’’رِٹ آف دا گورنمنٹ ‘‘سے مراد حکومت کا تحکُّم ،تسلُّط اورریاستی طاقت کے بل پر قوتِ نافذہ ہے، تحریک لبیک پاکستان کا تحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے مارچ یا دھرناایک جمہوری سیاسی عمل تھا،ماضی میں سیاسی جماعتیں مارچ بھی کرتی رہی ہیں اور دھرنے بھی دیتی رہی ہیں ،یہاں تک کہ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ بھی ہوا ہے، لیکن نہ اُن پر کسی نے دہشت گردی کا فتویٰ لگایاہے اور نہ انھیں انڈیا کا ایجنٹ قرار دیا ہے اور نہ اُن پر بیرونی فنڈنگ کا الزام لگایا گیا ہے، تو اگر ملک کے قوانین اور ضابطے وزیر اعظم کے بقول سب کے لیے یکساں ہیں تو اُن سے یہ سوال بنتا ہے ،جب اُن کے وزراء یہ الزامات لگارہے تھے تو انھیں روکا اور ٹوکا کیوں نہیں گیا، اب سرِ دست انھیں خاموش کردیا گیا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان سے معاہدہ پاکستان کے مفاد میں کیا گیا ہے، ملک کو قتل وغارت سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے، ملک میں امن کی فضا بحال کرنے کے لیے کیا گیا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، ہم نے اپنا پورا ساٹھ سالہ کیرئیر داؤ پر لگایااور مراکزِ اقتدار کی دعوت اور خواہش پر اس عمل میں حصہ لیا، تحریک لبیک پاکستان کے امیر اور مجلسِ شوریٰ کو اس پر قائل کیا ، ان کے جذبات بلندیوں پر تھے ، انھیں جوش سے ہوش کی طرف مائل کیا، عاقبت نا اندیشی سے دانش وبصیرت اور حکمت وتدبر کی طرف مائل کیااور سب سے بڑھ کر مارچ اور دھرنے کے شرکاء کو قائل کرنا تھا، جس کے لیے ہم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے خدمت انجام دی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّمﷺکے طفیل ہمیں اس میں سرخرو فرمایا، ورنہ ہم عاجز بندے ہیں ،ہمارا کام اخلاصِ نیت سے سعی کرنا ہے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور توفیق سے ہوتا ہے، الحمد للہ علیٰ احسانہ!پوری قوم نے اور دنیا نے ایسا ہوتا ہوا دیکھا۔
اب ہمارے مہربان سیکولر لبرل طبقات کے ہاں ملک وملّت کے مفاد میں حاصل کی گئی کامیابی پر’’ شامِ غریباں ‘‘منائی جارہی ہے، انھوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور وہ اُن لمحات اور اُس منظر کے منتظر تھے کہ گولیاں چلیں اور لاشیں گریں اور ملک ایک بار پھر لاقانونیت کی آماجگاہ بن جائے۔ لیکن الحمد للہ!مقتدر طبقات نے ، جو طاقت کااصل مرکز ہیں، حکمت وتدبر سے کام لیا ، صبر واستقامت کامظاہرہ کیا ، اپنا پورا وزن ہماری کاوشوں کے پلڑے میں ڈال دیا اور ہم نے ان کے اور پوری قوم کے اعتماد کو مجروح نہیں ہونے دیا ۔ لوگوں کو اندازہ نہیں ہے کہ ملک کے اندر اور بیرونِ ملک پاکستانیوں نے کتنی خوشی منائی اور کتنی دعائیں دیں۔ اس سفر میں حاجی عقیل کریم ڈھیڈھی ، مولانا بشیر فاروق قادری اور مفتی عابد مبارک بھی میرے ہمراہ تھے۔
سیکولر لبرل کرم فرماؤں کی خدمت میں گزارش ہے کہ یہ کڑا وقت صبر واستقامت سے گزار لیں، اُن کے لیے ،وطنِ عزیز کے لیے اور پورے ملک وملّت کے لیے اس میں خیر ہی خیر ہے۔ایک لبرل کرم فرما نے لکھا اور میڈیا پر بھی گوہر افشانی فرمائی :’’ اگر ٹی ایل پی کو معاف کیا جاسکتا ہے تو فلاں فلاں کو کیوں معاف نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ میرا ان سب کو جواب ہے اور چیلنج ہے کہ کوئی ثابت کرے کہ تحریک لبیک پاکستان کا کوئی ڈیتھ سیل ہے یا ٹارچر سیل ہے یا کوئی بھتہ سیل ہے۔ حضور والا!دعویٰ کافی نہیں ہوتا، دلیل چاہیے اور جن پر یہ الزامات لگے ہیں، اُس کے ثبوت ملک کے درودیوار پر نقش ہیں، امامِ اہلسنّت نے فرمایا تھا:’’دیدہ کور کو کیا آئے نظر ،کیا دیکھے‘‘، اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے:’’پس حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں (دھڑکتے) ہیں،(الحج:64)‘‘۔
