ہوم << حتمی نقصان آج کی جماعت ہی کا ہو گا...نصرت جاوید

حتمی نقصان آج کی جماعت ہی کا ہو گا...نصرت جاوید

news-1468533571-2117
تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین صاحب، باقاعدہ طورپر PEMRAکے دفتر شکایت لے کر چلے گئے تو بخدا مجھے ’’اسی باعث تو منع کرتے تھے‘‘ والی طمانیت کا احساس نہیں ہوا۔دُکھ ہوا۔ غصہ آیا بھی تو اپنے ہی شعبے کے ان لوگوں پر جنہوں نے اپنے سیٹھوں کو Ratingsفراہم کرنے کے جنون میں ہمارے پیشے کے تمام بنیادی اصولوں کا کئی برسوں سے وحشیانہ قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔ رزق کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ہر کوئی سرمد یا منصور حلاج نہیں ہوتا۔زندہ رہنے کے لئے بہت سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں۔ بچے پیدا کر لو تو ان کو ذراسکھ پہنچانے کے لئے کئی موقعوں پر سرجھکانا اور دلوں میں نرمی پیدا کرنا پڑتی ہے۔
صحافت سے رزق کمانے کا اہتمام مگر آپ نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے تو اس شعبے میں سٹاراینکرز سے قطع نظر تمام متعلقہ شعبوں کے لئے کام کرنے کی جو تنخواہ ملتی ہے، وہ نچلے اور درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے دیگر ملازم پیشہ لوگوں کی تنخواہوں کے مقابلے میں عموماََ بہت کم ہوتی ہے۔کئی اداروں سے وہ تنخواہ وقت پر ہی نہیں کئی کئی مہینوں تک نہیں ملتی۔
آپ مگر کام کرتے رہتے ہیں تو وجہ اس کی بنیادی صرف یہ ہوتی ہے کہ آپ کو صحافت سے عشق ہوتا ہے۔ جس پیشے سے آپ کو عشق رہا ہو اور اس عشق کے لئے آپ نے کئی ذلتیں اور اذیتیں بھی برداشت کررکھی ہوں اس کے تمام اصولوں کا قتل کرتے صرف سیٹھ کو Ratingsفراہم کرنے کے لئے کچھ بھی کرگزرنا بھی تو ہرگز ضروری نہیں رہتا۔بہتر یہی ہوتا ہے کہ صحافت چھوڑ کر سڑک کے کسی کنارے یا گلی کی نکڑ پر چھولے بیچنا یا سٹے بھوننا شروع کردو۔ صحافت کو بدنام نہ کرو۔ ربّ کریم رازق ہے۔ پتھرمیں بند ہوئے کیڑے کے رزق کا بندوبست بھی کسی نہ کسی طرح کردیتا ہے۔ ہم تو نام نہاد ’’اشرف المخلوقات‘‘ سے تعلق رکھنے کے دعوے دار ہوا کرتے ہیں۔ سیٹھ کو Ratingsکی فراہم کے لئے تمام انسانی قدروں اور اپنے ہی شعبے کے تمام بنیادی اصولوں کی پائمالی پر مجبور ہوگئے ہیںتو اندھی غلامی کئی اور شعبوں کی طرف منتقل ہوکر بھی برقرار رکھی جاسکتی ہے۔
سیٹھ کو ہر صورت Ratingsفراہم کرنے کا جنون یا مجبوری، اسے جو بھی نام دے لیں، ہم پر طاری ہوا تو وجہ اس کی صرف اتنی ہے کہ ہمارے پیشے میں اہم ترین ایک شعبہ ہوا کرتا تھا۔ ’’ایڈیٹر‘‘ اس کا نام تھا۔تیمور کے گھر سے غیرت چلی گئی تھی۔ صحافت شعبے سے ایڈیٹر چلا گیا۔یہ ایڈیٹر سیٹھ اور کارکنان کے درمیان ایک Cushionکا کام کرنے کے ساتھ ہی ساتھ کارکنوں کے لئے ایک سخت Gate Keeperبھی ہوا کرتا تھا۔
گیٹ کیپرسے یا د آیا کہ چند روز پہلے لاہور میں قائم پیمراکے شکایات سیل کے روبرو ایک سیٹھ پیش ہوئے۔ صحافت کے ایک مہا استاد مانے ڈاکٹر مہدی حسن بھی اسی سیل کے ایک رکن ہیں۔ انہوں نے سیٹھ سے رواداری میں پوچھ لیا کہ آپ کے ادارے میں کوئی گیٹ کیپر نہیں ہے تو سیٹھ نے ترنت جواب دیا کہ ’’چھ ریٹائرڈ فوجی ہمارے گیٹ کیپر ہیں۔ کوئی غیر ہمارے ادارے میں داخل ہونے کی جرأت ہی نہیں کرسکتا‘‘۔
خود پر لعنت ملامت بھیجنے کے بعد دست بستہ جہانگیر ترین سے فریاد البتہ یہ بھی ہے کہ وہ ذرا یہ بھی یاد کرلیں کہ جب ان کی جماعت اسلام آباد میں دھرنا دئیے ہوئے تھی تو شیڈیولڈ پروگراموں کو روک کر ان کے قائد کا اس دھرنے سے خطاب بیک وقت تمام ٹی وی چینلوں سے براہِ راست دکھانے کا اہتمام کیسے ممکن ہوا کرتاتھا۔ کوئی تو تھا جو یہ انتظام چلارہا تھا۔ سیٹھوں کے چینلوں پر ہونے والے کئی Flagshipپروگراموں کے لئے اشتہارات کی بکنگ کئی ماہ پہلے ہوچکی ہوئی ہوتی ہے۔ سیٹھ ان اشتہارات سے ملنے والی رقم کو قربان کرنے پر کیوں تیار ہوا؟ مجبوری کیا تھی۔ یہ نازل کہا سے ہوئی اور اشتہارات نہ چلانے سے جو مالی نقصان ہوا اسے سیٹھ کی تسلی کے لئےCompensateکس نے اور کیسے کیا؟
