آپ نے اپنے آرٹیکل "ماما آپ کو ہم پر اعتبار نہیں؟" کے اختتام پر بچوں پر اپنی مرضی مسلط نہ کرنے کا پیغام دیا ہے، جبکہ طنزاً یعنیironically یہ پوری تحریر ماں کی طرف سے مرضی مسلط کیے چلے جانے کی ایک روح فرسا داستان معلوم ہوتی ہے۔ آپ از سر نو جائزہ لیں، سر سے پاؤں تک اس آرٹیکل کا ہر لفظ مرضی مسلط کرنے پر مرکوز ہے۔ بچے excited ہیں کہ انھیں ایک ایسی gathering اٹینڈ کرنی ہے جہاں وہ ہم عمر بچوں کے ساتھ مل کر اپنا کچھ وقت fun time کے طور پر گزاریں گے۔ یہ بھی عیاں ہے کہ وہ اس وقت اخلاقی درس تدریس کے موڈ میں نہیں جو ماں ہر وقت ، بات بے بات چھیڑے رکھتی ہوگی ( یہ ان کی باتوں سے عیاں ہے)۔
آگے بڑھتے ہیں۔
ماں ان کی excitement کو یکسر نظرانداز کر دیتی ہے۔ پہلے اشارتاً اور پھر نسبتاً زیادہ واشگاف انداز میں۔ ان کی طرف سے مزید اصرار پر تفہیم القرآن طلب کی جاتی ہے۔ اور پھر:
"دونوں کو اس نے اپنے ارد گرد صوفے پر بٹھایا. خود سورہ لوط کی تلاوت کی اور پھر اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی۔"
(پھر ماں نے کہا): " یہ تھا وہ عمل جس کی وجہ سے اللہ نے اس قوم پر وہ عذاب نازل کیا جو دنیا میں کسی اور قوم پر نہیں نازل ہوا. دنیا کی ہر قوم ایک عذاب کی مستحق ہوئی مگر قوم لوط ایک ساتھ تین عذابوں کی۔
پوری کی پوری قوم اندھی کردی گئی۔
پھر آسمان سے پتھروں کی برسات جو کہ ہر ایک کے نام کے ساتھ مارے گئے کہ کون سا پتھر کس کو لگنا ہے۔
تیسرا عذاب کہ پوری بستی الٹ دی گئی۔"
یا للعجب! تو گویا جو بچّے وہاں اکٹھے ہونے جا رہے تھے، ان کی واحد غرض و غایت خدا نخواستہ فعلِ قومِ لوط کا ارتکاب کرنا تھا؟
یا کیا ان بچوں نے وہاں جا کر لازماً یہی کچھ کرنا تھا؟
چلیں یوں کہہ لیں کہ محض خوف تھا کہ کہیں کوئی ایسی سچویشن نہ جنریٹ ہو جائے کہ بچے کسی ایسی ویسی حرکت کا شکار ہو جائیں۔
میں بڑے ادب سے عرض گزاروں کہ دونوں صورتوں میں یہ اپروچ انتہائی ناقص ہے۔
ہم نسبتاً بالغ نظر لوگ آگاہ ہیں کہ اس نوع کے اکٹھ میں، جہاں بہت سے بچے جمع ہیں، ایسی نوبت کم ہی آتی ہے۔ اوپر سے رمضان بھی تھا جس کا اپنا ایک impact ہے کہ اس ماہ مقدّس میں نیکی اور پاکیزگی کا احساس دامن گیر رہتا ہے۔ آخر کیوں اتنا خوفزدہ ہوا جائے، اور رہا جائے؟!