کچھ لوگ مستقبل کے لیے وعیدیں (Threats) اورتنبیہات(Warnings)سنارہے ہیںکہ آگے چل کر یہ جماعت اوربھی خطرناک ہوجائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہوگا اور ہرگز نہیں ہوگا، یہ ملک وملت کے لیے بہترین ثابت ہوگی ، یہ لوگ حُبِّ رسول سے سرشار ہیں اور وطنِ عزیز کے وفادار ہیں ، ہاں!یہ الگ بات ہے:
جب چمن کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ وطن
یہ وطن ہے ہمارا تمہارا نہیں
افتخار عارف نے کہا ہے:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں ،جو واجب بھی نہ تھے
اس کے لیے تاریخ کا مطالعہ کرنا ضروری ہے کہ کون سا طبقہ ہے جو تحریک پاکستان میں قائدِ اعظم کا ہمنوا تھا اور کون لوگ ہیں کہ جن کے اَجداد کی جنگِ آزادی کے شہداء کے خون کی قیمت جاگیروں ، القاب اور انعامات کی صورت میں انگریزوں سے وصول کر رہے تھے ، اس پر کئی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاچکے ہیں، جسے اپنے آباء کی حقیقت جاننے کا شوق ہو، ان کا مطالعہ کرلے اور انگریزوں نے جو ہرضلع کے لیے جو Gazetteer لکھ چھوڑے ہیں، ذرا فرصت ملے تو اُن کا بھی مطالعہ فرما لیں ۔
معاہدے میں کوئی ایک شق بھی ایسی نہیں ہے کہ جو اسلام اور پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو،جس سے فی الوقت یا آئندہ پاکستان کو نقصان پہنچ سکتا ہو، ان شاء اللہ یہ ناروا الزامات ،خدشات ، توہّمات اور شکوک وشبہات غلط ثابت ہوں گے، آنے والی تاریخ سب کچھ واضح کردے گی۔ کچھ لبرل عناصر کو پاکستانی سیاست میں مذہب کا حوالہ بھی کھٹکتا ہے،لیکن کیا ان کو معلوم نہیں کہ قائدِ اعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کو ہمکنار کرنے والی جماعت کا نام مسلم لیگ تھا، انھیں جرمنی میں’’ کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی‘‘ کے نام میں مذہب کا حوالہ بالکل نہیں کھٹکتا ، کیونکہ یہ حوالہ مغرب سے آتا ہے جو ان مہربانوں کے لیے حجتِ لازمہ قاطعہ ہے، بس اعتراض ہے تو اس بات پر کہ پاکستانی سیاست میں اسلام کا حوالہ کہیں نہیں آنا چاہیے۔
میرے الفاظ کوبعض لبرل عناصر نے سیاق وسباق سے کاٹ کر یہ کہا اور لکھا ہے:’’مفتی منیب الرحمن کہتے ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی ہے‘‘، یہ غلط ہے ، پہلے حکومت نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کردیں گے ، لیکن آخری معاہدے میں یہ تھا:’’ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مسئلہ پارلیمنٹ میں پیش کردیا جائے اور اس کا جو بھی فیصلہ ہو ، قبول ہوگا‘‘، یہ سوفیصد آئینی اور قانونی طریقہ ہے ، لیکن اس میں اپنے مؤقف سے دستبرداری کا حوالہ کہاں ہے؟ فرق صرف یہ ہے کہ انھوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا اور اپنے مطالبے کے لیے آئینی اور قانونی طریقہ کار اختیار کیا، لیکن اس پر بھی اعتراض ہے ، اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت دے۔
