ہوچکے، انھیں حکمت سے سمجھا کر ساتھ ملائیں. غیر ضروری مباحث لوگوں کو مزید دور کردیں گے.
تبصرہ لکھیے