سنگ ریزوں کو مہرو ماہ کیا دل خرابے کو خانقاہ کیا ہم بھی وحشت میں فرق کر نہ سکے عشق ہم نے بھی بے پناہ کیا بات یہ ہے کہ شعر جتنا سادہ اور سہل ہو گا وہ پایاب پانیوں کی طرح ہوتا ہے آسانی سے سمجھ میںنہیں آتا۔بعض اوقات اس کے پیچھے پورا فلسفہ ہوتا ہے۔
اب اس عہد میں لوگوں کو وحشت کا بھی نہیں پتہ تو کیا کریں حالانکہ یہ بیماری بہت عام ہے۔ عشق کا تو خیر اب رواج ہی نہیں یا حوصلہ ہی نہیں یہ تو ایک منصب ہے اور وہ بھی بہت اعزاز کا۔پھر مجھے غالب یاد آتے ہیں کہ عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی میری وحشت تری شہرت ہی سہی ۔ گویا وحشت کو عشق سمجھنا ایک بے سمت چھوڑا ہوا میزائل ہے میں یہ نہیں کہتا کہ کسی کی پیروی کرنا بھی عشق کہلاتا ہے تاہم اگر مقصد پیش نظر ہو تو کچھ بات متعین ہو جاتی ہے ۔ پھر اور کیا نہیں: سعد ایسے ہی ہم بھی چاہتے تھے جیسے اس نے ہمیں تباہ کیا آپ یہ جانیے کہ میں نے یہ تمہید ایک نہایت خوشگوار تقریب کا حال بتانے کے لئے باندھی ہے۔
اس تقریب سے بھی زیادہ اہم وہ مقصد ہے جو اس عمل کے پیچھے ہے یعنی سچ مچ انسانیت سے عشق، محمد علی صابری صاحب نے 14اگست کے حوالے سے مجھے مدعو کیا اور ندیم گوہر صاحب کے ادارے نائیس ویلفیئر سوسائٹی اور دستکاری کی عمارت میں ہم داخل ہوئے یہاں تو ماحول ہی کچھ اور تھا۔ ندیم گوہر اور سائرہ اقبال نے ہمیں اس ادارے کا تعارف کروایا کہ یہاں غریب اور ضرورتمند خواتین کو دستکاری اور کچھ ہنر سکھائے جاتے ہیں اور سرٹیفکیٹ کے ساتھ الوداع کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی روٹی روزی کما سکیں اور یہ سب کچھ فری فی سبیل اللہ ہوتا ہے۔ اصل میں یہی لوگ ہیں جو اس معاشرے میں کنول کے پھولوں کی طرح تیر رہے ہیں اس پر میں ابھی بات کرتا ہوں ساتھ ہی جشن آزادی پر زبردست مشاعرہ تھا اورہمیں محمد علی صابری نے کان میں بتایا کہ ہماری محبت میں اتنے شعرا تشریف لائے ہیں۔
ہمیں دوسرے صدور کی طرح صدر ہونے کی سزا تو بھگتنا پڑی کہ بلا مبالغہ پچاس ساٹھ تو صرف شاعر ہی تھے لیکن مجھے طمانیت یہ پہنچی کہ ان میں کچھ ایسی شاعری سننے کو ملی جو آپ پڑھیں گے تو داد دیں گے قومی ترانہ ہوا سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے خواتین تو سبز لباس میں ملبوس تھیں خاص طور انمول گوہر اور شبنم مرزا۔وہ جو میں نے اچھی شاعری کا تذکرہ کیا تو ایک نرگس نور تھیں انہوں نے جو اشعار پڑھے ہیں اس سے معاشرے کی ایک تصویر سامنے آئی تھی یہ گل بلبل کی شاعری نہیں بلکہ تلخ حقیقتیں ہیں۔ میں نے چھینی ہے نہ مانگی نہ چرائی روٹی میرے حصے میں جو آئی وہی کھائی روٹی تم میرے باپ کو کاما نہیں مزدور کہو کیونکہ محنت سے یہی اس نے کمائی روٹی مجھ کو جینے کا بھی سامان ملا میکے سے بعد مرنے کے بھی میکے ہی سے آئی روٹی ساری غزل ہی دکھ سے بھری تھی صدیق جوہر کی زبردست نظامت تھی سامعین اور حاضرین نے سبز ہلالی پرچم پکڑ رکھے تھے۔
