باپ چار بچوں کے ساتھ ٹرین میں سوار ہوا، ایک سیٹ پرخاموشی سے بیٹھ گیا
اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا
بچے؟
بچے نہیں آفت کے پرکالے تھے
انہوں نے ٹرین چلتے ہی آسمان سر پر اٹھا لیا
کوئی اوپر کی سیٹوں پر چڑھ رہا ہے تو کسی نے مسافروں کا سامان چھیڑنا شروع کر دیا
کوئی چچا میاں کی ٹوپی اتار کر بھاگ رہا ہے تو کوئی زور زور سے چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رہا ہے
مسافر سخت غصے میں ہیں
کیسا باپ ہے ؟
نہ انہیں منع کرتا ہے نہ کچھ کہتا ہے
کوئی اسے بے حس سمجھ رہا ہے تو کسی کے خیال میں وہ نہایت نکما ہے
بلآخر جب برداشت کی حد ہو گئی تو ایک صاحب غصے سے اٹھ کر باپ کے پاس پہنچے اور دھاڑ کر کہا
"آپ کے بچے ہیں یا مصیبت ؟ آخر آپ ان کو ڈانٹتے کیوں نہیں؟
باپ نے ان صاحب کی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں اور بولا
'آج صبح ان کی ماں کا انتقال ہوگیا ہے، میں ان کو وہیں لے کر جا رہا ہوں. مجھ میں ہمت نہیں کہ ان کو کچھ کہہ سکون آپ روک سکتے ہیں تو روک لیں.
سارے مسافرایک دم سناٹے میں آ گئے
ایک ہی لمحے میں منظر بالکل بدل چکا تھا
وہ شرارتی بچے سب کو پیارے لگنے لگے تھے
سب آبدیدہ تھے
سب انہیں پیار کر رہے تھے
اپنے ساتھ چمٹا رہے تھے
زندگی میں ضروری نہیں کہ حقائق وہی ہوں جو بس ہمیں نظر آ رہے ہوں
بلکہ وہ بھی ہوسکتے ہیں جو ہمیں نظر نہ آ رہے ہوں
فیصلے سے پہلے ذرا ایک بار اور سوچ لیں
بس ایک بار اور
اور بس اپنے ہی درست اور عقل کل ہونے پہ اصرار نہ کریں؟
اللہ بہت محبت سے ہمیں دیکھ رہا ہے
اور ہم سے اپنے بندوں کے لیے نرمی اور معافی کا طلبگار ہے
تبصرہ لکھیے