جہانگیر ترین صاحب کی وساطت سے ان تمام سوالات کے جوابات مل جائیں تو PEMRAکمزور نہیں سچ مچ کا ادارہ بن جائے گا۔ اس کے دانت نکل آئیں گے اور شاید یہ دانت کئی برسوں سے مرحوم ہوئے ایڈیٹر کے ادارے کی بحالی کا سبب بھی بن جائیں۔
جہانگیر ترین صاحب سے ڈٹ جانے کی فریاد کرتے ہوئے میں انہیں ہرگز یہ بھی یاد نہیں دلائوں گا کہ ٹی وی پر کسی سیاستدان کی جانب سے اپنے مخالفین کو ’’اوئے‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے کا چلن کس شخص نے متعارف کروایا تھا۔ میں Ratingsکو شرطیہ فراہم کرنے کی ضمانت دینے والے اس شخص کا نام بھی نہیں لوں گا جوعقلِ کل بنے اینکر حضرات کے ساتھ ون آن ون بیٹھتا ہے۔
جنرل کیانی کے زمانے میں پوری مسلح افواج کو ’’ستو‘‘ پی کر سونے کا ملزم گردانتا تھا۔ جی ایچ کیو کے کسی گیٹ نمبر4یا پانچ کا تواتر سے ذکر بھی اسی شخص نے شروع کیا جہاں سے بقول اس کے وطن عزیز کے تمام سیاستدان چہرے چھپائے ’’ان‘‘ سے ہدایات لینے داخل ہوتے ہیں۔ اتفاق سے یہ شخص ان دنوں جہانگیر ترین صاحب کی جماعت میں باقاعدہ شامل ہوئے بغیر بھی ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے جنون میں مبتلا اپنے تئیں نیکی وپارسائی کی علامت بنے’’انقلابی‘‘ کا Strategic Guruبھی بنا ہوا ہے۔ اگرچہ ان دنوں اس کے دل میں کافی شفقت اسی نوجوان سیاستدان کے لئے بھی پیدا ہوتی نظر آرہی ہے جسے ٹی وی سکرینوں پر وہ کبھی ’’بلورانی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔
منگل کا پورا دن ہمارے ٹی وی چینلوں کی اکثریت نے جس انداز میں عمران خان صاحب کی مبینہ یا ممکنہ تیسری شادی کا ذکر صحافت کے تمام بنیادی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیا وہ یقینا قابلِ مذمت ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ قابلِ مذمت چند خواتین کا نام لینا اور ان کی تصاویر برسرِعام لانا ہے۔
اہم سوال مگر یہ بھی ہے کہ عمرا ن خان صاحب کی مبینہ یا ممکنہ تیسری شادی کا امکان ہمارے دلوں میں کس نے اجاگر کیا۔ وہ کون تھا جس نے تیسری شادی کے ’’امکانات‘‘ لوگوں کے سامنے لائے اور سیٹھوں کے لئے Ratingsفراہم کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو ہر وقت تیار ذہنی غلاموں کو ’’کھوجی‘‘ بنادیا۔
جہانگیر ترین صاحب کو یاد نہ رہا ہو تو بتائے دیتا ہوں کہ ان کے قائد نے بھارت کے ایک بہت فروخت والے اخبار ہندوستان ٹائمز کو اتوار کے دن ایک تفصیلی انٹرویو دیا تھا۔ اسی کا پرنٹ آئوٹ چار صفحوں میں نکلتا ہے۔ اس پرنٹ آئوٹ کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھیں۔ کپتان، جسے صحافیوں کو اپنی پسند کا سوال نہ کرنے پرShut up Callدینا خوب آتا ہے اس انٹرویو میں فضائل شادی بیان کرتا چلا گیا۔ ان فضائل کی روشنی میں انٹرویو لینے والے کے دل میں لامحالہ سوال اٹھا کہ کیا کپتان تیسری شادی بھی کرسکتا ہے۔ جب یہ سوال ہوا تو کپتان نے فوراََ کہا ’’کیوں نہیں‘‘ اور یہ بھی کہ وہ تنہائی سے اکتا چکا ہے اور ہارمان لینا اس کے خون میں شامل ہی نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس انٹرویو کی اشاعت کے بعد سیٹھوں کے لئے ہر صورت Ratingsفراہم کرنے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار صحافی کہلاتے ملازم پیشہ ’’کھوجی‘‘ بن گئے تو سزاکے حق دار صرف وہ ہی کیوں؟ جہانگیر ترین صاحب اپنی ہی جماعت کی اس نام نہاد ’’سوشل میڈیا ٹیم‘‘ کے چلن پر بھی ذرا غور کرلیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے ایک آخری بات سیاست کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ اپنے قائد کی مبینہ یا ممکنہ تیسری شادی کے نامناسب ذکر کے خلاف PEMRAکے روبروجہانگیر ترین صاحب جو شکایت لے کر پہنچے ہیں اس کا حتمی نقصان ان کی اپنی ہی جماعت کو پہنچے گا۔ اس سے بھی کہیں زیادہ ان کے قائد کے لال حویلی سے اُٹھے Guruکو بھی۔

Comments

Click here to post a comment