جدید ایجوکیشن کا تو سارے کا سارا زور ہی اس نکتہ و پہلو پر ہے کہ بچوں کو ذمّہ داری دی جائے۔ کلاس روم میں تدریس کا دورانیہ 10 منٹوں سے زیادہ نہ ہو۔ باقی کا سارا وقت بچے اپنے دماغوں اور ہاتھوں سے کچھ کرتے دکھائی دیں تاکہ ان کی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جِلا ملے۔ بند دماغ کی کھڑکیاں کھلیں۔ وہ رٹّو طوطے ہی نہ رہ جائیں۔گرد و پیش کی زندگی کو کھلی، غائر اور نقّاد نظروں سے دیکھنا سیکھیں، اور یوں آگے چل کر محض ڈگری ہولڈرز نہ بنیں، بلکہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے خلّاق اذہان کے مالک بااعتماد لوگ بنیں جو انسان کے اب تک کے طے کردہ فکری سفر کو آگے کی کسی منزل تک لے جا سکیں۔
میری رائے میں ِاس کا بہتر طریقہ یہ تھا کہ بچوں میں سے بڑے کو ایک طرف لے جا کر سمجھا دیا جاتا، واضح اشارہ دے کر کہ "بھائی کا خیال رکھنا. "آج امریکہ میں ایک بل پاس ہوا ہے،"وغیرہ وغیرہ۔ ِاور پھر توکّل علی اللہ ! کوئی انّ ربّی علٰی کلِ شئی حفیظ ایسی دعا پڑھ کر سپرد خدا کر دیتیں۔یہ ان کا حق تھا۔
چھوٹے بھائی کے بہانےاِس انداز میں دیے پیغام سے بڑے بھائی کی اپنی نفسیات بھی کسی "فکر" سے بندھ جاتی۔ جی ہاں نفسیات کو باندھا جاتا ہے، اور معصوم اذہان واقعتاً ان باتوں کو بہ صد سنجیدگی دیکھتے اور فالو کرتے ہیں۔ نئے اندازِ تعلیم میں یہ بات متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے کہ جب آپ اعتماد کرتے اور ذمہ داری دیتے ہیں تو بچے کمال پرفارم کرتے اور confidence کی وہ عمارت اُٹھا کھڑی کرتے ہیں جو ہر والدین کا اپنے بچوں کے حوالے سے سب سے بڑا سپنا ہوا کرتا ہے۔
یہ بات عام مشاہدہ و تجربہ میں ہے کہ اس نوع کا غیر ضروری جبر، اور بات بےبات مذہبی حوالے مذہب کو بے رنگ، بے کیف، بے رحم، اور خدائی فوجدار قسم کی شے بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ انسان ظاہراً کیسا ہی نیکوکار دکھنے کی کوشش کرے، اندرونی طور پر بےزار سا رہتا ہے۔
خدانخواستہ یہ یورپی طرز کی کوئی مخلوط محفل بھی نہ تھی۔
خدا نخواستہ شراب نوشی کا بھی کوئی احتمال نہ تھا کہ اس معاشرے میں اس کا چلن عام نہیں۔اوپر سے یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔
آخر بچے سارا دن سکول میں بھی توگزارتے ہیں ناں! جہاں بارہا ایسی تنہائیاں میسر آیا کرتی ہیں۔
کیا شیخ عبدالقادر جیلانی کی ماں عمر بھر اپنے بیٹے کو بس سینے سے چمٹائے رہتیں؟ نصیحت پلّے باندھ کر سپرد خدا کر دیا ناں؟
یہ عام مشاہدہ ہے کہ جن علاقوں میں مواقع کم ہوتے ہیں، یا لَٹھ بردار قسم کا مذہبی جبر زیادہ ہوتا ہے، بند اور گھٹن زدہ ماحول، وہیں اس نوع کی Homo سرگرمی اور اس کی ہوس زیادہ ہوتی ہے۔ مثلاً سعودی عرب، مثلاً درسِ نظامی والے مدرسے (جہاں ہر وقت قرآن پڑھنا پڑھانا صرف ایک روٹین ہے، اور باقی زندگی کا ایکسپوژر نہ ہونے کے برابر)، مثلاً پسماندہ علاقہ جات۔ مجھے متعدد دوستوں کے ذریعے ایران اور سعودی عرب سے متعلق اس نوع کی شہادتیں موصول ہوا کرتی ہیں۔ یہ محض ایک آدھ فرد سے سنی سنائی بات نہیں۔ کچھ ذاتی نوعیت کےمشاہدات اس پہ مستزاد ہیں۔
درس نظامی سے فارغ التحصیل ایک دوست کے الفاظ یوں ہیں:
"وہاں سارا زور دین دار نظر آنے پر ہے، نہ کہ دین دار بننے پر۔" یہ بھی اسی کے الفاظ ہیں: "ایک رتّی برابر ایمان نہیں ہوتا ان مولویوں میں۔ بس غضبناک آنکھیں لے کر دوسروں کو رد کرنے، مخالف فرقوں سے فروعی معاملات پر بحث و مباحثہ والی باتیں رٹنے، اپنی ضد پر بہرصورت اڑے رہنے کی تعلیم اور تربیت ہے وہاں۔"