ہم نے مذاکرات کے دوران اہلِ اقتدار واختیار کو یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی تحریکات چلانے کے لیے ایک متفقہ میثاق وضع کرلیجیے ،جس کا اطلاق سب پر یکساں ہو تو تحریک لبیک پاکستان بھی اس میثاق کی مکمل پابندی کرے گی، لیکن امتیازی (Discretionary) برتاؤقبول نہیں ہوگاکہ جو اس شعر کا مظہرہو:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی
اُن دوستوں کی خدمت میں جو مسلسل تحریک لبیک پاکستان پر کریک ڈاؤن اور گولیوں کی بوچھاڑ کا مطالبہ کر رہے تھے، گزارش ہے کہ طاقت کا اندھا دھند ، وحشیانہ اور عاقبت نااندیشانہ استعمال فرعونی خصلت ہے اور طاقت کا حکیمانہ اور فراستِ مؤمنانہ پر مبنی استعمال شعارِ نبوت ہے اوراگر کوئی مقصد ایک گولی چلائے بغیر حاصل ہوجائے تو وہ اُس طریق کار سے کروڑہا درجے بہتر ہے کہ جس میں اپنے لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کردیاجائے، کیونکہ اس کے اثرات پھر کبھی بھلائے نہیں جاتے اور یہ ایسے صاحبانِ اقتدار کا خواب میں بھی تعاقب کرتے رہتے ہیں اور مابعدالموت بھی ان کا ذکر شر کے ساتھ ہی ہوتا ہے، خیر کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کوئی بتائے ! کیا 1953ء کی تحریکِ ختم نبوت، لیاقت باغ میں نیشنل عوامی پارٹی کے جلسے پر کریک ڈاؤن ،اپریل2006ء میں نشتر پارک میں جشن میلاد النبی ﷺپر خود کش حملہ ، 12مئی2007ء کو سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے استقبالیے پر پچاس سے زائد اموات ، لال مسجد کا سانحہ، آرمی پبلک اسکول پشاور پرحملہ اورسانحہ ماڈل ٹاؤن کو بھلایا جاچکا ہے؟ کیا یہ زخم بھلائے جاسکتے ہیں؟ کیا ان کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا جاسکتا ہے؟ کیا آج بھی جلیاں والا باغ کا تذکرہ نہیں ہوتا؟ اس لیے میں نے چیف آف آرمی اسٹاف کو مخلصانہ مشورہ دیا تھا کہ سیاستدان تو تنگ گلی سے پہلو بچاکر نکل جاتے ہیں، لیکن آپ اس کے عواقب سے اپنا دامن بچانہیں سکیں گے، آج اکثر لوگوں کو وزیراعظم شوکت عزیز کا نام بھی یاد نہیں ہے، لیکن لال مسجد کا سانحہ ، اکبر بگٹی کا ظالمانہ قتل اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا تذکرہ لازم وملزوم ہے، وہ کبھی بھی تاریخ سے اپنا دامن چھڑا نہیں سکیں گے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ وفاقی وزراء اور ذمے داران یکے بعد دیگرے تحریک لبیک پاکستان سے معاہدے کرتے رہے اور پھر اُن کو سرِ عام توڑتے رہے. ایک بار وفاقی وزیر مذہبی امور نے دن میں معاہدہ کیا اور شام کو ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا:’’اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے‘‘، کیا اللہ کے قانون سے بڑھ کر بھی کوئی قانون ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’عہد کو پورا کرو ،بے شک (آخرت میں)عہد کے بارے میں باز پرس ہوگی. (بنی اسرائیل:34)‘‘۔ نیز حدیث مبارک میں منافق کی یہ علامتیں بیان کی گئی ہیں: ’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، جب اُسے امین بنایا جائے تو خیانت کرے ، جب وہ جھگڑا کرے تو گالیاں دے اور جب معاہدہ کرے تو دھوکہ دے‘‘ اور تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ تو ایک بار نہیں،پانچ بار معاہدے کرکے توڑے گئے ہیں اور پھر بھی الزام تحریک لبیک پاکستان پر ، اسی کے بارے میں شاعر نے کہا ہے:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اور فارسی کی کہاوت ہے:’’نزلہ عضوِ ضعیف پر گرتا ہے‘‘۔
تبصرہ لکھیے