ہوم << والدین ہماری جنت . لبنی حبیب

والدین ہماری جنت . لبنی حبیب

اللہ پاک نے تمام مخلوق، اس پوری کائنات کو تخلیق کیا اور انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ اور ہم انسانوں کے پیدا ہونے کا ذریعہ ہمارے والدین ہیں جن کو اللہ تعالی نے بڑا مقام دیا درجہ دیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں" ایک آدمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور ادب کے ساتھ غرض کیا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" تیری والدہ " بھر اس نے دوسری بار یہی غرض کیا تو یہی ارشاد فرمایا تیری والدہ پھر تیسری مرتبہ غرض کیا تو فرمایا تیری والدہ چوتھی مرتبہ غرض کیا تو ارشاد فرمایا تیرا باپ۔یعنی اللہ پاک نے والدین سے حسن سلوک کرنے کا بہت ہی اجر رکھا ماں کی فضیلت تین گناہ زیادہ رکھی۔اللہ پاک بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے اور وہ اپنے بندوں سے بے تحاشہ محبت کرتا ہے اس نے ماں کے دل میں اپنی اولاد کے تیس گناہ محبت ڈالی اور اس محںت میں بھی اتنی طاقت ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لۓ سب کچھ کر گزرتی ہے چاہے پسندیدہ کام ہو یہ نا پسندیدہ لیکن وہ اولاد کے فائدہ کے لۓ کر گزرتی ہے اس میں قربانی دینے کی صفت بہت زیادہ ہوتی ہے۔

مججے یاد ہے میں چھوٹی سی تھی رات کو میں امی کو سوتے میں جگا دیا آواز دی مجھے پانی پینا ہے اور ان کی آنکھ کھلی تو اسی وقت اٹھ کر میرے لۓ پانی لائیں اس وقت اور ان کا چہرا بہت دکھی ہورہا ایسا لگ رہا تھا وہ بہت ضبط کر رہی ہوں تھا بعد میں انھوں نے بتایا" میں بہت خوبصورت خواب دیکھ رہی تھی جس میں میں ارکان حج ادا کر رہی تھی تم نے آواز دے کر اٹھا دیا تھا چلو خیر کوئ بات نہیں " یہ ان کی زبان پر تھا۔ہوسکتا تھا جھنجلا جاتیں غصہ کرتیں لیکن انھوں نے ضبط کیا اور اس وقت کچھ کہا نہیں اور اٹھ کر پانی مجھے دے دیا.

یہ تو چھوٹا سا واقعہ تھا ایسے بہت سے لمحے آۓ جب ہماری امی کو نا چاہتے ہوۓ بھی ہمارے اچھے مستقبل کے لۓ ہماری اچھائ کے لۓ فیصلے کرنے پڑے قربانی دینی پڑی مجھے یہ بھی یاد ہمارے بھائ کو الیکٹریک انجئنیرنگ کا کورس کرنا تھا اور والد صاحب نے اس کے لۓ منع کردیا کہ وہ کہتے تھے یہ کام تمھارے کرنے کا نہیں ہے تم بس بی کام کرو اور میرے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹاؤ اور اس وقت خوب سختی سے کام لیا اور والد صاحب کی سختی سے بھائ ابو سے بد ظن ہوگۓ امی ہی تھی اس وقت جنہوں نے پیار سے بھائ کو سمجھایا اور ابو سے چھپ کر ان کو وہ کورس کروانے لے گئیں۔ اور ممکن حد تک والد صاحب کو راضی کیا کہ بیٹا باغی ہو جاۓ گا اس کی بات مان لیں مگر ان کا فیصلہ نہ بدلہ اور وہ کورس مکمل نہ کرسکے۔

اور آگے چلیں تو اور ایسے واقعات امی کی زندگی میں آۓ جس پر انھوں نے اپنی اولاد کے خاطر قربانی دی۔ والد صاحب کا غصہ غضب کا ہوتا تھا اکثر امی سے لڑائ جھگڑا کرتے تو امی ہمارے خاطر برداشت کرتیں کہ ہم پر برا اثر نہ پڑے اور چھپ چھپ کر روتیں ایک دفعہ گھر سے نکلنے تک کی نوبت آگئ اور ہم نانی، ماموں کے گھر آنے پر مجبور ہوۓ سب ماموں کہتے نہ جانا اب اس گھر میں لیکن ماں ماں ہوتی ہے انہوں نے ہماری خاطر یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنے گھر چلی جاؤں گی پھر جب والد صاحب کو غلطی کا احساس ہوا امی کو واپس لینے آۓ تو ان کے ساتھ اپنے گھر چل دیں کہ اولاد کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے بچے دونوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں اور ان کو کسی ایک کے ساتھ رہنا پڑے تو وہ کئ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جب والدین اپنے بچوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں،اس کی تعلیم و تربیت کا اور ہر طرح کی جائز خوہشات کو پورا کرتے ہیں اور حلال کما کر گھر لاتے ہیں اس روزی کو حاصل کرنے کی مسلسل کوشش میں لگے رہتے ہیں تو یہ اولاد جوان ہو کر کیسے ماں باپ کو یہ طعنہ دیتے ہوۓ نظر آتی ہے" آپ نے ہمارے لۓ کیا کیا ہے سب والدین ہی کرتے ہیں اپنے بچوں کے لۓ کرتے ہیں" کتنا دکھ ہوتا ہوگا والدین کو یہ سب سن کر لیکن وہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ ایک طرف لوگ کہتے ہیں ایک ملاقات میں انسان دوسرے انسان کو جان جاتا ہے تو پھر بچے تو اپنے والدین کے ساتھ پل کر جوان ہوتے ہیں وہ والدہن کی قدر کیوں نہیں کرتے ان کے احسانوں کو کیوں بھول جاتے ہیں۔

میں نے اپنے گھر میں بھائ کو والد صاحب کے خلاف بات کرتے دیکھا اور پڑوس میں خالہ جان ہوتیں ان کے بیٹے کو بھی ماں پر رعب جھارتے دیکھا کوئ نہ کوئ بات بنا کر اپنے والدین کو اپنا دشمن تصور کرنے لگتے ہیں اور ان کی آواز اپنے والدین پر اونچی ہونے لگتی ہے تو دکھ کا شدید ترین احساس ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے " پس انھیں اف تک نہ کہو، نہ انھیں جھڑک کر جواب دو".بنی اسرائیل 17:23

کیسے اس فرمان کو بھول جاتے ہیں۔ خدارہ اپنے والدین کی قدر کریں اللہ پاک پر اپنا ایمان مضبوط بنائیں اپنے اندر صبر تحمل پیدا کریں اپنے والدین سے حسن سلوک سے پیش آئیں کہ والدین سے سلوک انسان کو جنت کے آعلی مقام کی طرف لے جائیگا یا دوزخ کی پستی طرف فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کہاں جانا ہسند کریں گے۔

Comments

Click here to post a comment