1- فوج : یہ ہم پر الزام ہے کہ ہم سویلین شخصیات سے اللہ واسطے کا بیر رکھتے ہیں۔ غلط، بالکل غلط۔
بندہ ”جینوئن“ ہونا چاہیے۔ ہم اکرام اور احترام کی آخری حد کو بھی ارزاں کر دکھائیں گے۔
2- سیاستدان و حکمران: بھئی جو ہمارے راستے کی دیوار نہ بنے اور ہمارے کرنے کے کام بھی اپنے سر لے لے اس کے لیے ہماری طرف سے بھی ٹرپل آفر.... اس کی زندگی میں بھرپور طور سے زبانی جمع خرچ، بیماری پر ہسپتال کا دورہ بمعہ سیلفی اور مرنے پر جنازے میں خود یا بذریعہ نمایندہ شرکت ... مزید زبانی جمع خرچ اس کے علاوہ !
3- عوام: جو ہمارے لیے سچے دل سے کچھ کرے گا اس کے لیے ہمیں پیدل، بسوں پر، موٹر سائیکل، گدھا گاڑی... غرضیکہ جیسے بھی آنا پڑا ہم پہنچیں گے... جامہ تلاشی کروائیں گے، گھنٹوں قطار میں لگے رہیں گے، گرمی سے پسینے میں شرابور ہوجائیں گے، لیکن دعا کے لیے ضرور پہنچیں گے... اور یاد رہے ... برکت اور نفری ہماری موجودگی سے ہی ہوتی ہے ... !!!
ہمارا مشورہ برائے اول و دوم ....
بھائی... پوائنٹ سکورنگ وغیرہ کی گیم سے نکل کر اپنے اپنے کام کی طرف یکسو ہوں .... بے فکر رہیں .. قوم سب دیکھ رہی ہے. اس پر اعتماد کریں. جو ان کے لیے صدق دل سے کچھ کرے گا اسے وہ خالی ہاتھ کبھی نہیں جانے دیں گے۔ سچ مچ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایدھی صاحب کے حوالے سے بعض لوگوں نے منفی انداز میں پوسٹیں کی ہیں، ہماری معروضات سادہ سی ہیں :
جناب اگر میں بھی جنت مل جانے کی امید لگائے بیٹھا ہوں اور اپنی حرکتوں میں کوئی تبدیلی لائے بغیر اللہ تعالیٰ کے غفور اور رحیم ہونے پر سارا تکیہ کیے ہوئے ہوں تو ایدھی صاحب کے لیے خدا کو جبار اور قہار کیسے بنادوں؟؟؟
یوں بھی، بچپن سے سنتے آئے کہ ایک مسافر نے پیاسے کتے کو کنویں سے پانی پلایا اور بخشا گیا، یا کسی بدکردار خاتون نے بلی کو بھوکوں مرنے سے بچایا تو اس کی مغفرت کا سامان ہو گیا ... ایسے میں ایدھی صاحب محض اس وجہ سے ڈس کوالیفائی ہو جائیں کہ وہ انسانوں کے لیے کام کرتے رہے.... دل نہیں مانتا !
چلیں ہمیں تو کسی نے ٹھیکہ نہیں دیا، نہ منکر نکیر کی آسامیوں کے لیے درخواستیں مانگی ہیں جو ہم اپلائی کر کے دو دو ہاتھ کر لیں. معاملہ اللہ کا، سوال جواب کرنے والے منکر نکیر.... ہمارے ذمہ کیا ہے .... ؟ چپ رہیں یا دعا کر دیں. دونوں کام بیک وقت بھی ہو سکتے ہیں ......
جو نہیں دیکھا اس پر رائے زنی سے کہیں بہتر ہے چپ رہیں، اور جو دیکھا ہے اس کی بنیاد پر دعا کر دیں. باقی اللہ تعالٰی جانیں اور ان کا کام. کم از کم گواہی چھپانے کے مجرم تو نہیں ٹھہریں گے ہم.
دعا سے گھبرائیں مت، یہی سوچ لیں کہ .... ہمارے لیے بھی تو لوگ ہاتھ اٹھا ہی لیں گے نا... ہمارا ظاہر اچھی طرح جاننے کے باوجود .... !!!
ڈاکٹر عاصم الله بخش ایک میچور دانشور ہیں ، لیکن یہاں ان کی اس تحریر سے ادب سے اختلاف کرنا ضروری ہے ........
جس بندے سے سارے ہی خوش ہوں اس کا یا تو کوئی نظریہ ہی نہیں ہوتا ، یا پھر وہ بہت بڑا منافق ہوتا ہے
آپ جس شخص کی بات کر رہے ہیں وہ بھی بنا کسی نظریہ ، کسی الہامی اخلاقی افکار اور کسی انصاف کے نظام کی خواہش کیے بس اس باطل نظام کی سڑاند اور گند کو سمیٹتا رہا -
ناانصافی کا ہاتھ روکنے والا ٹھہرا فسادی ، ناانصافی پر تنقید کرنے والا اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے ٹھہرے جھگڑالو ، اور ناانصافی کے ہاتھوں مولی گاجر کی طرح کٹنے والے انسانوں کی مرہم پٹی اور ان کی لاشیں ڈھونے والا ٹھہرا ایک مسیحا
"لاشیں چاہے جتنی مرضی آتی جائیں ، ہمیں کیا ؟ ہمارا دھندہ مرہم پٹی کرنا ہے "
ایسے مسیحا تو پھر اور بھی کئی ہیں ، جب شیطان ممالک مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں اور ان کو لاکھوں کی تعداد میں قتل کر ڈالیں تو آپ وہاں امداد بھیج کر مرہم پٹی کا بندوبست کروا دیں ، واہ جی واہ عجب مسیحا تھا ، سارے اس سے خوش تھے
آپ مسیحائی کی تحسین ضرور کریں ، ایدھی کے اچھے کاموں کی بھی تحسین کریں ، لیکن براۓ مہربانی نظریہ اور ایمان کا دفاع کرنے والوں کو موم کی ناک بننے کا سبق نہ دیں ، آج کفّار کو مسلمانوں سے کیا تکلیف ہے ؟ یہ تہذیبوں کا ٹکراؤ کس وجہ سے ہے ؟ آج مسلمان اگر اسلام کو چھوڑو دیں تو کفّار کو کیا مسلہ رہے گا پھر ان سے ؟
بہترین کالم