دوران تحریر کہا گیا :
"چھوٹو تفہیم القرآن لے کر آئیں۔"
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماں سید مودودی ؒ کی تعلیمات سے متاثر ہیں۔ تو کیا خبر ہے کہ سید مودودی مرحوم کا اپنے بچوں کے حوالے سے رویہ کیسا تھا؟ راقم کی نظر سے 90 کی دہائی میں ایک چھوٹی سی کتاب گذری۔ مصنّف کا نام محو ہوگیا۔یہ ایک مسلسل تحریر تھی جو مولانا کے ہونہار بیٹے سے کیے ایک انٹرویو پر مبنی تھی۔ انٹرویو شاید 50 کے عشرہ کے ابتدائی برسوں میں لیا گیا تھا جب 1953 میں مولانا کو عدالت نے سزائے موت سنائی تھی۔ جب مصنّف نےاس teen ager سے دریافت کیا کہ گھر میں آپ کے والد نماز اور تلاوت قرآن وغیرہ کے سلسلہ میں آپ پر تو خوب سختی کرتے ہوں گے؟ تو اس کا جواب تھا " بالکل نہیں، جب میرا جی چاہتا ہے تب پڑھ لیتا ہوں۔ ابو ایسی کوئی سختی نہیں کرتے۔" کتب بینی کے حوالے سے کیے سوال پر جواب ملا: " جی نہیں ۔ مطالعہ کرنے کے حوالے سے بھی ان کی طرف سے کوئی تاکید نہیں۔وہ کہتے ہیں (یہ جملہ خصوصی طور پر میرے قرطاس ذہن پر نقش رہا، جو کبھی محو نہ ہو سکا) :
" سب کچھ دیکھو، سب کچھ پڑھو، سب کچھ سنو، مگر کسی کا اثر قبول نہ کرو۔ بلکہ ایسا طرزِ عمل اختیار کرو جس کے لیے تمہارا دل اور دماغ گواہی دے۔"
گزارش یہ ہے کہ بچے اس عمر میں ہر لمحہ، ہر آن تفریحی سرگرمیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اسی کو ان کی Learning کا بہترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وہ مشاہدہ خصوصی تھا جس کی بنیاد پرسرزمین اٹلی کی محترمہ ماریا مونٹیسوری نے ایک پورا فلسفہ تدریس اٹھا کھڑا کیا کہ بچے اپنی surroundings سے زیادہ سیکھتے اور یہ کہ تیز تر سیکھتے ہیں۔ چنانچہ کمرہ جماعت میں activity based learning کا آغاز ہوا۔ تدریسی کورسز ڈیزائن ہوئے۔ نیا تعلیمی نظام متعارف ہوا۔ نئی کتابیں معرض وجود میں آئیں، یہاں تک کہ دنیائے تعلیم و تدریس میں انقلاب سا آ گیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق مشہور واقعہ ہے کہ کیسے ایک روز گھوڑے کی پیٹھ پر سوار خراماں خراماں چلتے بلند آہنگ شاعرانہ کلام گنگنا رہے تھے۔ آپ خوش آواز تھے۔ لوگوں نے دیکھا، سنا تو لطف اندوز ہوئے، اور تھوڑی دیر میں ایک ہجوم سا اکٹھا ہوگیا۔آپ نے یہ دیکھتے ہی گانا بند کر دیا، اور تلاوتِ قرآن شروع کر دی۔اس کے نتیجے میں لوگ بےزار سے ہو کر تتر بتر ہو گئے۔ آپ کو بڑا اچنبھا ہوا۔ پاس کھڑے ایک بزرگ صحابی سے گلہ گذارا کہ دیکھو قرآن پڑھا تو یہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ ان صحابی نے جواب دیا کہ کوئی موقع محل ہوتا ہے خدا کی بات سنانے کا بھی۔ لوگ آپ کی سریلی آواز میں شاعرانہ کلام سن کر لطف اندوز ہو رہے تھے، جب محروم کر دیے گئے، تو چلتے بنے!
بچے بھی اس لمحے تفریح کے موڈ میں تھے۔آخر دیگر شرفا کے بچوں نے بھی آنا تھا۔ بچوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ بیٹھ کر بات سننے کو بھی روادار نہ تھے، کہ جانتے تھے ماں وہی اخلاقیات بھرا لیکچر چھیڑ دے گی۔ وہی ہوا بھی۔اس میں جانے کے خیال کو احساس جرم بنا ڈالا گیا۔اور ان کے تمام ساتھیوں کو فعل قوم لوط کا مجرم ۔ کیا یہ انصاف ہے؟
تبصرہ لکھیے