باقاعدہ ایک خوشگوار ماحول تھا ہاں مگر ساتھ شعر کو سننا اور پھر ان میں سے کچھ جو ہر وزن سے آزاد تھے مگر آزادی پر یہ آزاد شاعری سننا پڑی۔میرے جیسا شخص جو خواب بھی بے وزن نہیں دیکھتا اس پر مسکراتا رہا۔آخر جذبوں کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے پھر وہی اچھی شاعری کی بات کہ محمد عباس مرزا جو کہ مہمان خصوصی تھے انہوں نے پنجاب کی بوباس میں بھیگی ہوئی نظم پڑھی نظم طویل تھی میں نوٹ نہ کر سکا کامران باشط کے اشعار بھی کمال تھے: کسی بھی جھوٹے خدا کے در پر فقیر بن کر نہیں رہیں گے فلک نشینو زمین زادے اسیر بن کر نہیں رہیں گے غریب پرور جو تم نہیں ہو تو شاہ والا یہ صاف سن لو یہ سر کٹانا قبول ہے پر مشیر بن کر نہیں رہیں گے بہت ہی راست فکر شاعر اور نائس ویلفیئر کے خیر خواہ محمد علی صابری نے بتایا کہ:یہ سوسائٹی 2017ء سے معاشرتی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں ہے .
ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا رکن ادارہ ہے خواتین کو 3ماہ کے عرصہ پر محیط ڈریس ڈیزائننگ فیشن ڈیزائننگ اور بیوٹیشن کورس کی تربیت فری دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں سرٹیفکیٹ کے ساتھ انعامات سے بھی نوازا جاتا ہے خاص طور پر ایک عدد سلائی مشین۔ گزشتہ پانچ سال میں سینکڑوں خواتین اس سہولت سے فیض یاب ہوئیں۔ پاک برٹش آرٹس کونسل کے اشتراک سے ایک میڈیکل سنٹر کا بھی آغاز کیا گیا ہے ۔زبردست بات یہ کہ اس ادارے کے تحت ماہانہ مشاعرہ بھی ہوتا ہے۔اب آخر میں کچھ اشعار دوستوں کے جو وہاں پڑھے گئے: ٹوٹے پروں کے ساتھ بھی اڑتی رہی ہوں میں میرے عدوکا آخری حملہ پروں پر تھا (انمول گوہر) عباسؓ نامدار کا حیدر کی آل کا اسلام قرضدار ہے.
زہرا کے لعل کا (شبنم مرزا) وطن ہمارا وطن تمہارا تم اس کا نغمہ سنائے رکھنا یہ دیس علم و ہنر میں لوگو ،سبھی سے آگے پڑھائے رکھنا (میاں جمیل احمد) بہرحال پانچ یا چھ گھنٹے جاری رہنے والا مشاعرہ آخر کار انجام کو پہنچا۔ خوشی اس بات کی کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ انسانیت کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔خاص طور پر بے آسرا لوگوں کو سہارا دے رہے ہیں اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے وہی کہ جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو۔پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں چلیے آخر میں مرزا محمد عباس کا ایک بند لکھ دیا ہے: سورج کرناں جگ مگ کیتا کوڑ ہنیرا نسیا اج دیہاڑے چن نرویا ایس دھرتی تے ہسیا نویں نکور ہوا دے بلّے رمکن ہسن کھیڈن آس امید دا سجر بوٹامنہ منہ رس رس رسیا
تبصرہ لکھیے